مصر کی فضائیہ کو تباہ کرنے کے بعد پانچ جون 1967 کی گرم اور گرد آلود دوپہر، چار اسرائیلی طیارے یہ ہدف لیے اردن کے مَفرَق فضائی اڈے پر حملہ آور ہو رہے تھے کہ اس ملک کی چھوٹی سی ایئر فورس کو بھی ختم کر دیں گے۔
اس دن صرف آدھے گھنٹے میں اسرائیلی فضائیہ نے مصر کے دو سو سے زیادہ لڑاکا طیارے زمین پر ہی تباہ کر دیے تھے۔ لیکن اردن کے مَفرَق فضائی اڈے کو تباہ کرنے کا منصوبہ مکمل ہونے تک اسرائیلی فضائیہ دو طیارے کھو چکی تھی جن میں سے ایک کو مار گرانے والے پائلٹ کا تعلق پاکستانی فضائیہ سے تھا۔
یہ پائلٹ تھے پاکستان ایئر فورس کے فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم جنھوں نے پانچ جون کو اردن کی فضائیہ کا طیارہ اڑاتے ہوئے ایک اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایا اور پھر صرف دو ہی دن بعد سات جون کو عراقی فضائیہ کا لڑاکا طیارہ اڑاتے ہوئے دو اور اسرائیلی طیارے مار گرائے۔
پاکستان ایئر فورس میں 1960 میں کمیشن حاصل کرنے والے سیف الاعظم، جو دو سال پہلے 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے دوران انڈین فضائیہ کا بھی ایک طیارہ گرا چکے تھے، بعد میں بنگلہ دیش کی فضائیہ کا حصہ بنے۔
پاکستان سے اردن تک
’دی گولڈ برڈ: پاکستان اینڈ اٹس ایئرفورس، آبزرویشنز آف اے پائلٹ‘ میں منصور شاہ لکھتے ہیں کہ ’ہماری (پاکستان) فضائیہ کے 35 فیصد ٹیکنیشنز اور سیف الاعظم جیسے بہترین پائلٹس سمیت ایک چوتھائی پائلٹس مشرقی پاکستان سے تھے۔‘
1965 کی جنگ میں، فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم نے ایک انڈین طیارہ مار گرایا اور حکومت پاکستان سے ستارہ جرأت پایا تھا۔
1966 کے اواخر میں انھیں اردن کی فضائیہ میں مشیر تعینات کیا گیا لیکن اس کے اگلے ہی سال جون میں انھیں ایک اور جنگ درپیش تھی جس میں ایک جانب اسرائیل جبکہ دوسری جانب اردن، مصر، شام اور عراق سمیت عرب ریاستوں کے اتحاد تھا۔
اس جنگ کا آغاز پانچ جون کو اسرائیلی حملے سے ہوا تھا جب مصری فضائیہ کو اچانک ہی ایک بڑا دھچکا ملنے کے بعد اردن کی فضائیہ کو خبردار کیا گیا۔
مورخ اور سابق ایئر کموڈور قیصر طفیل اپنی کتاب ’گریٹ ایئر بیٹلز آف پاکستان ایئرفورس‘ میں بتاتے ہیں کہ ’حکومت پاکستان سے فضائی دفاع تک محدود اجازت کے بعد اردن کی مفرق ایئر بیس سے سیف الاعظم ایک ہنٹر طیارے میں اپنے ونگ مین لیفٹیننٹ احسان شردم کے ساتھ فضا میں بلند ہوئے، ان کے پیچھے مزید ہنٹر طیارے روانہ ہوئے۔‘
اسرائیلی طیارے کی تباہی
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’صحرائی گرد و غبار اور گرمی کے باعث حدِ نظر ایک میل سے کم تھی، اور دشمن کا کوئی نشان دکھائی نہ دے رہا تھا۔ سیف نے ریڈار سے مفرق بیس کی طرف کسی اسرائیلی طیارے کی آمد کے بارے میں پوچھا تو جواب ہاں میں ملا۔ سیف نے فوری طور پر مفرق کی طرف رخ کیا۔‘
اردن کو خدشہ تھا کہ اسرائیلی فضائیہ مصر کے بعد ان کی جانب رخ کرے گی۔
قیصر طفیل لکھتے ہیں ’مفرق ایئر بیس سے چار میل کے فاصلے پر انھوں نے چار طیاروں کو کم بلندی پر جنگی فارمیشن میں اُڑتے دیکھا۔انھیں احساس ہوا کہ یہ اسرائیلی مسٹیئر طیارے ہیں۔‘
’سیف نے فوراً ایک طیارے کے پیچھے پوزیشن لی، جو حملے کے لیے مڑ رہا تھا۔ انھوں نے اپنے ہنٹر کی چار طاقتور 30 ملی میٹر توپوں سے نشانہ لیا۔ مسٹیئر آگ پکڑ گیا اور اس کے پرزے اُڑنے لگے؛ سیف کو ملبے سے بچنے کے لیے اوپر اٹھنا پڑا۔‘
’یہ اسرائیلی طیارہ مفرق ائیر بیس کی حدود کے قریب گر کر تباہ ہو گیا اور اسرائیلی پائلٹ لیفٹیننٹ ہنانیا بولے جہاز سے نکل نہ سکے۔‘
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’فلائٹ لفیٹینٹ سیف الاعظم نے دیکھا کہ دو مسٹیئر مغرب کی طرف پوری رفتار سے فرار ہو رہے ہیں۔ جیسے ہی سیف نے ان کا پیچھا شروع کیا، احسان نے دائیں جانب ایک اور دشمن طیارے کی نشاندہی کی۔ سیف نے احسان کو حکم دیا کہ وہ الگ ہو کر اُس واحد دشمن طیارے کا پیچھا کریں، جبکہ وہ دو دشمن طیاروں کے پیچھے چلے گئے۔‘
’سیف پیچھے والے مسٹیئر کے پیچھے آ گئے، جو تیزی سے قلابازیاں کھا کر بچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سیف نے چار بار گولیاں برسائیں، لیکن کوئی نشانہ ٹھیک نہ بیٹھا۔‘
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’مایوسی کے عالم میں اچانک انھوں نے دیکھا کہ دشمن طیارہ سیدھا اُڑنے لگا ہے۔ سیف نے فاصلے کو کم کر کے پانچویں بار فائر کیا۔ مسٹیئر کی دائیں جانب سے دھواں نکلنے لگا، گولیاں نشانے پر لگ چکی تھیں۔ طیارہ نیچے جھکا، لیکن سیف اس کے مکمل تباہ ہونے کی تصدیق نہ کر سکے کیونکہ دوسرا اسرائیلی طیارہ ان پر حملہ کرنے کے لیے مڑ رہا تھا۔‘
قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں کہ ’ایندھن اور گولا بارود کی کمی کے باعث، سیف نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور مفرق کی طرف واپس ہو گئے۔انھیں اندیشہ تھا کہ مفرق کا رن وے ناکارہ ہو چکا ہے، چنانچہ انھوں نے تمام طیاروں کو ایئر فیلڈ کے شمال میں انتظار کا حکم دیا۔ حیرت انگیز طور پر رن وے پر لینڈنگ کی اجازت مل گئی۔‘
وہ لکھتے ہیں ’لیکن احسان نے فوراً خطرہ محسوس کیا اور عربی میں ریڈیو پر کنٹرولر سے شناخت پوچھی اور اپنے کتے کا نام بھی پوچھا، جو ایک خفیہ شناختی کوڈ تھا۔ اسی وقت اردنی کنٹرولر نے اصل میں ریڈیو پر آ کر خبردار کیا کہ مفرق پر ہرگز لینڈ نہ کریں۔ احسان کی حاضر دماغی نے دونوں کو اسرائیلی فریب کاری سے بچا لیا، جو انھیں تباہ حال رن وے پر اتارنے کے لیے جعلی ریڈیو پیغام دے رہا تھا۔‘
’تمام طیارے عمان کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی طرف موڑ دیے گئے، جہاں ابھی اسرائیلی حملہ نہیں ہوا تھا۔ پائلٹس خوش قسمت تھے کہ وہ حملے سے چند لمحے قبل ہی لینڈ کر گئے۔ تاہم، ان کے طیارے محفوظ نہ رہ سکے۔ کچھ ہی دیر بعد، جدید سپر مسٹیئر طیاروں نے 'ڈِبر' بم استعمال کرتے ہوئے حملہ کیا، جو رن وے کو گہرائی تک نقصان پہنچا گیا۔‘
اردن کے شاہ اور عراقی فضائیہ
قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں ’ایئرپورٹ کی سول تنصیبات کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور شدید نقصان پہنچا۔ اس حملے میں کئی ٹرانسپورٹ طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہو گئے۔ تمام پائلٹ عمان میں آپریشنز ہیڈکوارٹر پر جمع ہوئے تاکہ پیش آئے واقعات کے بارے میں تبادلہ خیال کریں۔ ‘
’تقریباً ایک گھنٹے بعد اردن کے بادشاہ حسین خود اُن کے درمیان موجود تھے۔ وہ اپنے پائلٹوں کو سراہنے آئے تھے، جو اردن کی پہلی بڑی فضائی جنگ میں شریک ہوئے تھے۔‘
قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں کہ اس دوران اردن نے اپنے پائلٹس کی خدمات عراق کو پیش کیں اور جلد ہی ان کی عراق منتقلی کے احکامات جاری ہو گئے۔
’چھ جون کو یہ قافلہ رات نو بجے عراق میں حبانیہ ایئر بیس پہنچا جہاں تین ہنٹر سکواڈرن موجود تھے۔‘
قیصر طفیل مزید لکھتے ہیں کہ ’سات جون کو فجر کے قریب ایک آہستہ دستک اور سرگوشی نے سیف کو جگایا۔ ایک نوجوان عراقی افسر نے بیس کمانڈر کا پیغام پہنچایا کہ 'وہ چاہتے ہیں کہ پہلی پرواز کے لیے چار پائلٹ رضاکار بنیں، اور آپ سے کہا گیا ہے کہ لیڈ کریں!‘
ایئر بیس ایچ تھری
کچھ ہی دیر بعد چار ہنٹر طیاروں کا دستہ عراق کے مغربی صحرا کے ایک دور افتادہ علاقے میں، بغداد سے تقریباً 435 کلومیٹر مغرب میں واقع ایئربیس ایچ تھری کی جانب پرواز کر رہا تھا۔
’پچیس ہزار فٹ کی بلندی پر کنٹرولر نے اعلان کیا: لیڈر، ایک بڑی فارمیشن ایچ تھری پر حملہ آور ہو رہی ہے، نیچے جا کر ان سے نمٹیں۔‘
قیصر لکھتے ہیں ’اسرائیلی فارمیشن چھ طیاروں پر مشتمل تھی۔ چار واؤتورز طیاروں کی قیادت ڈپٹی سکواڈرن کمانڈر کیپٹن شلومو کرن کر رہے تھے، جن کے ساتھ دو نشستوں والے طیارے میں نیویگیٹر کیپٹن الیگزینڈر انبار میلٹزر تھے۔‘
دیگر ارکان میں رامات ڈیوڈ ایئربیس کے بیس کمانڈر کرنل یزیکیل سومک، کیپٹن اسحاق گلینٹز-گولان، اور لیفٹیننٹ اووشالوم فریڈمین شامل تھے، جو سنگل سیٹر طیاروں میں تھے۔
قیصر کے مطابق ’دو میراج طیارے ان کی مسلح حفاظت کر رہے تھے، ہر ایک دو بم سے لیس تھا؛ اس حفاظتی فارمیشن کی قیادت کیپٹن عزرا ڈوٹان کر رہے تھے، جن کے وِنگ مین کیپٹن گیڈون ڈرور تھے۔‘
’جب سیف الاعظم کی قیادت میں عراقی ہنٹر طیارے ایچ تھری سے پانچ میل دور تھے، تو اُنھیں مغرب سے آتے دو واؤتور طیارے نظر آئے۔ جب سیف ایک واؤتورز کے پیچھے جانے کے لیے پوزیشن لے رہے تھے تو سمیر نے آواز دی، دو میراج طیارے آپ کے پیچھے ہیں۔‘
’لمحوں میں سیف نے اپنی فارمیشن کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ خود اور احسان میراج طیاروں سے نمٹیں گے، جبکہ سمیر اور غالب واؤتورز کا تعاقب کریں گے۔‘
قیصر طفیل کے مطابق ’سیف نے فاصلے کو تیزی سے کم کیا اور ایک میراج کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے ہنٹر طیارے کی مہلک کینن کا 'بسم اللہ' کہتے ہوئے ٹریگر دبایا۔ گولیاں سیدھا اسرائیلی طیارے کے پروں پر لگیں، اور چنگاریاں اڑنے لگیں۔‘
’اچانک میراج آگ کے گولے میں لپٹ گیا اور اسرائیلی پائلٹ کیپٹن ڈرور نے گراؤنڈ پر موجود بیس کے عملے کی آنکھوں کے سامنے طیارہ چھوڑ کر ایجیکٹ کیا۔ میراج کو مار گرانے کے بعد سیف نے دائیں جانب رخ موڑا تو دیکھا کہ ایک واؤتور سامنے سے تقریباً دو ہزار فٹ نیچے آ رہا ہے۔‘
قیصر لکھتے ہیں کہ ’سیف نے اپنا طیارہ الٹا کر سپلٹ-ایس موومنٹ کی۔ یہ چال زمین سے کم فاصلہ ہونے کی صورت میں خطرناک ہو سکتی ہے، لیکن سیف نے اتنا زور سے سٹک کھینچا کہ وہ تقریباً بے ہوش ہونے لگے۔ جب طیارہ برابر سطح پر آیا تو وہ واؤتور کے پیچھے تھے اور بہت تیز رفتاری سے قریب جا رہے تھے، حالانکہ بریک کھلے اور تھروٹل بند تھا۔ اب فاصلہ صرف دو سو فٹ تھا۔‘
’سیف نے فائر کھولا، اور تین بار کینن چلائی۔ طیارے کے پرزے ہوا میں اڑنے لگے۔ ان کا اپنا طیارہ بھی جھٹکا کھا گیا جیسے کسی چیز سے ٹکرا گیا ہو۔‘
قیصر طفیل کے مطابق ’کیپٹن گولان نے طیارے کا قابو کھو دیا اور اپنے بکھرتے ہوئے واؤتور سے پیراشوٹ کے ذریعے باہر نکلے۔ ڈرور نے کچھ دیر پہلے اونچائی پر میراج سے چھلانگ لگائی تھی جبکہ گولان نے واؤتور سے نچلی سطح پر پیراشوٹ کھولا۔ دونوں اب ہوا میں ایک ساتھ پیراشوٹ کے ذریعے اتر رہے تھے۔‘
’ایندھن کم ہونے کے باعث سیف واپسی کا ارادہ کر رہے تھے کہ سمیر نے پرجوش آواز میں پکارا: لیڈر، میں نے واؤتور مار گرایا ہے!‘
وہ لکھتے ہیں ’اس ہنگامے میں احسان نے بھی اطلاع دی کہ اُنھوں نے بھی ایک واؤتور مار گرایا ہے۔ سیف جیسے ہی فارمیشن کو دوبارہ اکٹھا کرنے لگے، انھوں نے دیکھا کہ ایک میراج (کیپٹن ڈوٹان کا طیارہ) ایک ہنٹر کا پیچھا کر رہا ہے، جو کہ غالب کا طیارہ تھا اور دھواں چھوڑ رہا تھا۔ سب نے یکے بعد دیگرے ریڈیو پر اُنھیں ایجیکٹ کرنے کو کہا، مگر وہ خاموش رہے۔‘
