·   ·  17 posts
  •  ·  1 friends
  • L

    1 followers

تاریکی کا مسافر

دیکھا تم نے اپنے بیٹے کا رزلٹ؟ یہ نمبر ہوتے ہیں مسابقتی امتحانات میں پاس ہونے کے؟ ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی چار فروش کی دکان کا بل دیکھ رہے ہوں۔ اس نے دسویں میں نمبر لیے ہیں؟ تف ہے ایسی اولاد پر! ابا نے اپنا چشمہ رزلٹ کارڈ کے ساتھ ہی شیلف پر رکھ دیا۔ وہ چپ کھڑا رہا، سر جھکائے، نظریں نیچے کیے۔ یہ سب تو روز کا معمول تھا، اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ثمین ایک باریک سی آواز کے ساتھ بنا اطلاع دیے ان کے آنگن میں داخل ہو چکی تھیں، اور یہ بات ابا کو سخت ناگوار گزری۔ آنٹی امّی — ایک نظر سر جھکائے ندیم کو دیکھتی ہوئی وہ اب اماں سے مخاطب ہوئی، جو ہمیشہ باپ بیٹے کے درمیان موجود رہتیں، لیکن کبھی کسی کی حمایت میں زبان کھولنا آداب کے خلاف سمجھتی تھیں۔ ثمین! ثمین! نینا آ گئی ہے، جلدی آؤ! اماں نے ثمین کو آواز دینا شروع کی۔ ثمین تو ویسے بھی وقت پر تیار نہیں ہوتی تھی، آج کیسے ہوتی۔ وہ یقینا اندر اپنا اسکارف ڈھونڈ رہی ہوگی، جو وہ اکثر لاپروائی سے کالج سے آنے کے بعد کہیں بھی رکھ دیا کرتی تھی۔ ندیم کے ذہن میں جھلک کے ساتھ اپنی باتیں چل رہی تھیں۔ نینا اس کی دی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتی تھی اور ندیم اور ابا کی جو کارروائی رک گئی تھی، وہ دوبارہ شروع ہو جاتی تھی۔ ندیم کو لگتا تھا سب کچھ طے شدہ ہے — جیسے ٹھیک نو بجے ابا کا ڈانٹنا، اس کا دیر سے اٹھنا، نینا کا اسی وقت آنا، اور ابا کا غیر سنسر شدہ لیکچر۔ اس نے کئی بار کوشش کی کہ کسی طرح یہ روٹین بدل جائے — کبھی وہ جلدی اٹھ جاتا، کبھی آٹھ بجے ہی کھانے کی میز پر آ بیٹھتا تاکہ کم از کم نینا کے سامنے خوار ہونے سے بچ جائے۔ لیکن کبھی کچھ نہیں بدلا۔ ایک دن وہ جلدی اٹھا۔ اس دن بار بار وہ ابا کے سامنے سے گزرا تاکہ وہ جلدی سے ڈانٹ دیں۔ کئی بار ان کے آس پاس بلاوجہ کھڑا رہا، مگر انہوں نے دیکھا تک نہیں۔ سات بجے وہ اٹھے اور باتھ روم چلے گئے۔ جب باہر آئے تو ندیم بالکل ان کے سامنے آئینے میں بال سنوار رہا تھا، مگر انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ ندیم دل مسوس کر رہ گیا۔ پھر جب آدھے گھنٹے سے زیادہ ہو گیا تو وہ بور ہو کر ادھر ادھر جھانکنے لگا۔ جیسے ہی ابا کا پڑھنا ختم ہوا، اماں دسترخوان بچھا چکی تھیں، اور ندیم کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ اب وہ کسی امید پر بیٹھ بھی جاتا تو فائدہ نہ تھا — کھانے کے دوران ابا کسی سے بات نہیں کرتے تھے، تو ڈانٹتے کیسے؟ وہ پھر اپنے کمرے میں آ گیا۔ کچھ دیر بعد باہر آیا تو دیکھا ابا کھانا کھا چکے تھے، اماں انہیں چائے دے کر جا چکی تھیں، اور وہ اخبار اور چائے کا لطف بیک وقت لے رہے تھے۔ ندیم پھر کمرے میں واپس آ گیا، کہ اب چائے ختم ہونے تک کچھ نہیں ہونے والا۔ تب تک گھڑی نو بجا چکی تھی۔ ندیم! ندیم! ابا کی مخصوص، بلکہ چنگھاڑتی آواز پر وہ اچھلا۔ کہاں مر گیا یہ کمبخت؟ اپنی ہی دھن میں پھر رہا ہے۔ اب دیکھو، کمرے میں جا مرا ہے! ندیم فوراً باہر آ گیا۔ جی ابا۔۔۔ — بس اس کے جی کہنے کی دیر تھی کہ ابا کے دل و دماغ میں چھپے تمام ناکردہ گناہ اچانک یاد آ گئے، اور وہ ایسے آن ہوئے کہ آف ہونا بھول گئے۔ ندیم ان سب کے لیے تیار تھا، لیکن نینا کی وقت پر آمد کے لیے ہرگز نہیں۔ وہ بھی ٹھیک ساڑھے نو کے درمیان آجاتی۔ ندیم کو لگا ساری تیاری رائیگاں گئی۔ وہ جلدی اٹھا ہی اس لیے تھا کہ ابا اپنے ڈانٹ کوٹہ صبح صبح پورا کر لیں، اور نینا کے سامنے اس کی بے عزتی نہ ہو۔ مگر قسمت! اس دن بھی ثمین کے تیار ہونے تک نینا وہیں بیٹھی رہی، اور ابا نے اس کی آدھے گھنٹے کی کلاس لے کر ہی دم لیا۔ صاحبزادے نوکری نہیں کرتے، بزنس کرتے ہیں! واہ! بزنس تو جیسے چٹکی بجانے کا کام ہے! ہم نے تو عمر کھپا دی تب جا کے دو پیسے کی عزت کمانے کے لائق ہوئے ہیں! اب بزنس میں وہ دم خم ہی نہیں رہا، مگر بھوت چڑھا ہے کہ نوکری نہیں کرنی، صرف بزنس! ابا کا لیکچر رکتا نہ تھا۔ ندیم سر جھکائے خاموشی سے سب کچھ سنتا رہا۔ انکل، ثمین؟ نینا نے بروقت مداخلت کی۔ ثمین! ثمین! یہاں بچی آ کر کھڑی ہے اور تم اب تک وہیں ہو! جلدی آؤ! ابا نے بھی فوراً آواز دینا شروع کر دی۔ تو ابا بٹھا ہی دیتے نا، میں آ رہی ہوں! اندر سے ثمین کی آواز آئی۔ بیٹھو بیٹی، وہ کچھ دیر میں آ جائے گی۔ ابا نے نینا کو دیکھ کر کہا۔ ہیں؟ تو کیا ابا مشین کے بولنے کا انتظار کر رہے تھے؟ پہلے ہی بٹھا دیتے، آرام سے بیٹھ کر میری بے عزتی دیکھتی! ندیم کرسی کے ایک کونے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا، مگر اندر سے شدید احساسِ بے عزتی میں مبتلا تھا۔ اچھا، میں جا رہا ہوں۔ ابا نے ایک قہر آلود نظر ندیم پر ڈالی، جب ہی ثمین بھی آ گئی اور وہ دونوں کالج کے لیے نکل گئیں۔ ندیم بھی ایک ٹھنڈی سانس کے ساتھ اپنے دوستوں سے ملنے نکل گیا۔