’طیارہ ایک ہلکی ڈائیو میں چلا گیا اور ایئر فیلڈ کے قریب ترک شدہ آئل ٹینکس سے ٹکرا گیا۔‘
اسرائیلی پائلٹس کی گرفتاری اور تنقید
قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’سب طیاروں کا ایندھن نہایت کم رہ گیا تھا کیونکہ اضافی ٹینک وہ پہلے گرا چکے تھے۔ سیف اور احسان حبانیہ ایئر بیس پہنچ گئے، وہ بھی اونچائی پر پرواز جاری رکھ کر۔‘
’جہاز سے نکلتے ہی سیف کو لوگوں نے اٹھا لیا اور جشن مناتے ہوئے اردگرد گھمایا۔ سب نعرے لگا رہے تھے۔ سیف کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ وہ اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے اور نوجوان غالب کے لیے دُعا بھی، جن سے وہ مشن سے صرف آدھ گھنٹا قبل ملے تھے۔‘
اگرچہ اسرائیلی فضائیہ نے بے شمار کامیابیاں سمیٹیں، مگر ایچ تھری کے آپریشن کے بعد اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
کرنل ایلیعزر کوہن نے اپنی کتاب ’بیسٹ ڈیفنس آف اسرائیل‘ میں لکھا کہ ’ایچ تھری کو معمولی نقصان پہنچا، لیکن نقصانات بہت ہوئے۔ ایک پائلٹ اور نیویگیٹر کی ہلاکت، دو کی گرفتاری، اور تین طیاروں کا تباہ ہونا کسی بھی اور بیس سے زیادہ تھے۔‘
اردن کی حکومت نے سیفُ الاعظم کو سرکاری اعزاز ’وسام الاستقلال‘ سے نوازا، عراق نے ’نوط الشجاعۃ‘ دیا، اور پاکستان نے ’ستارۂ بسالت‘۔ اس سے قبل پاکستان انڈیا جنگ میں سیف ایک انڈین طیارہ گرا چکے تھے، جس پر اُنھیں ستارۂ جرات دیا گیا تھا۔
پاکستان سے بنگلہ دیش
1972 میں سیف بنگلا دیش منتقل ہو گئے اور ایک اور فضائیہ کی وردی زیب تن کی۔ 2001 میں انھیں ’لیوِنگ ایگل‘ کے طور پر انٹرنیشنل ہال آف فیم میں شامل کیا۔
پی اے ایف میگزین ’سیکنڈ ٹو نن‘ میں ایک مضمون میں ایئر کموڈور محمد علی لکھتے ہیں کہ ’سیفالاعظم نے چار مختلف ممالک، پاکستان، اردن، عراق اور بنگلا دیش کی فضائی افواج میں خدمات انجام دیں، اور دو مختلف ملکوں کی فضائی افواج انڈیا اور اسرائیل کے طیارے مار گرائے۔‘
بنگلا دیشی فوجی افسر اور تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل شاہدالانعام خان نے ایک مضمون میں لکھا کہ ’اسرائیل میں بھی سیف الاعظم کی جرأت کو سراہا جاتا ہے، جس کا ذکر جون 2020 میں ان کی وفات پر بڑے اخبارات نے نمایاں طور پر کیا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’1967 کی عرب-اسرائیل جنگ میں ایک موقع پر، جب ایک اسرائیلی طیارہ ان کے نشانے پر تھا، انھوں نے سیدھا حملہ کرنے کے بجائے پہلو سے نشانہ لیا اور صرف دم پر فائر کیا۔ اسرائیلی پائلٹ بچ گیا اور پیراشوٹ سے زمین پر اتر آیا۔‘
انھوں نے لکھا ’اس پائلٹ نے بعد میں بتایا کہ جب وہ نیچے آ رہا تھا، تو اعظم نے ایک رول اور لوپ لگا کر اسے ہاتھ ہلایا اور پھر ایک اور اسرائیلی طیارے کو مارنے روانہ ہو گئے۔ اگر اعظم چاہتے تو وہ پائلٹ زندہ نہ بچتا۔‘
یہ چھ روزہ جنگ اقوام متحدہ کی ثالثی سے جنگ بندی پر ختم ہوئی، مگر تب تک اسرائیل گولان کی پہاڑیاں، غزہ، جزیرہ نما سینا اور مغربی کنارہ (بشمول مشرقی یروشلم) پر قبضہ کر چکا تھا، جس سے مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ یکسر بدل گیا۔
لیکن یہ جنگ ایک ایسے ملک کے پائلٹ سیف الاعظم کے کارناموں کے لیے بھی یاد رکھی جاتی ہے جس کا اس تنازع سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ یعنی پاکستان۔
دو سگے بھائیوں کو قتل کرنے اور ان کی لاشوں کو گھر میں ہی دفن کرنے کے بعد قاتل نے یہ مشہور کر دیا تھا کہ وہ ناراض ہو کر کوئٹہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
یہ کہانی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کی ہے جنھیں گذشتہ برس قتل کیا گیا تھا اور لاشیں گھر کے اندر ہی دفن کر دی گئی تھیں۔
کوئٹہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان دونوں بھائیوں کے قتل کا ملزم ان کا ہی لے پالک بھائی ہے جسے مقتولین کے والد نے بچپن میں ہسپتال سے گود لیا تھا۔ اب پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے دونوں مقتولین کی لاشوں کی باقیات کو برآمد کر لیا ہے۔
کوئٹہ کے انڈسٹریل پولیس سٹیشن کے ڈی ایس پی انوار علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’اس واقعے کی ابتدائی تفتیش میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ملزم نے دونوں بھائیوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے گھر کے اندر ہی دفن کر دیے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملزم کو یہ خدشہ تھا کہ دونوں بھائیوں کے اچانک غائب ہونے پر لوگ اس سے ان کے بارے میں پوچھیں گے اس لیے ملزم نے محلے میں یہ مشہور کر دیا تھا کہ اس کے بھائی کسی بات پر ناراض ہو کر کہیں چلے گئے ہیں۔
جرم کی سنگینی کے باعث اب اس مقدمے کو سیریس کرائمز انویسٹی گیشن ونگ (ایس سی آئی ڈبلیو) کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ایس سی آئی ڈبلیو کی انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ ایس ایس پی صبور آغا کا کہنا ہے کہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور متعلقہ جوڈیشل مجسٹریٹ سے ان کا پانچ روزہ ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔
قتل کیے جانے والے دو بھائی کون تھے؟
انڈسٹریل پولیس سٹیشن کے ڈی ایس پی انوار علی کے مطابق قتل کیے جانے والے دونوں بھائیوں کی شناخت محمد سلمان اور فیضان سلیم کے ناموں سے ہوئی ہے جو کہ محمد سلیم لودھی نامی شخص کے بیٹے تھے۔
ڈی ایس پی انوار علی نے بتایا کہ وہ کوئٹہ میں فقیر محمد روڈ کے علاقے میں اپنے بڑے لے پالک بھائی کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔
’والدین کی وفات کے وقت دونوں سگے بھائیوں کی عمریں کم تھیں اور ان دونوں کی پرورش ان کے لے پالک بڑے بھائی نے کی تھی۔‘
پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ دونوں بھائیوں کو نو، دس ماہ پہلے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو مکان کے ایک کمرے میں دفن کیا گیا تھا۔
دونوں بھائیوں کو کیسے قتل کیا گیا؟
ڈی ایس پی انوار علی نے بتایا کہ مارے جانے والے دونوں بھائیوں کے والد نے ایک غیر منقولہ جائیداد چھوڑی تھی۔
ان کہنا تھا کہ لے پالک بھائی نے یہ جائیداد 95 لاکھ روپے میں فروخت کی لیکن وہ مبینہ طور پر یہ رقم جوئے میں ہار گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قاتل کو ڈر تھا کہ اس کے والد کے حقیقی بیٹے اپنے حصے کی رقم مانگیں گے اس لیے اس نے دونوں سگے بھائیوں کو مبینہ طور پر قتل کر دیا۔
ڈی ایس پی انوار علی کہتے ہیں کہ ملزم نے دونوں بھائیوں کو الگ الگ کمروں میں سوتے ہوئے ہلاک کیا تھا۔
’دونوں کو مارنے کے بعد ملزم لاشوں کو ایک کمرے میں لے کر آیا، جسم کے ٹکڑے کیے اور پھر ایک ڈرل مشین کی مدد سے ایک کمرے میں گڑھا کھود کر ان کی لاشوں کو اس میں دفن کر دیا۔‘
دونوں بھائیوں کے قتل کے کچھ عرصے بعد ملزم نے فقیر محمد روڈ پر کرائے کے مکان کو چھوڑ کر کہیں اور رہائش اختیار کر لی تھی۔
پولیس کی جانب سے ملزم کی گرفتاری کے بعد دونوں بھائیوں کی لاشوں کو گڑھے سے نکال لیا گیا ہے اور پولیس سرجن سے ان کا پوسٹ مارٹم بھی کروایا گیا ہے۔
ڈی ایس پی انوار علی کے مطابق ملزم نے گرفتاری کے بعد اعتراف جرم کر لیا ہے۔
پولیس سرجن نے پوسٹ مارٹم کے حوالے سے کیا بتایا؟
کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں بھائی نوجوان تھے اور ان کے عمریں 17 سے 22 سال کے درمیان تھیں۔
پولیس سرجن کے مطابق ملزم نے دونوں بھائیوں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے دفن کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ملزم نے ہڈیوں کو کاٹنے کے لیے گرائنڈر کا استعمال کیا تھا اور مہارت سے ہڈیوں کو کاٹا تھا۔
ڈاکٹر عائشہ فیض کہتی ہیں کہ دونوں بھائیوں کو نو، دس مہینے پہلے قتل کر کے دفن کیا گیا تھا اسی سبب ان کے جسم کا گوشت غائب ہو چکا ہے لیکن ان کی ہڈیاں محفوظ ہیں۔
مقتولین کے والدین نے لے پالک بھائی کو کہاں سے گود لیا تھا؟
قتل کی ابتدائی تفتیش سے وابستہ پولیس افسر انوار علی نے بتایا کہ ملزم کو ہلاک ہونے والے دونوں سگے بھائیوں کے والد محمد سلیم نے ایک ہسپتال سے گود لیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ گود لینے کے بعد انھوں نے اس بچے کا نام بھی خود رکھا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ملزم کو گود لینے کے چند سال بعد ان کے گھر دو بیٹوں محمد سلمان اور فیضان سلیم کی پیدائش ہوئی تھی۔
ایس سی آئی یو کے انویسٹی گیشن ونگ کے سربراہ صبور آغا کہتے ہیں کہ دورانِ تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ محمد سلیم کے گھر بچوں کی پیدائش نہیں ہو رہی تھی جس کے باعث انھوں نے ایک بچے (ملزم) کو گود لیا تھا۔
ایس آئی یو کے افسر صبور آغا نے بتایا کہ ملزم شادی شدہ ہے اور ان کے دو بچے بھی ہیں۔
ڈی ایس پی انوار علی کا کہنا تھا کہ نہ صرف گود لینے کے بعد محمد سلیم اور ان کی بیوی نے عدنان سلیم کی پرورش کی بلکہ اپنے ہاں دونوں بیٹوں کی پیدائش کے بعد بھی انھوں نے لے پالک بیٹے کی اچھی پرورش میں کوئی کمی نہیں آنے دی اور اس کو اچھی تعلیم بھی دلوائی۔
ملزم کے جُرم کا انکشاف کیسے ہوا؟
ڈی ایس پی انوار علی نے بتایا کہ ملزم نے قتل کے واقعے کے بعد محلے میں جان پہچان والے افراد کو یہ بتایا تھا کہ اس کے دونوں بھائی اس سے ناراض ہوکر لاہور چلے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا چونکہ مبینہ طور پر ملزم کی بیوی کے علاوہ کسی کو اس واقعے کے بارے میں علم نہیں تھا اس لیے کئی ماہ تک کسی کو معلوم نہیں ہوا کہ دونوں بھائیوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔
پولیس افسر نے مزید بتایا کہ ’دس، گیارہ ماہ بعد ملزم کی بیوی نے پولیس کو بتایا کہ دونوں سگے بھائیوں کو ان کے شوہر نے قتل کر کے ان کی لاشوں کو چھپا دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ملزم اپنی بیوی پر بھی تشدد کرتا تھا اس لیے اس کی بیوی کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں ملزم اس کو بھی نہ مار دے اور اسی ڈر کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اپنے میکے چلی گئیں اور اپنے بھائیوں کو اس واقعے کے بارے میں بتایا۔
ڈی ایس پی انوار علی کے مطابق ملزم کی بیوی کے بھائیوں نے اسے فوری طور پر پولیس کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے کہا، جس کے بعد خاتون نے پولیس کو اطلاع دی اور مقتولین کی لاشیں برآمد کی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم کی بیوی نے پولیس کو بتایا کہ جوئے میں رقم ہارنے کے بعد ملزم نے انھیں بتایا کہ بھائی پیسے مانگیں گے اس لیے وہ ان کو قتل کریں گے۔
ملزم کی بیوی نے پولیس کے سامنے دعویٰ کیا کہ جب ان کے شوہر اپنے بھائیوں کو قتل کرنے جا رہے تھے اس وقت وہ اپنے بچوں کے ساتھ الگ کمرے میں تھیں لیکن انھوں نے ’دروازے کے سوراخ سے اس واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘
تحقیقات کہاں تک پہنچیں؟
ایس سی آئی یو کے انویسٹیگیشن ونگ کے سربراہ صبور آغا نے فون پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ ملزم اس وقت ایس سی آئی یو کے پاس ہے اور ان سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم کا جوڈیشل مجسٹریٹ سے پانچ روزہ ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ یہ قتل کا سنگین واقعہ تھا جسے ملزم کی بیوی نے کئی مہینوں تک چھپایا اس لیےان کو بھی شاملِ تفتیش کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ تفتیش کا عمل ہر طرح سے مکمل ہو اور اس میں کوئی کمی نہ رہے۔
انھوں نے بتایا کہ تفتیش مکمل ہونے کے بعد چالان متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے گا تاکہ ملزم کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ ان کا ملک مقامی طور پر تیار کردہ کان (KAAN) نامی 48 لڑاکا طیارے انڈونیشیا کو دے گا۔
ایکس پر اپنی ٹویٹ میں طیب اردوغان نے ترک ایرو سپیس انڈسٹریز (TUSAS) اور انڈونیشیا کی وزارت دفاع کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کو ’ریکارڈ برآمدی معاہدہ‘ قرار دیا۔
ترکی نے پہلی بار اپنے لڑاکا طیاروں کی برآمد کے لیے کسی ملک کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔
ترکی کی دفاعی صنعت کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ہالوک گورگن نے بھی سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’یہ پروجیکٹ، جو ترک ایرو سپیس انڈسٹریز اور انڈونیشیا کی ممتاز دفاعی صنعت کی کمپنیوں کے ساتھ انجام دیا جائے گا، مشترکہ پیداوار، ٹیکنالوجی کے اشتراک اور تزویراتی تعاون کی ٹھوس مثالوں میں سے ایک ہو گا۔‘
اس جنگی جہاز کو بنانے والے ادارے ’ترک ایرو سپیس انڈسٹریز‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے مطابق یہ طیارہ اپنی پہلی پرواز کے دوران 13 منٹ تک فضا میں رہا جبکہ یہ 230 ناٹ کی رفتار سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچا۔
اس جنگی جہاز کی پہلی پرواز کے بعد تُرک صدر نے اس کا موازنہ امریکہ کے ایف 16 جنگی جہاز سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ترکی ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کی تیاری کے حوالے سے انتہائی نازک مرحلے کو پار کرچکا ہے۔‘
واضح رہے کہ ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کو سب سے جدید جنگی جہاز سمجھا جاتا ہے۔
ترک ایرو سپیس انڈسٹریز کی جانب سے شائع کیے گئے تشہیری مواد میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2030 سے کان جہاز ایف 16 کی جگہ لے سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 2019 میں ترکی کو روس سے ایس 400 فضائی دفاعی نظام خریدنےکے نتیجے میں امریکہ کی قیادت میں ایف 35 جنگی طیاروں کی تیاری کے پروگرام سے نکال دیا گیا تھا۔ ترکی نے واشنگٹن کے ساتھ 40 ایف 16 اور جدید کاری کی 79 کٹس خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔
انڈونیشیا کی جانب سے ترک ساختہ کان جنگی طیارے خریدنے کے فیصلے کو اس لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے قبل انڈونیشیا نے فرانس سے رفال طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا تھا اور انڈونیشیا کو مجموعی طور پر 42 رفال طیارے ملنے تھے۔
انڈونیشیا کی وزارتِ دفاع کی جانب سے نو جنوری 2024 کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ’انڈونیشین ایئر فورس پہلے سے بھی زیادہ پرجوش اور طاقتور ہو گی۔‘ انڈونیشیا کی وزارت دفاع کا یہ بیان فرانس سے 18 مزید رفال لڑاکا طیاروں کی خریداری کے تیسرے مرحلے کے معاہدے کے بعد سامنے آیا تھا۔
اس سے قبل پہلے مرحلے میں ستمبر 2022 میں چھ اور دوسرے مرحلے میں اگست 2023 میں 18 طیارے خریدے گئے تھے۔ انڈونیشین فضائیہ کے مطابق رفال طیاروں کی ترسیل کا عمل 2026 کے اوائل میں شروع ہو گا۔
تاہم انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کی فضائیہ کی جانب سے انڈیا کے رفال طیاروں کو مار گرانے کے دعوؤں کے بعد میڈیا پر ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ انڈونیشیا فرانسیسی لڑاکا طیارے خریدنے کے معاہدے پرمبینہ طور پر نظر ثانی کر رہا ہے۔
کان لڑاکا طیارے کی خصوصیات کیا ہیں؟
ترک ایرو سپیس انڈسٹریز نے کان جنگی طیارے سے متعلق تکنیکی معلومات اپنی ویب سائٹ پر شیئر کی ہیں۔ ان معلومات کے مطابق یہ جنگی طیارہ فضائی اور زمینی لڑائی دونوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
یہ طیارہ راڈار پر نظر نہ آنے کی سٹیلتھ صلاحیت کا حامل ہے۔ یہ اپنے سینسر اور ڈیٹا فیوژن سپورٹ فائر کنٹرول سسٹم کے ساتھ درستگی سے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیاروں کی صلاحتیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کان کے کاک پٹ کو پائلٹ پر کام کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
یہ جنگی جہاز یو اے ویز، ڈرونز اور ایف 16 جنگی طیاروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر بھی کام کر سکتا ہے۔
کان کی لمبائی 21 میٹر جبکہ اس کی اونچائی چھ میٹر ہے۔ اس کے پروں کی لمبائی 14 میٹر ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 1.8 ماک ہے۔
کان کو ’ففتھ جنریشن‘ میں شامل کرنے سے متعلق سوال کیوں؟
اس بات پر بحث جاری ہے کہ آیا کان واقعی ففتھ جنریشن کا لڑاکا طیارہ ہے یا نہیں اور اس کی وجہ اس کا انجن ہے۔
ترک ایرو سپیس انڈسٹریز کی جانب سے شیئر کردہ معلومات کے مطابق ایف 16 میں استعمال ہونے والے امریکی ساختہ ایف 110 انجن کو کان کی آزمائشی پروازوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ترک صحافی یلمزاوزدل کے یوٹیوب چینل پر 26 فروری 2024 کو شیئر کی گئی ویڈیو کے مطابق اس جہاز کا ’انجن بیرون ملک سے آیا لیکن یہ طیارہ ہمارا ہے۔ کیا یہ درست ہے۔‘
ترک ڈیفینس انڈسٹریز کے صدر تیمل کوتل کا کہنا ہے کہ یہ جنگی طیارہ 2028 میں ترکی ساختہ انجن کے ساتھ پرواز کرے گا۔
ترک ایرو سپیس انڈسٹریز کے ذریعہ قائم کردہ کمپنی ’ٹی آر موٹر‘ کو اس جہاز کا انجن تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے تاہم یہ انجن ’ففتھ جنریشن‘ کی بحث میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
واضح رہے کہ کسی بھی طیارے کو ففتھ جنریشن میں شمار کرنے کے لیے اس میں آفٹر برنر استعمال کیے بغیر ’سپر کروز‘ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
ترک ایرو سپیس انڈسٹریز کے پروفیسر ڈاکٹر مہمت اکست کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے ساتھ دنیا بھر میں صرف دو یا تین ہی انجن ہیں۔
یہ بتاتے ہوئے کہ یہ امریکی ایف 22 ریپٹر انجن اور روسی سکھوئی انجن ہیں، ڈاکٹر مہمت نے کہا کہ ٹی آر موٹر کا تیار کردہ انجن بھی ان خصوصیات کا حامل ہو گا۔
سنہ 2024 میں ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم یہ کر سکتے ہیں، ہم یہ کر رہے ہیں لیکن کچھ ہی وقت میں؟ نہیں۔۔۔‘
ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کیا ہوتے ہیں اور یہ کن ممالک کے پاس ہیں؟
ایئر کموڈور رضا حیدر جو سینٹر فار ایروسپیس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز میں بطور ڈائریکٹر امرجنگ ٹیکنالوجیز کے طور پر کام کر رہے ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت دنیا میں صرف پانچ آپریشنل ففتھ جنریشن فائٹر جنگی طیارے موجود ہیں اور یہ امریکہ، روس اور چین کے پاس ہیں۔ امریکہ کے پاس ایف 22 ریپٹر اور ایف 35 موجود ہے، روس کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ ایس یو 57 ہے جبکہ چین کے پاس بھی دو ففتھ جنریشن طیارے ہیں جن میں جے 20 اور جے 35 شامل ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ان کے علاوہ ایسے جدید طیارے ہیں جو ابھی تعمیراتی مراحل میں ہیں جن میں برطانیہ، اٹلی اور جاپان کی شراکت سے بنایا جانے والا طیارہ ’ٹیمپسٹ‘ ہے، فرانس، جرمنی اور سپین فیوچر کامبیٹ ایئر سسٹم (ایف سی اے ایس) نامی طیارہ بنا رہے ہیں اور ترکی کی جانب سے ’کان‘ نامی طیارہ بنایا جا رہا ہے۔‘
دفاع، ایرو سپیس اور ہائی ٹیک شعبوں میں انسدادِ دہشت گردی اور ڈیجیٹل تبدیلیوں کے ماہر ایلیکس پلیٹساس اور رضا حیدر کے مطابق ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کے مندرجہ ذیل فیچرز ہیں:
- سٹیلتھ فیچر، یعنی یہ اپنے ڈیزائن کے باعث ریڈار پر دکھائی نہیں دیتا۔
- ایویانکس سینسر فیوژن، یعنی اس کے ریڈار، نیویگیشن اور فائر کنٹرول سسٹم تمام ہی ہم آہنگ ہوتے ہیں جس سے پائلٹ کی سچویشنل اویئرنس بہتر ہوتی ہے۔
- سپر کروز، یعنی اگر آپ سپر سونک پرواز کر رہے ہوں تو آپ بہت کم ایندھن استعمال کر رہے ہوتے ہیں، اس سے طیارہ طویل عرصے تک فضا میں رہ سکتا ہے اور اس کی رینج بڑھ جاتی ہے۔
- نیٹ ورک سینٹر، یعنی باقی تمام سسٹمز کے ساتھ آپ جڑے ہوئے ہوتے ہیں جو گراؤنڈ پر ہوں جیسے ریڈارز یا فضا میں ہوں جیسے ایئر بورن ارلی وارننگ سسٹمز (اے ای ڈبلیو ایس) یا یو اے ویز اور ڈرونز۔
سویڈین کے محققین کو وائکنگز کے دور میں تدفین کے لیے استعمال ہونے والے کپڑوں پر عربی حروف کڑھے ہوئے ملے ہیں۔
یہ کپڑے وائکنگز کی کشتیوں میں بنی قبروں سے ملے تھے۔
وائکنگز دراصل ڈنمارک، ناروے اور سویڈن کے علاقوں میں بسنے والے بحری قزاق تھے اور یورپی ساحلوں پر آنے والے جہازوں اور کشتیوں کو لوٹا کرتے تھے۔
صحافی طارق حسین کے مطابق اس دریافت کے بعد اسلام کے سکینڈینیویا پر ہونے والے اثر کے بارے میں نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔
یہ کپڑے 100 سال تک گودام میں رکھے گئے اور انھیں وائکنگز کے تدفین کے لیے استعمال ہونے والے کپڑوں کی روایتی مثال کے طور پر قبول نہیں کیا گیا۔
لیکن اب نویں اور دسویں صدی کی قبروں سے ملنے والے ان کپڑوں پر کی جانے والی تازہ تحقیق سے وائکنگز اور مسلم دنیا کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔
ان کپڑوں پر ریشم اور چاندی کے تاروں سے ’اللہ‘ اور ’علی‘ کے الفاظ کڑھے ہوئے ہیں۔
یہ کامیابی اپسلا یونیورسٹی میں کپڑوں کی ماہرِ آثارِ قدیمہ انیقہ لارسن کو ملی جب وہ مردوں اور عورتوں کی قبروں والی ان کشتیوں میں پائے جانے والے تدفین کے کپڑوں کی دوبارہ جانچ کر رہی تھیں۔
یہ قبریں سویڈن میں بِرکا اور گاملا اپسلا کے مقام پر 19ویں اور 20 ویں صدر کے درمیان کھدائی کے دوران ملی تھیں۔