ندیم کے ابا کی اپنی دکان تھی۔ وہ پچھلے پچیس سال سے یہ دکان چلا رہے تھے۔ دکان سے ان کا گزارا بخوبی ہو رہا تھا، اس لیے کبھی کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ لیکن ابا کی خواہش تھی کہ ندیم پڑھ لکھ کر اچھی نوکری حاصل کرے، جبکہ ندیم کو سرکاری نوکری کا حصول کسی عذاب سے کم نہیں لگتا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ اپنا ایک بڑا بزنس شروع کرے، اسی لیے وہ پڑھائی میں بھی زیادہ دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ یہی بات ابا کو ناگوار گزرتی اور وہ ندیم کو اکثر سناتے رہتے تھے۔ نینا نے نرمی سے کہا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کے ابا صحیح کہہ رہے ہیں، آپ کو بزنس کے بجائے تعلیم پر توجہ دینی چاہیے، یقیناً آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ آج بھی ابا اسے ڈانٹ کر دکان پر جا چکے تھے اور نینا حسبِ معمول وہیں موجود تھی۔ ثمین ابھی تک نہیں آئی تھی، اماں باورچی خانے میں مصروف تھیں، اور ندیم وہاں سے اٹھنے کا سوچ رہا تھا۔ ندیم جھنجھلا کر بولا کہ مجھے نوکری کے لیے دھکے کھانا پسند نہیں، اور ابا کو میری مرضی یا خواہش کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر میں نوکری نہیں کرنا چاہتا تو وہ مجھ پر اپنی مرضی کیوں تھوپ رہے ہیں؟ کیا فرق پڑے گا اگر میں بزنس کی طرف جاؤں؟ مجھ سے چھوٹا عظیم بھی تو ہے، کروا لیں اُس سے نوکری، وہ خوشی خوشی کر لے گا۔ میرے پیچھے لٹھ لے کر کیوں پڑے ہیں؟ ندیم اس وقت دل ہی دل میں بھرا ہوا تھا، نینا کی بات پر وہ پھٹ بھی پڑا۔ نینا نے سکون سے مگر مضبوط لہجے میں جواب دیا کہ آپ نے کبھی سوچا کہ وہ صرف آپ ہی کو پڑھنے کے لیے کیوں کہتے ہیں، عظیم کو کیوں نہیں؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کون سا بیٹا کیا کر سکتا ہے۔ انہیں پتا ہے کہ آپ تعلیم میں آگے جا سکتے ہیں، عظیم نہیں۔ وہ آپ سے امید رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ وہ کر سکتے ہیں جو عظیم نہیں کر سکتا۔ ایک باپ کی نظر اپنے بیٹے کی قابلیت کو پہچان لیتی ہے۔ ندیم کچھ نرم ہوا اور کہنے لگا کہ یار میں پڑھائی میں ایوریج ہوں، کبھی ٹاپ ٹین میں بھی نہیں رہا۔ نینا نے اعتماد سے کہا کہ آپ ایوریج اس لیے ہیں کیونکہ آپ نے پڑھائی پر محنت نہیں کی۔ اگر آپ محنت کریں تو ٹاپ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ اور ایک بزنس شروع کرنے کے لیے لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں، یہ لاکھوں روپے کہاں سے آئیں گے؟ آپ کے ابا کو قرض لینا پڑے گا۔ ظاہر ہے، گھر کے اخراجات نکالنے کے بعد ان کے پاس اتنی بڑی رقم پس انداز نہیں ہوتی کہ وہ آپ کو بزنس کے لیے دے سکیں۔ انہیں یا تو دکان بیچنی پڑے گی یا گھر۔ اور ایک نیا بزنس کامیاب ہونے میں تین سے پانچ سال لگ جاتے ہیں۔ وہ بولتی چلی گئی کہ ان سالوں میں آپ کے ابا کو اپنی تین بیٹیوں کی شادیاں بھی کرنی ہوں گی۔ اگر ان سالوں میں بزنس نہ چلا تو بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ ایک طرف شادیاں، دوسری طرف بزنس کی ناکامی۔ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ ان برسوں میں آپ کی تعلیم بھی چھوٹ جائے گی۔ تب آپ کے ابا قرض میں ڈوبے گھر بیچ دیں گے، کسی طرح شادیاں کریں گے، اور پھر بھی آپ اور عظیم کی ذمہ داری ان پر رہے گی۔ ان کی کمر قرض کے بوجھ تلے جھک جائے گی، آپ کی اماں سفید بالوں کے ساتھ خاموش بیٹھی ہوں گی، اور گھر غربت میں ڈوبا ہو گا۔ آپ نے کبھی اس سب کے بارے میں سوچا؟ ندیم حیرانی سے نینا کو دیکھ رہا تھا۔ نینا نے مزید کہا کہ آپ نے کبھی ہارورڈ بزنس ریویو جیسے مضامین پڑھے ہوتے تو پتا چلتا کہ آج کل بڑے بڑے شاپنگ مالز اور برانڈز بزنس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ وہ معمولی منافع پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی سرمایہ کاری بڑی ہوتی ہے اس لیے وقتی نقصان برداشت کر لیتے ہیں، لیکن آپ جیسے نو آموز لوگ جنہیں بزنس کی الف سے بھی واقفیت نہیں، وہ نقصان میں چلے جاتے ہیں۔ بعض کے لیے تو دکان کا کرایہ نکالنا بھی ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر ندیم کو بزنس کی باریکیاں سمجھا رہی تھی۔ تب ہی ثمین آ گئی اور وہ دونوں کالج کے لیے نکل گئیں۔ ندیم وہیں کھڑا سوچنے لگا کہ کیا کہہ گئی ہے وہ؟ وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور نینا کی باتوں پر غور کرنے لگا۔ واقعی، وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ بزنس کرنا اتنا آسان نہیں جتنا اُس نے سمجھا تھا۔ اور ایسے وقت میں جب بہنوں کی شادیاں کرنی ہوں، چھوٹے بھائی کی تعلیم چل رہی ہو، ایسے میں اس طرح کا رسک لینا دانشمندی نہیں۔ مجھے محفوظ طریقہ اپنانا ہو گا، جس میں نقصان کا خطرہ کم سے کم ہو۔ اور محفوظ طریقہ تو یہی ہے کہ امتحان دوں اور کسی اسکول کی سرکاری نوکری کر لوں۔ کم از کم ہر ماہ ایک معقول رقم کی ضمانت تو ہو گی۔ اُسے نینا کی باتیں یاد آنے لگیں، میرے لیے اتنی فکر لیکن کیوں؟ ندیم نے آس پاس دیکھا۔ اُسے ایسا لگا جیسے کہیں رنگین آنچل لہرا رہے ہوں اور ان آنچلوں میں نینا چھپی ہو۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ اُس کے لبوں پر پھیل گئی۔