انیقہ لارسن کو ان فراموش کر دیے جانے والے کپڑوں کے باقیات میں دلچسپی تب پیدا ہوئی جب انہیں پتا چلا کہ یہ کپڑا وسط ایشا، فارس اور چین سے آتا تھا۔
لارسن کے مطابق ایک چھوٹا سا ڈیزائن جو 1.5 سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں وہ سکینڈینیویا میں کسی بھی چیز سے مماثلت نہیں رکھتا تھا۔ ’میں اس کو سمجھ نہیں سکی اور پھر مجھے یاد آیا کہ میں نے ایسے ہی ڈیزائن کہاں دیکھے تھے، سپین میں مورش ٹیکسٹائل پر۔‘
پہیلی سلجھانا
لارسن کو اس وقت احساس ہوا کہ وہ وائکنگز کے پیٹرن پر غور نہیں کر رہیں بلکہ یہ قدیم عربی کوفی رسم الخط ہے۔
دو الفاظ تھے جو بار بار دہرائے گئے تھے جن میں سے ایک لفظ انھیں ان کے ایرانی ساتھی نے بتایا کے یہ ’علی‘ ہے جو اسلام کے چوتھے خلیفہ کا نام ہے۔
لیکن علی کے ساتھ لکھے لفظ کو سمجھنا زیادہ مشکل تھا۔ اس پہیلی کو سلجھانے کے لیے انھوں نے ان الفاظ کو بڑا کر کے ان کا ہر زاویے سے مشاہدہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس لفظ کو آئینے میں دیکھنے پر اچانک مجھے پتہ چلا کہ یہ لفظ ’اللہ‘ لکھا ہے۔‘
لارسن کو اب تک 100 میں سے 10 کپڑوں پر یہ الفاظ مل چکے ہیں اور یہ ہمیشہ ایک ساتھ لکھے گئےہیں۔
اس نئی دریافت نے ان قبروں میں دفن لوگوں کے بارے میں دلچسپ سوالات کو جنم دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’اس بات کو خراج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ بعض قبریں مسلمانوں کی ہیں۔‘
’ہم جانتے ہیں کہ وائکنگ کے دوسرے مقبروں سے حاصل ہونے والے ڈی این اے سے پتہ چلا تھا کہ یہ لوگ بنیاد طور پر فارس سے تعلق رکھتے تھے جہاں اسلام کا غلبہ تھا۔`
’تاہم اس نئی دریافت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وائکنگ کے ہاں تدفین کی رسومات پر اسلامی تصورات کا اثر رہا ہو جیسا کے موت کے بعد جنت کا تصور۔‘
لارسن کی ٹیم اب امیونولوجی، جینیٹکس اور پیتھالوجی کے شعبے کے ساتھ مل کر ان کپڑوں میں دفن لاشوں کے حقیقی جغرافیائی علاقے کا پتہ لگائے گی۔
تاریخ
وائکنگ اور مسلم دنیا میں تعلق تو کئی تاریخی بیانات اور نصف کرہ شمالی میں اسلامی سکّوں کی دریافت سے ظاہر ہوتا ہے۔
دو سال قبل برکا میں ایک خاتون کے مقبرے سے ملنے والی چاندی کی انگوٹھی کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلا کہ اس پر بھی ’واللہ‘ کے الفاظ پتھر کے اندر کندہ تھے۔
اس میں بھی رسم الخط کوفی استعمال ہوا جو ساتویں صدر میں عراق کے علاقے کوفہ میں بنایا گیا۔
یہ قرآن تحریر کرنے کے لیے استعمال ہونے والے اوّلین رسم الخطوط میں سے ایک ہے۔
لارسن کی دریافت میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سکینڈینیویا میں پہلی بار کسی قدیم چیز میں ’علی‘ لکھا پایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’علی کا نام اللہ کے نام کے ساتھ دہرایا گیا ہے۔‘
’میں جانتی ہوں کہ علی کا سب سے بڑا مسلم اقلیتی گروہ یعنی شیعہ بہت زیادہ احترام کرتے ہیں اور یہ حیران کن ہوگا اگر ان کا کوئی تعلق ہوا۔‘
لندن کے اسلامک کالج میں تعلیماتِ اسلامی کے پروگرام لیڈر عامر دی ماتینو کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ علی لفظ کا استعمال شیعت سے تعلق ظاہر کرتا ہے لیکن لفظ ’ولی اللہ‘ کے بغیر جس کے معنی اللہ کے نمائندے کے ہیں یہ شیعہ تہذیب کی مکمل نمائندگی نہیں کرتا۔ ممکن ہے کہ یہ کہیں سے غلطی سے نقل کر دیا گیا ہو۔‘
لارنس کو امید ہے کہ وہ مزید دریافتیں کرنے میں کامیاب ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا ’ اب چونکہ میں وائکنگ کے ان نمونوں کو مختلف نظر سے دیکھ رہی ہوں اس لیے مجھے یقین ہے کہ مجھے کھدائی کے بعد وائکنگ کے ملنے والے کپڑوں کے دیگر باقیات میں بھی مزید اسلامی نقوش ملیں گے۔ ‘
’کون جانتا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ یہ کپڑوں کے علاوہ کسی فن پارے پر بھی ملیں۔`
’اگر ہم نہیں سیکھیں گے تو پھر ہمارے مرنے کے بعد کون ہماری میت کو غسل دے گا، کون دفنائے گا۔‘
یہ کہنا تھا 23 سالہ خدیجہ کا جو برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ایک ایسی تقریب میں شریک تھیں جہاں مسلمان نوجوان بطور رضا کار میت کو غسل دینے اور تدفین کے عمل کو سیکھ رہے تھے۔
اسلام میں موت کے بعد کسی بھی شخص کو دفنانے سے پہلے چند رسومات ضروری ہیں جن میں میت کو غسل دینا اور کفن پہنانا شامل ہیں۔
غسل میت کیا ہے؟
غسل کسی بھی فرد کے جسم کو موت کے بعد نہلانے یا پاک کرنے کا ایک طریقہ ہے جس میں جسم پر موجود کسی بھی قسم کی گندگی کو صاف کیا جاتا ہے۔
اسلام میں مختلف قسم کے غسل ہوتے ہیں مثلاً بچے کی پیدائش پر، عورت کے لیے حیض کے بعد کا غسل، اور وہ غسل جو کہ کسی مردے کو دیا جاتا ہے اور اسے غسلِ میت کہتے ہیں۔
یہ غسل عموماً مردے کے قریبی خاندان کے فرد یا محرم ہی دیتے ہیں اور خیال رکھا جاتا ہے کہ مرنے والی کی جنس کے لوگ ہی غسل میں شریک ہوں۔
اس غسل میں جسم کے تمام اعضا کو پانی اور صابن سے اس کے جسمانی اعضا کی تکریم کو ملحوظِ خاطر رکھ کر دھویا جاتا ہے۔
برطانیہ میں کورونا نے اسلامی تدفین کیسے مشکل کر دی؟
لیکن برطانیہ میں مسلمانوں کے لیے کورونا کی وبا کے دوران ایک نئی مشکل پیدا ہوئی۔ وہ بزرگ جو میت کی تدفین سے پہلے تمام اسلامی رسمیں ادا کرتے تھے، اس وبا کے بعد بیماری سے بچنے کے لیے گھروں میں قید ہو کر رہ گئے۔
تحریم نور سپورٹنگ ہیومینٹی نامی خیراتی ادارے کی ہیڈ آف آپریشنز ہیں۔ لندن سے بی بی سی ایشیا نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے انھوں نے نئی نسل کے نوجوان رضاکاروں کو غسل اور دیگر رسومات کی ادائیگی سکھانے کے لیے ورکشاپس کے انعقاد کی وجہ بتائی۔
ایسی ورکشاپ اور تقریبات جہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق تدفین اور غسل کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں اب برطانیہ بھر میں منعقد کی جا رہی ہیں۔
تحریم نور کہتی ہیں کہ یہ ضرورت وبا کے بعد محسوس ہوئی جب ایک جانب تو اموات میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف تدفین کرنے والوں کی بھی اشد ضرورت پڑی۔
سپورٹنگ ہیومینٹی نامی خیراتی ادارے کی جانب سے یہ ٹریننگ دینے والی سلمی پٹیل نے بی بی سی ایشیا نیٹ ورک کو بتایا کہ ان کو ایک میت کے غسل کے لیے تقریبا چھ رضا کاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے عروج پر کئی خاندان اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا نہیں کر پاتے تھے۔ ایسے میں سلمی پٹیل جیسے رضا کار ہی تھے جو یہ فریضہ سرانجام دیتے تھے اور ایک ایک دن میں تین میتوں کے غسل اور تدفین کا بندو بست کرتے تھے۔
سلمی پٹیل کے مطابق کبھی کبھی ان کو بہت کم وقت کے نوٹس پر ہی کسی کی تدفین کے لیے بلا لیا جاتا تھا۔
واضح رہے کہ کورونا وبا کی شروعات میں وائرس کے متعلق معلومات کی بھی کمی تھی اور یہ واضح نہیں تھا کہ آیا وبا سے متاثرہ شخص کی موت کے بعد اس سے وائرس پھیلنے کا خدشہ ہے یا نہیں۔
اس وقت برطانیہ کی مسلم کونسل سمیت کئی اسلامی اداروں نے وبا سے متاثرہ افراد کی میت کے غسل اور تدفین کے لیے باقاعدہ قوائد و ضوابط کا اعلان کیا تھا۔
برطانیہ کے صحت عامہ کے ادارے نے یہ اعلان کیا تھا کہ اسلامی یا کسی بھی اور مذہب کی تعلیمات کے مطابق کسی میت کی تدفین اور غسل کی رسومات کی ادائیگی کرنے میں اس وقت تک کوئی حرج نہیں جب تک کہ تمام تر حفاظتی انتظامات کا خیال رکھا جائے جن میں سماجی فاصلہ بھی شامل تھا۔
کورونا کی وبا نے برطانیہ کی جنوبی ایشیائی کمیونٹی کو بے حد متاثر کیا تھا کیوں کہ ہزاروں اموات ہوئیں۔
’کسی کے جنازے پر جاتے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے‘
اس ورکشاپ میں شامل نوجوان رجاکاروں میں صفیہ بھی شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وبا میں اموات نے ہی ان کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ بھی تدفین کا اسلامی طریقہ سیکھیں۔
'وبا کے دوران ہم نے اپنے بہت سے پیاروں اور قریبی عزیزوں کو کھو دیا۔ ایسے میں جب ہمیں کسی کے جنازے پر جانا پڑتا اور ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کیا کرنا ہے تو مجھے لگا کہ اب کچھ کرنا ہو گا۔'
خدیجہ بھی انہی رضاکاروں میں شامل ہیں اور سمجھتی ہیں کہ آنے والی نسل کے لیے تدفین کا اسلامی طریقہ سیکھنا بہت ضروری ہے۔
’اگر ہم نہیں سیکھیں گے تو ہمارے تدفین کون کرے گا، ہمیں کون غسل دے گا؟‘
مشرقی لندن کے بیلگریو سینٹر میں منعقدہ ورکشاپ میں تقریبا 90 خواتین نے حصہ لیا جہاں ان کو ایک مجسمے کی مدد سے غسل دینے اور کفن پہنانے کا طریقہ سکھایا گیا۔
جہاں ایک طرف خواتین کو اسلامی طریقہ کار کی آگاہی ملی، وہیں اس ٹریننگ نے ان کے کچھ خدشات بھی دور کر دیے۔
’مجھے جسم کی پرائیویسی کی فکر رہتی تھی‘
سمیعہ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کسی کی بھی میت کو غسل دینے سے پہلے جسم کے مخصوص حصوں کو باقاعدہ ڈھانپا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ایک نوجوان مسلمان عورت ہونے کے ناطے مجھے ہمیشہ یہ فکر رہتی تھی کہ موت کے بعد جسم کی پرائیویسی (ستر) کیسے محفوظ رہتی ہے۔
کئی خواتین کے لیے اس ٹریننگ کا حصہ بننا ان کے مطابق نہایت ضروری تھا اور ایسے ہی تھا کہ ان کے لیے بحیثیت مسلمان یہ سب سیکھنا دینی فریضہ تھا۔
فرزانہ بھی اس ٹریننگ کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ٹریننگ کے بعد ان کو ایک اور سبق ملا اور وہ یہ کہ موت کے بعد آپ کا نام، آپ کا حسب نسب، ہر چیز چھن جاتی ہے اور آپ کی شناخت صرف بحیثیت ایک جسم باقی رہ جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ بطور رضا کار کسی کی تدفین میں شریک ہونا ان نوجوانوں کے لیے اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ وہ اپنی کمیونٹی میں فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔
آپ نے لوگوں کو گھروں، اراضی اور وراثتی مال و اسباب کے لیے لڑتے تو شاید دیکھا ہی ہو گا لیکن کسی 'لاوارث لاش' کے حصول کے لیے دو خاندانوں نہیں بلکہ دو شہروں کے لوگوں کو آمنے سامنے آتے شاید ہی سُنا ہو گا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفرآباد کے شہری ’لیاقت سائیں‘ کے نام سے بخوبی واقف ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ گذشتہ کئی دہائیوں سے انھیں شہر کی سڑکوں پر رسی کی مدد سے بڑی سی دیگ گھسیٹے ہوئے متعدد بار دیکھ چکے تھے۔ دیگ گھسیٹنے کی اُن کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
تاہم کم ہی لوگوں کو یہ اندازہ تھا کہ شہریوں کی جانب سے ’سائیں‘ قرار دیے گئے اس شخص کی لاش کا حصول اور تدفین ناصرف سوشل میڈیا پر وائرل ہو گی بلکہ یہ دو شہروں میں تنازعے کا باعث بھی بنے گی۔
لیاقت کی نماز جنازہ جمعرات کے روز مظفر آباد میں ادا کی گئی جس میں کثیر تعداد میں شہریوں نے شرکت کی جس کے بعد انھیں مظفر آباد میں ہی دفنایا گیا۔
’لیاقت سائیں‘ کون تھے؟
مظفر آباد شہر کی سڑکوں پر لیاقت نیم برہنہ اور میلی کچیلی حالت میں اکثر گھومتے ہوئے پائے جاتے تھے اور اُن سے متعلق مشہور قصوں کی بنیاد پر شہر کے لوگ اُن کا احترام کرتے تھے۔
مظفر آباد میں اُن کے اہلخانہ ہونے کے دعویدار افراد کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی طور پر صحتمند نہیں تھے اور اسی لیے انھیں اہلخانہ اور علاقہ مکینوں کی طرف سے 'سائیں' کہہ کر پکارا جاتا تھا۔
لیاقت گذشتہ 40 سال سے زائد عرصے سے مظفرآباد شہر کی سڑکوں پر دیگچے گھسیٹتے نظر آتے تھے۔ انھیں دیگ یا دیگچے کے سڑک پر رگڑ کھانے سے پیدا ہونے والی آواز پسند تھی اور وہ اکثر اوقات شہریوں سے نئی دیگ یا دیگچہ خریدنے کر دینے کی فرمائش کرتے تو بہت کم لوگ انھیں منع کر پاتے۔
مظفر آباد کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ عید الاضحی سے ایک روز پہلے کہیں غائب ہو گئے اور کسی کو دکھائی نہیں دیے۔
اُن کا بھائی ہونے کے دعویدار شخص نے چھ جون کو اُن کی گمشدگی کی رپورٹ مقامی تھانے میں درج کروائی۔ اُن کے مطابق چونکہ وہ اکثر کئی روز کے لیے غائب ہو جاتے تھے چنانچہ رپورٹ درج کروانے میں تین دن کا انتظار کیا گیا۔
اُن کا بھائی ہونے کے دعویدار شخص نے نو جون کو اُن کی گمشدگی کی رپورٹ مقامی تھانے میں درج کروائی۔ اُن کے مطابق چونکہ لیاقت اکثر اوقات کئی روز کے لیے غائب ہو جاتے تھے چنانچہ رپورٹ درج کروانے میں تین دن کا انتظار کیا گیا۔
پولیس کو موصول کردہ اس درخواست میں لیاقت کا حلیہ بتایا گیا ہے اور پولیس کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ چھ جون کو اپنی رہائش گاہ سے غائب ہوئے اور آئندہ تین روز تک ان کو تلاش کیا گیا مگر وہ نہیں مل سکے۔ اس درخواست میں پولیس سے استدعا کی گئی ہے وہ لیاقت کو ڈھونڈنے میں مدد کرے۔
تاہم بعد ازاں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے گولڑہ موڑ سے 11 جون کو اُن کی ڈیڈ باڈی ملی جسے اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے سرد خانے میں منتقل کر دیا گیا۔
مظفر آباد کے رہائشیوں کے مطابق لیاقت اکثر مقامی افراد کی گاڑیوں میں سوار ہو کر راولپنڈی، اسلام آباد آ جاتے تھے اور پھر اسی طرح ان کی واپسی ہو جاتی تھی۔
ہسپتال میں میت کے حصول پر تنازع
اسلام آباد اور مظفر آباد کی انتظامیہ کے لیے اس وقت صورتحال پیچیدہ ہو گئی جب اُن کی میّت کے ایک سے زائد دعویدار سامنے آ گئے۔
ایک طرف مظفرآباد میں ان کے مبینہ رشتہ دار تھے تو دوسرے جانب پنجاب کے علاقے مری کے کچھ رہائشی تھے جو ان کے رشتہ دار ہونے کے دعویدار تھے۔ اور جب تنازع بڑھا تو ہسپتال انتظامیہ نے کسی بھی دعویدار کو میت دینے سے انکار کر دیا۔
معاملہ زیادہ بڑھا اور مقامی عدالت میں پہنچا تو جج نے میت کا ڈی این اے کروا کر اس بنیاد پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تاہم بعدازاں معاملہ ’افہام و تفہیم‘ سے طے پا گیا۔
مظفر آباد کے ڈپٹی کمشنر مدثر فاروق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں جب ایک لاوارث میت لائی گئی تو ہسپتال انتظامیہ نے ورثا کی تلاش کے لیے اشتہار دیا جس کے بعد مظفر آباد کے چند رہائشی ان کی میت لینے کے لیے ہسپتال پہنچے۔ تاہم جب میت دی جانے لگی تو اسی وقت مری کے کچھ مقامی افراد بھی وہاں پہنچے اور دعویٰ کیا کہ وہ لیاقت کے رشتہ دار ہیں، جس کے بعد صورتحال متنازع ہو گئی۔‘
ڈپٹی کمشنر مدثر فاروق نے بتایا گیا کہ 'پمز ہسپتال میں مظفرآباد اور مری دونوں کے شہری بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے اور اس موقع پر میت چھیننے کی کوشش بھی کی گئی تاہم اس وقت میت کو واپس ہستال میں جمع کروا دیا گیا۔'
انھوں نے بتایا کے مظفرآباد انتظامیہ کو معاملے کا علم ہونے پر یہاں سے اسلام آباد میں پولیس اور انتظامیہ سے بات کی گئی۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ’مظفر آباد کے رہائشی خاندان نے لیاقت سے متعلق ضروری شناختی دستاویزات کے ساتھ ساتھ ان کی گمشدگی سے متعلق درج کروائی گئی رپورٹ بھی پیش کی، جس کے بعد میت ان کے حوالے کر دی گئی۔‘
مدثر فاروق کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ دونوں علاقوں کے لوگ بڑی تعداد میں ہسپتال میں موجود تھے تاہم کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اور پولیس کی مدد سے میّت کو ہسپتال کے دوسرے دروازے سے نکالا گیا تاکہ مزید کوئی بدمزگی نہ ہو۔ اس کے بعد میّت کو مری کے بجائے براستہ ایبٹ آباد مظفر آباد لایا گیا۔‘
مظفر آباد کے ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ انھیں بتایا گیا ہے کہ مظفر آباد میں تدفین عمل میں آنے کے بعد بھی انھیں اطلاعات ملی ہیں کہ تنازع کسی حد تک برقرار ہے اور انھوں نے انتظامیہ اور پولیس کو کہہ رکھا ہے کہ کسی بدمزگی سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔
میت کا ڈی این اے کروانے کا فیصلہ
لیاقت کا بھائی ہونے کے دعویدار مظفر آباد کے شہری محمد عارف نے صحافی نصیر چوہدری کو بتایا کہ لیاقت سمیت وہ سات بھائی تھے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ لیاقت کے علاوہ ان کے پانچ بھائی وفات پا چکے ہیں اور اب وہ صرف دو بھائی حیات ہیں۔ ’لیاقت نے بچپن گھر میں رہ کر گزارا تاہم گذشتہ 40 سال سے وہ اسی شہر میں دیگچا لے کر پھرتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’10 جون کو ہمیں انٹرنیٹ پر پوسٹ کیا گیا ایک اشتہار ملا جس پر لیاقت کی تصویر تھی، یہ اشتہار تھانہ شمس کالونی کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ ہم ریکارڈ لے کر پمز ہسپتال پہنچے تو وہاں پر کچھ اور لوگ بھی وراثت کا دعوے کرنے آ گئے۔‘
محمد عارف نے بتایا کہ ’ہم نے ان لوگوں کو زندگی میں پہلی بار دیکھا۔ ہم نے اپنا ریکارڈ پیش کیا تو پولیس اور ہسپتال انتظامیہ نے ہمارا ریکارڈ دیکھنے کے بعد ڈیڈباڈی ہمارے حوالے کر دی لیکن دوسرے گروپ نے حملہ کر دیا کہ وارث ہم ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ صورتحال دیکھ کر ہم نے ڈیڈ باڈی واپس ہسپتال کے سرد خانے میں منتقل کر دی۔‘
مری سے سامنے آنے والے دعویدار لیاقت عباسی اور نزاکت عباسی کا دعویٰ تھا کہ لیاقت اُن کے سگے بھائی ہیں۔ نزاکت عباسی کے وکیل عثمان عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے مؤکل کا دعویٰ ہے کہ لیاقت کا اصل نام محبوب عباسی تھا اور وہ 35 سال پہلے گم ہو گئے تھے۔
دونوں خاندانوں کی جانب سے دعوے سامنے آنے کے بعد اسلام آباد میں مقامی عدالت میں درخواست دی گئی کہ لاش کِس کے حوالے کی جائے۔ مقامی عدالت کی جج نے میت کا ڈی این اے کروانے کا حکم دیا اور فیصلہ کیا کہ ڈی این اے رپورٹ کی بنیاد پر لاش ورثا کے حوالے کی جائے۔
لیاقت کا بھائی ہونے کے دعویدار مظفر آباد کے شہری محمد عارف نے کہا ’ہم عدالت کے اس فیصلے پر بے فکر تھے کیونکہ ہمارا ریکارڈ درست تھا اور ہمیں ڈی این اے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔‘
تاہم وکیل عثمان عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دونوں جانب سے اتفاق رائے کیا گیا کہ چونکہ ڈی این اے رپورٹ آنے میں بہت دن لگ جاتے ہیں اس لیے میت کے احترام میں تدفین جلد کی جائے اور ڈی این اے نہ کروایا جائے۔‘
وکیل عثمان عباسی کا کہنا تھا کہ ’میرے موکل نے تین شرائط رکھی تھیں کہ لیاقت کا ایک جنازہ مری میں کروایا جائے، دوسرا یہ کہ اُن کی تدفین مظفر آباد میں اُن کی مرضی کے مقام پر کی جائے اور تیسرا قبر کا کتبہ محبوب عباسی کے نام کا ہو۔ تاہم تینوں شرائط نہیں مانی گئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لیاقت سے متعلق نادرا میں تو کوئی ریکارڈ نہیں تاہم مظفرآباد میں ان کے لینڈ ریکارڈ، وراثتی دستاویزات اور شجرے میں ان کا نام تھا اس کے علاوہ والدین کی قبروں کے کتبوں پر بھی ان کا نام تھا جو ثبوت کے لیے پیش کیے گئے۔‘
وکیل عثمان عباسی نے بتایا کہ ’ہم نے اتقاقِ رائے سے میّت مظفرآباد جانے دی کیونکہ انھوں نے ساری عمر وہاں گزاری تھی۔‘
اگرچہ میّت کی تدفین کی جا چکی ہے تاہم ڈی این اے ٹیسٹ نہ کیے جانے کی وجہ سے، بقول وکیل عثمان عباسی، ’یہ تنازع شاید ہمیشہ تنازع ہی رہے گا۔‘
دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں نے راتوں کو جاگ کر تحقیق کی ہے اور پتہ چلایا ہے کہ پاکستان میں آنے والی سیلابی تباہی کی ذمے دار گلوبل وارمنگ ہے جس میں پاکستان نے نہ ہونے کے برابر حصہ ڈالا ہے۔
ماہرین کہہ رہے ہیں کہ جن امیر ملکوں کی وجہ سے ہم پر یہ تباہی آئی ہے وہ پاکستان کو ہرجانہ دیں۔ انجلینا جولی پاکستان کا دورہ کر کے گئی ہیں اور انھوں نے فرمایا ہے کہ پوری دنیا کے آفت زدہ علاقے دیکھے ہیں لیکن اتنی تباہی نہیں دیکھی۔
عمران خان ہر چوتھے دن امدادی رقوم اکٹھی کرنے کے لیے ٹیلی تھون کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم امریکہ پہنچ کر عالمی ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو صحافی بھی فیلڈ رپورٹنگ کر کے آتا ہے وہ بھوک، بیماری اور ناامیدی کی ایسی کہانی بیان کرتا ہے جو اس نے اپنے کیریئر میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
ایسے وقت میں جب اس آفت سے نمٹنے کے لیے اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر یکسوئی سے مصیبت زدگان کی بحالی کے لیے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے تو جماعت اسلامی کے ایک سینیٹر ہیں جن کو یاد آتا ہے کہ چار سال پہلے ہماری پارلیمان نے خواجہ سراؤں کو تمام شہریوں کے برابر حقوق دیے تھے وہ اسلام کے خلاف ایک سازش ہے اور ہمارے مثالی خاندانی نظام پر ایک حملہ ہے۔
(جی یہ وہی خاندانی نظام ہے جس میں خاندان پر لازم ہے کہ اگر گھر میں لڑکی کا گلا کاٹا جا رہا ہو یا اسے ڈمبل سے مارا جا رہا ہو تو کوئی مداخلت نہ کریں کیونکہ اس سے خاندان بدنام ہو سکتا ہے۔)
ہو سکتا ہے میری طرح آپ نے بھی کبھی سینیٹر مشتاق صاحب کا نام نہ سنا ہو لیکن آپ نے جماعت اسلامی کا نام ضرور سنا ہو گا۔ اگر جماعت اسلامی کا نام بھی نہیں سنا تو ان کے فلاحی ادارے الخدمت کا نام حالیہ سیلاب کے دنوں میں ہر طرف گونج رہا ہے۔
الخدمت کے کارکن وہاں وہاں پہنچ کر لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جہاں اور کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ کشتیوں میں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال رہے ہیں۔ ان کے لیے خیمے، دوائیں پہنچا رہے ہیں۔ کسی کی مدد کرنے سے پہلے اس سے اس کا مذہب یا فرقہ نہیں پوچھتے۔