ابا، میں ایک سال کی کوچنگ لوں گا اور ہاسٹل میں رہوں گا، امتحانات کی تیاری کے لیے۔ وہ آج ابا کے سامنے مضبوط ارادے کے ساتھ کھڑا تھا۔ اپنا بزنس نہیں کرنا؟ ابا نے گھور کر دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ وہ چپ رہا۔ چلو، کچھ تو عقل آئی، ورنہ ایسا لگ رہا تھا جیسے بھینس کے آگے بین بجا رہا ہوں۔ اگر وہ آپ کی بات مان ہی رہا ہے تو پھر بھی آپ ناراض کیوں؟ اماں نے آج بیٹے کی حمایت میں زبان کھول ہی لی تھی۔ میں کب منع کر رہا ہوں؟ میں تو یہی چاہتا تھا، مگر جناب کو عقل ہی نہیں آ رہی تھی۔ اب جانے کیسے عقل آگئی۔ ابا نے دوبارہ اس کی عقل پر شک کیا تو وہ بس پہلو بدل کر رہ گیا۔

یوں وہ ہاسٹل آ گیا تھا۔ یہاں آ کر اسے حیرانی ہوئی تھی۔ کل تک اسے لگتا تھا کہ آج کی اس دنیا میں کوئی محنت نہیں کرتا، گورنمنٹ جاب کسی کو نہیں ملتی، اور یہ سب کچھ صرف خوش فہمی ہے۔ لیکن یہاں آ کر اسے ایسے محنتی طلبہ ملے جو واقعی اپنے مستقبل کو لے کر پریشان تھے اور دن رات دل لگا کر پڑھ رہے تھے۔ وہ باقاعدہ اسٹڈی شیڈول بنا کر محنت کرتے تھے۔ اس نے بھی پہلی بار اپنا اسٹڈی شیڈول بنایا، اور صرف تین مہینوں میں اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے کیا پہلے پڑھنا ہے، کس مضمون پر زیادہ توجہ دینی ہے، اور کس طرح کامیابی حاصل کرنی ہے۔ اب وہ اپنی منزل پانے کے لیے مکمل طور پر تیار تھا۔ اسے اب بس دوڑنا تھا اور وہ دوڑ رہا تھا۔اس کی محنت رنگ لانے لگی تھی۔ امتحانات کا نتیجہ اس کی محنت کا واضح ثبوت تھا۔ اس دوران وہ گھر کی طرف بھی زیادہ نہیں جا پایا، بس خیریت معلوم کر لیا کرتا تھا۔ ایک سال یوں گزر گیا جیسے پر لگ گئے ہوں۔ اور اس ایک سال میں وہ بہت کچھ حاصل کر چکا تھا۔ کچھ ایسی کامیابیاں جو زمین پر تھیں، اور کچھ خوابوں جیسی جو اسے بلندیوں تک لے جا رہی تھیں۔ پورے ایک سال کی جانفشانی اور محنت رنگ لا چکی تھی۔ وہ گورنمنٹ ٹیچر کے طور پر سلیکٹ ہو گیا تھا۔ اور پہلی ہی تنخواہ کافی معقول تھی۔وہ مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ اس نے پہلی بار نینا کو میسج کیا تھا، جس کا نمبر اسے بڑی منت سماجت کے بعد ثمین نے دیا تھا۔ اس نے لکھا: تم نے ایک بھٹکتے مسافر کو روشن راہ دکھائی تھی، اب ایک اور اجالا میری زندگی میں کر دو، میری زندگی میں شامل ہو جاؤ۔ یقین مانو، میری اصل کامیابی وہی ہو گی۔اس میسج کے کافی دیر بعد ایک جواب آیا، جس نے اس کے ہوش اڑا دیے تھے

I’m Engaged

تم جنوری جیسی ہو،

ہلکی ہلکی دھوپ جیسی،

نم سی شاموں جیسی،

خزاں کے آخری پیغام جیسی۔

کیا کہوں تمہیں…

تم نے ایک بھٹکتے مسافر کو راہ دکھائی،

چراغ بن کر اندھیرے دور کیے۔

تمہارے آنے سے خزاں جانے کہاں کھو جاتی ہے،

تم ایک نئے سال کا پیغام دیتی ہو۔

وہ کھڑکی کے ایک پٹ سے لگا باہر اسے یاد کر رہا تھا۔ باہر ہلکی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ ایک حسین صبح تھی، جس میں وہ دونوں موجود تھے — کم از کم اس کے خیالوں میں۔ گورنمنٹ ٹیچر بننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس فیلڈ میں کتنا کام کرنا باقی ہے۔ کتنے ہی بچے ہیں جو ایک اچھے استاد کو ترس رہے ہیں، جن کی صلاحیتوں کو پہچاننے والا کوئی نہیں۔ اب میرا مقصد صرف نوکری نہیں، بلکہ بچوں کو صحیح سمت دینا ہے

  • 54
  • More
Comments (0)
Login or Join to comment.