آپ نے بھی وہ ویڈیوز دیکھی ہوں گی جس میں الخدمت کے رضاکار اپنی جان پر کھیل کر بلیوں اور کتوں کو محفوظ مقامات تک پہنچا رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو جماعت اسلامی کے نظریاتی مخالف ہیں، کبھی زندگی میں جماعت کو ووٹ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن سیلاب زدگان کی امداد کے لیے چندہ صرف جماعت اسلامی کی تنظیم الخدمت کو دیتے ہیں۔
یہ سارے نیک اور احسن کام دیکھ کر کئی دردمند یہ پوچھتے ہیں کہ لوگ چندہ تو جماعت اسلامی کو دیتے ہیں لیکن ووٹ کیوں نہیں دیتے؟
اس کا سیدھا سا جواب ہے سینیٹر مشتاق جیسے لوگ اور ان کی ذہنیت جو بقول ایک خواجہ سرا کے اس مصیبت کے وقت میں بھی خواجہ سراؤں کی شلواریں ٹٹول رہی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ خواجہ سرا پاکستان کا شاید سب سے دھتکارا ہوا طبقہ ہیں۔ کئی سالوں سے پاکستان کے کئی علاقوں میں ان کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ پاکستان کے دھتکارے ہوئے لوگ بھی انھیں دھتکارتے ہیں۔
پاکستانی مرد اس سے بڑی گالی کوئی نہیں سمجھتا کہ کوئی اسے خواجہ سرا یا کھسرا کہہ دے۔ ان کی قسمت میں یہی دیکھا گیا ہے کہ وہ یا تو بھیک مانگیں یا ناچیں گائیں۔
اپنے گھر والوں سے بھی گالیاں کھائیں اور بازار میں بھی رسوا ہوں۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی اپنے حقوق کی بات کرنے والا یا پڑھا لکھا خواجہ سرا نظر آ جائے تو ہماری مشرقی روایات خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
اسی لیے چار سال پہلے جب خواجہ سراؤں کو تقریباً انسان ماننے والا قانون پاس ہوا تو ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ اگر ہمارے قانون دان سر جوڑ کر بیٹھ جائیں تو مظلوموں کا بھلا بھی کر سکتے ہیں۔
سینیٹر مشتاق نے قوم کو نہیں بتایا کہ جب سے یہ قانون پاس ہوا ہے ہمارے ملک میں فحاشی اور عریانی میں کتنا اضافہ ہوا ہے (اور اگر ہوا ہے تو سینیٹر صاحب نے اس کا مشاہدہ کہاں پر کیا ہے)، خواجہ سراؤں نے کتنے لوگوں کی شادیاں تڑوائی ہیں، کتنے پاکباز نوجوانوں کو راہِ راست سے گمراہ کیا ہے۔ اور کیا ہمارا ایمان، ہمارا ملک، ہمارا معاشرہ اتنی کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے کہ خواجہ سراؤں کو انسان ماننے سے اس کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں۔
جماعت اسلامی کو چاہیے کہ اگر وہ واقعی اس معاشرے کو سدھارنا چاہتی ہے اور کچھ ووٹ بھی لینا چاہتی ہے تو ٹی وی پر الخدمت کے رضاکاروں کو بھیجے اور خواجہ سراؤں کے خواب دیکھنے والے سینیٹر حضرات کو کچھ عرصے کے لیے سیلاب زدہ علاقوں میں بھیجے۔
شادی کی ایک تقریب میں رقص ہو رہا تھا جب پستول تھامے ایک نوجوان خواجہ سرا کے قریب آیا اور اس نے پستول تان کر گولی چلائی۔ یہ تمام مناظر ایک ویڈیو میں دیکھے جا سکتے ہیں جو پاکستانی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔
اس ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم ایک گولی چلانے کے بعد پستول کو دوبارہ لوڈ کرتا ہے اور دوسری گولی بھی اسی خواجہ سر پر چلاتا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں 13 جون کی شب فائرنگ کے اس واقعے میں پولیس کے مطابق زیبی ملک نامی ایک خواجہ سرا ہلاک جبکہ اس کے ساتھ موجود خاتون زخمی ہوئی ہیں۔
سماجی کارکنان کے مطابق ٹرانس جینڈر زیبی کے قتل کے بعد صوبے میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران قتل ہونے والے خواجہ سراؤں کی تعداد 154 ہو گئی ہے، یعنی ہر سال اوسطاً 15 سے زیادہ خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں۔
ٹرانس ایکشن کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کئی کیسز میں گرفتار کیے گئے ملزمان کو سزائیں دلانے میں ناکام رہی ہے۔ '(ہم) زیبی کے قتل پر بھی انتہائی دکھ کا شکار ہیں کہ یہ خون بھی رائیگاں چلا جائے گا۔'
دوسری طرف پولیس کا کہنا ہے کہ زیبی کے قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس سے آلہ قتل (یعنی پستول) برآمد کیا گیا ہے۔ پولیس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ملزم کو قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے گی۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
ایبٹ آباد پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ زخمی خاتون ڈانسر کی مدعیت میں درج کیا ہے جس پر ٹرانس جینڈر برادری نے اعتراض اٹھایا ہے۔
زخمی خاتون، جو ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، کا کہنا ہے کہ 'مجھے اس تقریب میں مقتولہ زیبی نے دعوت تھی۔۔۔ ملزم موقع پر پہنچا اور مقتولہ زیبی سے مطالبہ کرنے لگا کہ موبائل اس کے حوالے کرے تاکہ وہ اس کے موبائل میں ملزم کی جو ویڈیوز موجود ہیں، ان کو حذف کرے یا وہ خود ان کو ڈیلیٹ کرے جس پر مقتولہ زیبی نے کہا کہ تقریب کے بعد بات کرتے ہیں۔'
درج مقدمہ کے مطابق اس بات پر 'ملزم نے پستول نکالا اور ہجوم کے اندر قتل کرنے کے لیے فائرنگ کر دی جس سے مقتولہ زیبی کو پیٹ میں گولیاں لگیں اور وہ زخمی ہوگئی۔ جبکہ فائرنگ میں خاتون خود بھی زخمی ہوئیں۔'
دوسری جانب خواجہ سرا رہنما اور سماجی کارکن ماریہ خان کا کہنا ہے کہ 'ہم نے پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ خواجہ سراؤں کی مدعیت میں درج کیا جائے۔'
ماریہ خان کا دعویٰ تھا کہ ملزم مقتولہ خواجہ سرا زبیی پر 'تعلقات کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا، انکار پر اس نے قتل کیا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ مقدمے میں وجہ عداوت کو درست بیان نہیں کیا گیا۔
پولیس کا موقف
ایبٹ آباد پولیس کے ترجمان اعظم میر افضل کے مطابق ایبٹ آباد تھانہ میر پور پولیس نے ملزم کو جائے وقوعہ سے گرفتار کر کے آلہ قتل بر آمد کر لیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملزم نے پولیس کے سامنے اقبال جرم بھی کر لیا ہے اور عدالت سے ملزم کا دو روزہ ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پولیس کے سامنے اقبال جرم کی عدالت میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
اعظم میر افضل کا کہنا تھا کہ قتل کا مقدمہ زخمی خاتون ڈانسر کی درخواست پر درج کرنا قانونی تقاضہ تھا کیونکہ وہ اس واقعے میں خود زخمی ہوئی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ 'مقتولہ خواجہ سراؤں کے ساتھیوں کا بیان حاصل کر کے ان کو بھی اس مقدمے میں مدعی اور گواہ بنا دیا گیا ہے۔ اگر مقتولہ خواجہ سرا کے لواحقین چاہیں گے تو وہ بھی درخواست دے کر مدعی بن سکتے ہیں۔'
اعظم میر افضل کا کہنا تھا کہ اس وقت پولیس کی تفتیش میرٹ پر جاری ہے۔ 'پولیس انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے گی۔'
'پولیس ملزم کو عدالت سے سزا دلوانے کے لیے تمام شواہد اکٹھے کر رہی ہے اور اگر خواجہ سرا مزید کوئی بھی ثبوت دینا چاہتے ہیں تو پولیس نہ صرف مدد کرے گی بلکہ ان کو تحفظ بھی فراہم کرے گی۔'
سماجی کارکن ماریہ خان کا کہنا تھا کہ مقتولہ زیبی کا تعلق سرگودھا سے تھا اور وپ عرصہ دراز سے ایبٹ آباد میں مقیم تھیں اور تقاریب میں کام کرتی تھیں۔ 'وہ اپنے خاندان کی واحد کفیل تھیں۔ ان کے والد کافی عرصہ پہلے وفات پا چکے تھے۔'
مقتولہ زیبی کے ایک ساتھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم 'کافی عرصے سے زیبی کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ زیبی اس کے ساتھ تعلق قائم کرے جبکہ مقتولہ زیبی نے ملزم کو کئی مرتبہ بتایا تھا کہ وہ اس کے ساتھ تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔۔۔ وہ صرف ناچ گانا کر کے اپنے لیے روزی روٹی کمانا چاہتی تھی، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔'
10 سال میں 154 خواجہ سراؤں کا قتل
ٹرانز ایکشن کمیٹی صوبہ خیبر پختونخوا سے منسلک فرزانہ ریاض کا کہنا ہے کہ پورے صوبے میں 2015 سے لے کر اب تک 154 خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں۔ 'ہزارہ ڈویژن میں یہ 45واں واقعہ ہے جبکہ ایبٹ آباد کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے ایبٹ آباد میں منی خواجہ سرا قتل ہوئی تھی۔'
فرزانہ ریاض کا کہنا تھا کہ ان واقعات کے مقدمات درج ہوئے، کچھ کے ملزمان گرفتار ہوئے اور کچھ کے ملزمانں نہیں گرفتار ہوئے۔ 'مِنی سات، آٹھ سال پہلے قتل ہوئی تھی، اس کے ملزمان رہا ہو چکے ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں۔'
ان کا مطالبہ ہے کہ 'ایسا مقدمہ درج کیا جائے جس کے نتیجے میں ملزمان کو سزا مل سکے۔ ایسا نہ ہو کہ ملزمان کچھ عرصے بعد رہا ہوجائیں۔'
انھوں نے بتایا کہ کئی بار جب خواجہ سرا قتل ہوتے ہیں تو 'ان کے لواحقیقن جنازہ اٹھانے کے لیے نہیں آتے۔ مگر جب مقدمہ درج ہو جاتا ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ سزائیں نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لواحقین اور ملزمان کے بیچ راضی نامے پر اتفاق ہو جاتا ہے۔
اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ خواجہ سرا کے قتل میں مدعی اس کے اپنے ساتھی خواجہ سرا ہونے چاہییں۔
امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے چیف، جنرل مائیکل کوریلا نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے موقع پر کابل ایئرپورٹ کے ایبی گیٹ حملے کے مرکزی کردار ’جعفر‘ (شریف اللہ) کو گرفتار کرنے کے بعد پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے سب سے پہلے انھیں فون کیا اور کہا کہ ’میں (پاکستان) نے اسے (جعفر) پکڑ لیا ہے اور میں اسے امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہوں۔ پلیز سیکریٹری دفاع اور صدر (ٹرمپ ) کو بتا دیں۔‘
جنرل مائیکل کوریلا منگل کو واشنگٹن میں ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی ’مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں امریکی فوجی حکمت عملی اور قومی سلامتی کے چیلنجز‘ پر سماعت کے دوران افغانستان اور پاکستان کی سرحدی صورتحال پر سوالات کے جواب دے رہے تھے۔
جنرل مائیکل کوریلا نے اس موقع پر پاکستان کو انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں ایک ’شاندار اور قابلِ اعتماد پارٹنر‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی پاکستان کے ساتھ شاندار پارٹنرشپ اور انٹیلیجنس کے تبادلے کے تحت انھوں نے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں کیں، درجنوں دہشتگردوں کو ہلاک کیا اور انھوں نے داعش خراسان کے کم از کم پانچ اہم ارکان کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا۔
جنرل مائیکل کوریلا نے کمیٹی ممبران کو بتایا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان ہماری فراہم کردہ محدود انٹیلیجنس کے باوجود، اپنے دستیاب وسائل سے داعش خراسان کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر رہا ہے اور اس کارروائیوں کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔‘
انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ’2024 کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مغربی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد دہشتگرد حملے ہو چکے ہیں جن میں تقریباً 700 سکیورٹی اہلکار اور شہری ہلاک ہوئے جبکہ 2500 سے زائد زخمی ہوئے۔‘
جنرل مائیکل کوریلا کے مطابق پاکستان اس وقت دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور ایک ’قابلِ اعتماد شراکت دار‘ کے طور پر اُبھرا ہے۔
یاد رہے امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کانگریس سے اپنے پہلے خطاب میں 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں پر ہونے والے خودکش حملے کے منصوبہ ساز شریف اللہ کی گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔
جنرل مائیکل کوریلا نے مزید کیا کہا؟
منگل کو ہونے والی واشنگٹن میں ہونے والی سماعت کا مقصد نیشنل ڈیفنس آتھورائزیشن ایکٹ 2026 کے لیے مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں محکمہ دفاع کی پالیسیوں اور سرگرمیوں کا جائزہ لینا تھا۔
یہ سماعت امریکی قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا تجزیہ کرنے اور کانگریس کی جانب سے فراہم کردہ وسائل کو امریکہ کے دفاع کے لیے مؤثر انداز میں استعمال کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس دوران ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ایک رُکن نے جنرل مائیکل کوریلا سے سوال کیا کہ ’جنرل آپ نے اپنی ابتدائی گفتگو میں داعش خراسان اور افغانستان کا ذکر کیا تھا۔ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں چاہوں گا کہ آپ اس پر کچھ تفصیل سے روشنی ڈالیں۔‘
جنرل کوریلا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ داعش خراسان شاید دنیا بھر میں بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والا سب سے سرگرم گروہ ہے، جس میں امریکہ پر حملے بھی شامل ہیں۔
’ہم نے یہ دیکھا ہے کہ طالبان نے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں کیں، دونوں ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں اور انھیں افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قبائلی علاقوں کی جانب دھکیل دیا گیا۔‘
جنرل کوریلا نے کہا کہ ’پاکستان کے ساتھ ہماری جو شاندار پارٹنر شپ ہے، اس کے تحت انھوں نے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اور درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔ ہمارے ان کے ساتھ انٹیلیجنس کے تبادلے کے تعلق کے تحت انھوں نے کم از کم داعش خراسان کے پانچ اہم افراد کو گرفتار کیا ہے۔‘
انھوں نے ایبی گیٹ حملے کے مرکزی کردار ’جعفر‘ (شریف اللہ) کی گرفتاری اور امریکہ کے حوالے کیے جانے کا ذکر بھی کیا جس کے بارے میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس گرفتاری کے بعد فیلڈ مارشل اور آرمی چیف جنرل منیر نے براہِ راست ان سے رابطہ کیا تھا۔
جنرل کوریلا کا کہنا تھا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان، ہماری فراہم کردہ محدود انٹیلیجنس کے باوجود اپنے دستیاب وسائل سے داعش خراسان کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر رہا ہے اور ان کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ داعش خراسان کے عناصر ادھر ادھر حرکت کر رہے ہیں، بعض اوقات وہ واپس افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’ہمارے پاس معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن اس وقت وہ زیادہ تر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں۔‘
جنرل کوریلا نے کہا کہ ’پاکستان اس وقت دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس حوالے سے وہ ایک شاندار پارٹنر رہا ہے۔‘
’ہمیں پاکستان اور انڈیا دونوں کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہییں‘
جنرل کوریلا سے اگلا سوال کیا گیا کہ کیا انھیں لگتا ہے کہ دہشت گردی کی خلاف پاکستان کی کارروائیاں کم ہو رہی ہیں یا مزید تیز ہو رہی ہیں؟
جس پر جنرل کوریلا نے کہا کہ جہاں تک داعش خراسان کا تعلق ہے، انھیں گذشتہ چند مہینوں میں بہت شدید نقصان پہنچا ہے۔ ’میں کہوں گا کہ اس وقت وہ کمزور ہیں۔‘
’ہمیں جو معلومات تفتیش اور برآمد شدہ مواد سے مل رہی ہیں، وہ خاصی اہم ہیں۔ لیکن ِخیال رہے کہ یہی لوگ ماسکو کے ’کروکس میوزک سٹی ہال‘ حملے کے پیچھے تھے، انھوں نے ایران کے شہر کرمان میں حملہ کیا اور دیگر حملوں کی کوششیں بھی کیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’خفیہ بریفنگ میں میں یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ ان کا امریکہ کے اندر بھی روابط اور خطرات سے تعلق ہے۔‘
جنرل کوریلا کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان اور انڈیا دونوں کے ساتھ تعلقات کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے کہ اگر پاکستان سے تعلق ہو تو انڈیا سے نہیں ہو سکتا۔ ہمیں دونوں کے ساتھ میرٹ پر تعلقات قائم کرتے ہوئے ہر ملک کے ساتھ تعلق کو اس کے فوائد اور مثبت پہلوؤں کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے، نہ کہ کسی ایک کے حق میں دوسرے کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جائے۔‘
جہاں پاکستان میں جنرل مائیکل کوریلا کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کوششوں کی تعریف کو اہم سفارتی تائید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب انڈین سوشل میڈیا پر امریکہ اور مودی حکومت کو اس موقف پر شدید تنقید کا سامنا ہے جسے بعض تجزیہ کار خطے میں بدلتی ہوئی تزویراتی ترجیحات سے تعبیر کر رہے ہیں۔
کانگریس کے جیرام رمیش نے ایکس پر لکھا ’امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے ابھی پاکستان کو 'انسداد دہشت گردی میں ایک شاندار شراکت دار' قرار دیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اور ان کے حامی اس بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا یہ سفارتی سطح پر ایک دھچکا نہیں؟‘
کئی انڈین صارفین نے تبصرہ کیا ہے کہ ’اسی لیے انڈیا، امریکہ پر اعتبار نہیں کرتا۔ اور اسے اب روس کے ساتھ تعلقات مزید بہتر کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔‘
مشرقِ وسطیٰ سے افغانستان تک: امریکی جنرل کے کیرئیر پر ایک نظر
جنرل مائیکل ’ایرک‘ کوریلا کا تعلق امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر ایلیک ریور سے ہے۔
انھوں نے ایرو سپیس انجینئرنگ میں بی ایس، بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم بی اے اور نیشنل سکیورٹی سٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
سینٹ کام کی ویب سائٹ کے مطابق وہ 1988 میں ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی سے امریکی فوج میں شامل ہوئے۔
اپنے 30 سالہ کیریئر میں انھوں نے دنیا کے کئی اہم جنگی علاقوں میں خدمات انجام دیں جن میں پانامہ، عراق، افغانستان، بوسنیا، کوسوو اور شام شامل ہیں۔
انھوں نے زمینی جنگوں میں حصہ لینے والی خصوصی فورسز جیسے ایئر بورن، رینجر، سٹرائیکر اور سپیشل آپریشنز یونٹس کی قیادت کی۔ سنہ 2004 سے سنہ 2014 تک وہ مسلسل مشرقِ وسطیٰ کے مختلف جنگی علاقوں میں تعینات رہے۔
جنرل کوریلا نے امریکی فوج کے کئی بڑے یونٹس کی کمان کی ہے جن میں 75 ویں رینجر رجمنٹ، 82 ویں ایئر بورن ڈویژن، اور XVIII ایئر بورن کور شامل ہیں۔
اس کے علاوہ وہ امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے چیف آف سٹاف بھی رہ چکے ہیں۔
انھیں اعلیٰ فوجی اعزازات سے نوازا گیا ہے جن میں پرپل ہارٹ (زخمی ہونے پر دیا جانے والا اعزاز)، رینجر ٹیَب، اور کامبیٹ انفنٹری مین بیج شامل ہیں۔
افغانستان میں ایک استاد عظمت اللہ کو کچھ روز قبل یہ معلوم ہوا تھا کہ ایک بچے کے دل میں سوراخ ہے مگر اس کے والدین ویزا اور پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسے پاکستان میں علاج کی غرض سے نہیں لا پا رہے تھے۔
ایک ماہ کے اس معصوم بچے کے والدین عظمت اللہ کو جانتے نہیں تھے۔ مگر اس مجبوری کی حالت میں انھوں نے ایک اجنبی کے ہاتھ اپنے نومولود بچے کو علاج کے لیے پاکستان روانہ کر دیا۔
مدثر خان نامی یہ بچہ قریب 10 روز سے پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زیرِ علاج ہے۔ حکام کے مطابق گذشتہ روز اس کی والدہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پاکستان آنے کی اجازت دی گئی تھی اور اب وہ اپنے بچے کے پاس پہنچ چکی ہیں۔
عظمت بتاتے ہیں کہ ایک ماہ کے بچے کے ساتھ پاکستان آنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کے ’ماں بار بار فون کر کے پوچھ رہی تھی ’میرا بیٹا کیسا ہے؟ روتا تو نہیں؟ دودھ دیا؟ مجھے اس کی ویڈیو بھیج دو۔‘
انھوں نے اس بچے کی خاطر عید پشاور میں ہی گزاری۔ ’یہ سب کچھ انسانیت کی خاطر کیا ہے تاکہ اللہ ہم سے راضی ہو جائے اور اللہ ہماری محنت کا اجر دے تاکہ یہ بچہ صحتیاب ہو سکے۔‘
مدثر خان کی والدہ نے دس روز تک پاک افغان سرحد پر انتظار کیا اور اس دوران وہ کبھی جلال آباد میں اپنے گھر چلی جاتی تھیں لیکن جب ان کا دل مطمئن نہیں ہوتا تھا تو دوبارہ سرحد کے پاس آجاتی تھیں۔
یہ خاتون گذشتہ روز جمعرات کی صبح آٹھ بجے سے طورخم سرحد پر انتظار میں تھیں کہ کسی طریقے سے انھیں اپنے بچے تک پہنچایا جائے۔
جمعے کو خاتون کو انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔
وزیراعظم پاکستان کے ٹرائبل افیئرز کے معاون اور باجوڑ سے رکن قومی اسمبلی مبارک زیب نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر بچے کے بارے میں دیکھا تھا، اس لیے وہ بچے سے ملنے ہسپتال گئے تھے۔
اس کے بعد انھوں نے وزیر مملکت برائے داخلی امور طلال چوہدری سے رابطہ کیا اور اپنے ذرائع سے بھی کوششیں کیں تاکہ بچے کی والدہ اس کے پاس پہنچ سکیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جمعے کی صبح بچے کی والدہ کو پاکستان داخل ہونے کی اجازت مل گئی اور اب بچے کے علاج پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔‘
افغان والدین نے بچے کی جان بچانے کے لیے ایک اجنبی پر اعتبار کیا
ہوا کچھ یوں کہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے مومندرہ کے علاقے میں ایک افغان شہری سباؤن خان کے ہاں ایک بچہ گذشتہ ماہ پیدا ہوا۔ بچے کو پیدائش کے بعد ایک عارضہ لاحق ہوا اور اسے دورے پڑنے لگے۔
ننگرہار کے ڈاکٹروں نے بچے کو کابل لے جانے کا کہا اور مگر وہاں کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کا علاج پاکستان میں ہی ممکن ہے۔
پشاور کے ڈاکٹروں کے مطابق دراصل بچہ دل کے ایک عارضے میں مبتلا ہے جسے عام زبان میں دل میں سوراخ ہونا کہتے ہیں جبکہ اسے کیلشیئم کی بھی قلت کا سامنا ہے۔
ایک ماہ کے اس بچے کے والدین پاکستان نہیں آ سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھے۔ اس کے باوجود وہ پاکستان جانے کے لیے طورخم پر واقع پاکستان-افغان سرحد پہنچ گئے تھے۔
ان والدین کے ساتھ مقامی سکول ٹیچر عظمت اللہ بھی روانہ ہوئے تھے جن کے پاس پاکستان آنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا دونوں تھے۔
عظمت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بچے کے والدین کو نہیں جانتے تھے۔ مگر وہ ان کے ایک دوست کے جاننے والے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب والدین کو طورخم سرحد عبور کرنے کی اجازت نہ ملی تو ’والدین نے بچہ میرے حوالے کیا اور کہا کہ میں اسے پشاور کے ایک نجی ہسپتال لے جاؤں۔‘
وہ بچے کو لے کر پاکستان پہنچے اور پشاور کے آر ایم آئی ہسپتال لے گئے۔ مگر یہاں علاج بہت مہنگا تھا اور ان کے پاس رقم کم تھی جو دو دن کے علاج میں ہی ختم ہو گئی تھی۔
اس کے بعد وہ بچے کو سرکاری ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس لے گئے لیکن عید کی چھٹیوں کی وجہ سے ہسپتال میں ماہر ڈاکٹر موجود نہیں تھے۔
وہ مجبور ہو کر بچے کو گھر لے گئے۔ ایک دن بچے کی حالت بہت خراب ہوئی تو وہ اسے ایک دوسرے نجی ہسپتال لے گئے اور اس کا وہاں علاج کیا گیا اور بچے کی حالت کچھ بہتر ہو گئی۔
وہ عید کے بعد بچے کو دوبارہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس لے آئے اور یہاں تاحال اس کا علاج جاری ہے۔
بچے کے والد سباؤن خان نے بی بی سی کو بتایا کہ بچہ محض ایک ماہ کا تھا جب اسے عظمت اللہ کے جوالے کیا گیا تھا اور اس کی نشونما کے لیے ماں کا دودھ بھی ضروری تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ 'یہ ہمارے لیے انتہائی مشکل فیصلہ تھا کیونکہ ایک طرف ہم بچے کی حالت دیکھتے تھے تو ہم سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔'
’اب تک لوگوں سے بہت رقم قرض میں لے چکا ہوں‘
سباؤن نے بتایا کہ بڑے آپریشن کے ذریعے پیدائش کے بعد سے بچے کو دورے پڑتے تھے مگر جلال آباد اور کابل میں علاج ممکن نہیں تھا۔ ’ڈاکٹروں نے پشاور کا کہا تو ہم نے قرض لیا اور پشاور آنے کا فیصلہ کیا لیکن پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر ہمیں اجازت نہیں ملی اور مجبور ہو کر بچہ ہم نے عظمت اللہ کے حوالے کر دیا تھا۔‘
’یہ کوئی آسان کام نہیں۔ ہم عظمت اللہ کے مشکور ہیں کہ وہ کیسے بچے کی دیکھ بھال کر رہا ہوگا کیونکہ بچے کو فیڈر میں دودھ ڈال کر دینا ہوتا ہے، اس کو صاف کرنا ہوتا ہے اور رونے پر چپ کرانا ہوتا ہے۔ بہت مشکل ہے اور یہ صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔‘
پشاور کے نجی ہسپتالوں میں علاج کافی مہنگا ہے جبکہ سرکاری ہسپتال میں بھی علاج کے لیے اچھی خاصی رقم چاہیے ہوتی ہے۔
عظمت اللہ نے بتایا کہ ’جب میں بچے کو لے کر طورخم سے روانہ ہوا تو بچے کے والدین نے مجھے 55 ہزار روپے دیے تھے لیکن یہ رقم تو نجی ہسپتال کے تین دنوں میں علاج کے دوران خرچ ہو گئی۔ اس کے بعد سباؤن سے کہا تو اس نے مزید رقم کا انتظام کیا اور میں نے خود یہاں کچھ ساتھیوں سے قرض لیا ہے تاکہ بچے کا علاج ممکن ہو سکے۔‘
عظمت اللہ نے بتایا کہ وہ دعائیں کر رہے ہیں کہ ’اللہ بچے کو صحت دے۔ میں چاہتا ہوں کہ بچے کو بیماری سے پاک حالت میں والدین کے حوالے کروں۔‘
سباؤن بھی ایک سکول ٹیچر ہی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اب تک لوگوں سے بہت رقم قرض میں لے چکا ہوں۔‘
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں موجود ڈاکٹر عطا اللہ نے بتایا کہ اس وقت بچے کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں، ان میں بچے کے دماغ کا معائنہ کیا گیا ہے، وہ بالکل ٹھیک ہے، دل میں اشو ہے اور اس کے علاوہ بچے میں کیلشیئم پیدا نہیں ہو رہی، اسے دیکھا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ بچے کے تمام ٹیسٹ کرا رہے ہیں اور بچے کا علاج جاری ہے۔
صحت کے شعبے میں افغانستان کا پاکستان پر انحصار
افغانستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل جنگی صورتحال کے باعث ملک میں صحت کی سہولیات کی دستیابی میں مسائل درپیش ہیں۔ اس لیے بڑی تعداد میں افغان عوام کا انحصار پشاور یا اسلام آباد میں موجود ہسپتالوں پر ہوتا ہے۔
ایک طویل عرصے سے بڑی تعداد میں افغان مریض علاج کے لیے پشاور کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے رہے ہیں۔ مگر سرحد پر سفری دستاویز کی کڑی شرائط کی وجہ سے اب انھیں پاکستان آنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پشاور کے بڑے نجی ہسپتال اور پشاور میں قائم افغان شہریوں کے لیے قائم ہسپتال افغانستان سے آنے والے مریضوں کی پہلی منزل ہوتی ہے۔
پاکستان میں نجی ہسپتالوں میں بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے پشاور یا اسلام آباد اس لیے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ یہ قریب ہے سفری اخراجات کم ہیں اور یہ کہ زبان اور کلچر ایک ہیں۔
ایک افغان شہری سمیع اللہ نے بتایا کہ اب سرحد پر سختی کی وجہ سے یا تو امیر لوگ یہاں آ سکتے ہیں اور یا بہت مجبوری ہو تو کسی ایک ایسے شحص کو درخواست کی جاتی ہے جس کے پاس سفری دستاویز ہوں تاکہ وہ مریض کو پشاور لا سکے۔
خواتین کے حقوق اور افغان پناہ گزینوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی خاتون فوزیہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ 'سرحد پر کڑی شرائط پر دوبارہ غور کرنا چاہیے اور ان میں انسانیت کی خاطر اگر کوئی سرحد عبور کرنا چاہے تو اس کے لیے نرم گوشے کی گنجائش ضروری ہے۔'
برطانیہ کے ڈاکٹر پیٹ کے ایک خطرناک انفیکشن کو انسانی پاخانے سے بنی گولیوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس انفیکشن کی وجہ سے جسم کے اندر ہی فضلہ سخت اور خشک ہونے لگتا ہے۔
عطیہ کیے گئے نمونوں کی جانچ سے پتا چلا ہے کہ صحت مند افراد کے پاخانے میں اچھے بیکٹیریا ہوتے ہیں۔
ابتدائی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان سپر بگز (جرثوموں) کو آنتوں سے باہر نکالا جا سکتا ہے اور اس کی جگہ صحت مند آنتوں کے بیکٹیریا کا مرکب شامل کیا جا سکتا ہے۔
یہ اس انفیکشن سے نمٹنے کے لیے ایک نیا نقطہ نظر ہے جو اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے ہر سال دس لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
گائز اینڈ سینٹ تھامس ہسپتالوں میں ان گولیوں کی آزمائش کرنے والے ڈاکٹر بلیئر میریک کا کہنا ہے کہ ان کی توجہ آنتوں پر مرکوز ہے جو ’انسانوں میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کا سب سے بڑا ذخیرہ‘ ہیں۔
دواؤں کے خلاف مزاحمت کرنے والے سپر بگ آنتوں سے جسم کے کسی اور حصے میں منتقل ہو کر پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں، جیسے پیشاب کی نالی یا خون کے انفیکشن۔
ڈاکٹر میریک کا کہنا ہے کہ اس لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ ’کیا آپ ان سے چھٹکارا پا سکتے ہیں؟‘
پاخانے سے بنی گولیوں کا خیال اتنا غیر یقینی نہیں لگتا۔ سائنس دانوں نے ایسے اشارے دیکھے کہ فیشل ٹرانسپلانٹ سے بھی سپر بگز سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔
نئی تحقیق میں ان مریضوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جنھیں گذشتہ چھ ماہ کے دوران ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کی وجہ سے انفیکشن ہوا تھا۔
انھیں پاخانے سے بنی گولیاں دی گئیں جو لوگوں نے سٹول بینک (پاخانہ جمع کرنے والا مرکز) کو عطیہ کی تھیں۔
ہر پاخانے کے نمونے کی جانچ کی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس میں کوئی نقصان دہ کیڑے تو نہیں، غیر ہضم شدہ کھانے کو ہٹا دیا جاتا ہے اور پھر اسے خشک کر کے پاؤڈر کی شکل میں منجمد کیا جاتا ہے۔
اسے ایک گولی کے اندر ذخیرہ کیا جاتا ہے جو معدے سے بغیر کسی رکاوٹ کے گزر سکتی ہے اور آنتوں تک پہنچ سکتی ہے جہاں یہ پاخانے کے مرکب کو چھوڑنے کے لیے تحلیل ہو جاتی ہے۔
لندن کے گائز اور سینٹ تھامس ہسپتالوں میں 41 مریضوں پر یہ تجربہ کیا گیا تاکہ بڑے پیمانے پر مطالعے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مریض یہ پاخانے سے بنی گولی لینے کے لیے تیار تھے اور عطیہ کردہ بیکٹیریا کم از کم ایک ماہ بعد بھی آنتوں میں پایا جا رہا تھا۔
ڈاکٹر میرک کا کہنا ہے کہ ’واقعی امید افزا اشارے‘ موجود ہیں کہ پاخانے کی گولیاں یا ’پُو پلز‘ سپر بگز سے نمٹنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
مطالعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تھراپی کے بعد آنتوں کے بیکٹیریا زیادہ متنوع ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر میریک کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت دلچسپ ہے کہ 20 سال پہلے کے مقابلے میں ایک حقیقی تبدیلی آئی، جہاں تمام بیکٹیریا اور وائرس کو نقصان پہنچانے والا سمجھا جاتا تھا۔ اب ہمیں احساس ہوا کہ وہ ہماری مجموعی صحت کے لیے ضروری ہیں۔‘
اس ہفتے کے اوائل میں سائنس دانوں نے دکھایا تھا کہ ہمارے پیدا ہونے کے چند گھنٹوں کے دوران جسم میں ملنے والے اچھے بیکٹیریا سے چھوٹے بچوں کے پھیپھڑوں کے انفیکشن کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہونے کا خطرہ نصف ہوجاتا ہے۔
ہمارے جسم کے انسانی خلیات ان بیکٹیریا، پھپھوندی اور ہمارے اندر رہنے والی دیگر چیزوں کے لیے قدرتی مدافعت رکھتے ہیں، جسے مائیکروبائیوم کہا جاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں کروہن کی بیماری سے لے کر کینسر اور دماغی صحت تک ہر چیز میں مائیکروبائیوم کو شامل کرنے کے لیے تحقیق ہوئی ہے۔
اگر بڑے مطالعات میں ’پُو پلز‘ سپر بگز کے خلاف کام کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں تو محققین کا خیال ہے کہ انھیں خطرے کا شکار لوگوں میں علاج اور روک تھام دونوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
برطانیہ کے ڈرگ ریگولیٹر میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ایجنسی (ایم ایچ آر اے) کا کہنا ہے کہ اس وقت 450 سے زائد مائیکروبائیوم ادویات تیار کی جا رہی ہیں۔
ایم ایچ آر اے میں مائیکروبائیوم ریسرچ کی سربراہ ڈاکٹر کریسی سرگاکی کا کہنا ہے کہ ’ان میں سے کچھ کامیاب ہوں گی، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہم انھیں بہت جلد مکمل کر لیں گے۔‘