- · 1 friends
-
L

خاموش
کھانا ایسا بنایا ہے کہ حلق سے نیچے نہ اُترے.ساس کی سرگوشی اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ارے طیبہ! یہ کھانے کی ٹرے اُٹھا کر لے جا، ابھی میرا جی متلا رہا ہے۔صفیہ بیگم نے لہجے کو میٹھا بناتے ہوئے اپنی اکلوتی بہو کو آواز دی۔طیبہ، جو اپنی ساس کی سرگوشی سُن چکی تھی، آنسو ضبط کرتے ہوئے آئی۔ چپ چاپ ٹرے اُٹھائی اور کچن کی طرف چل دی۔باورچی خانے میں جا کر اُس نے ٹرے کاؤنٹر ٹاپ پر رکھی اور سالن چکھا۔ نمک نہ ہونے کے برابر تھا، اور تیز مرچیں گلے میں لگنے لگیں۔ صاف ظاہر تھا شوربا بھی ڈھنگ سے نہیں پکا تھا۔ سالن کے ذائقے نے اُس کے اندر کی بیزاری کو مزید بڑھا دیا۔وہ کسی اور کام میں مصروف تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ہاتھ دھو کر دوپٹے سے خشک کیے، فون اُٹھایا اور کان سے لگا لیا۔جی ٹھیک ہے، میں پھوپھو کو بتا دیتی ہوں۔ اللہ حافظ۔ پھوپھا حسن کا فون تھا۔ بتا رہے تھے کہ شام کو عنایہ اور واصف آ رہے ہیں، اور کھانے کا اچھا انتظام ہونا چاہیے۔یہ کہتے ہوئے طیبہ خود بھی کچھ متذبذب سی ہو گئی۔ہائے میری بچی پرائے ملک جا رہی ہے، نہ جانے کب واپس لوٹے گی۔ ماں کے گھر سے تو بیر ہو کر جا رہی ہے۔صفیہ بیگم نے اداس سے کہا۔تھوڑی دیر پہلے کی وہ سرگوشی طیبہ کے کانوں میں گونجی اور دل میں ایک بےچینی سی اُبھر آئی۔ساس نے طیبہ کی پریشانی بھانپ لی۔طیبہ، تُو اپنا کر کے تانیہ کو فون کر دے، تاکہ وہ آ کر کھانے کا انتظام کر دے۔صفیہ بیگم نے اپنی بڑی بیٹی کو، جو پڑوس میں بیاہی گئی تھی، بلانے کا مشورہ دیا۔طیبہ نے نند کو فون کرنے کے بعد خود کو دوبارہ کچن کے کاموں میں مشغول کر لیا۔تانیہ کے آنے سے پہلے ہی طیبہ نے کھانے کے لیے تمام ضروری تیاری مکمل کر لی تھی۔دروازہ کھلا اور تانیہ اندر آئی۔ماں، کیا کیا بنانا ہے؟اس نے گھر میں قدم رکھتے ہی پوچھا۔آ جا، بیٹھ جا، پہلے پانی پی، سانس تو لے لے۔صفیہ بیگم بیٹی کی تھکن دیکھ کر فکر مند ہو گئیں۔امی، بٹھانے کے لیے بلایا ہوتا تو بیٹھ بھی جاتی۔ اب آپ نے بلایا ہی کام کے لیے ہے، تو وہی کر لیتی ہوں تانیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا اور چادر اتار کر دوپٹہ لیتے ہوئے ماں کا جواب دیے بغیر باورچی خانے کی طرف چل دی۔یا جی! آپ بیٹھیں، تھوڑی دیر میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔ رہنے دو، طیبہ! میں کھانا بناتے ہوئے خود ہی چائے بنا لوں گی۔اور یہ بتا دو کہ کیا کیا پکانا ہے۔ کھانے کا بتا کر تم گھر کا ایک بار جائزہ لے لو، کہیں جھاڑ پونچھ کی ضرورت تو نہیں۔تانیہ نے بھابھی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔ مہمانوں کے آنے سے پہلے طیبہ پورے گھر کو چمکا چکی تھی۔ تانیہ نے سیدھا سادہ کھانا بنایا تھا اور کھانا تیار کر کے ماں کے پاس جا بیٹھی تھی۔ جب طیبہ کو گھر کی صفائی سے فرصت ملی، تو اُس نے باورچی خانے میں جھانکا، جہاں دھونے والے برتن اس کا منہ چِڑھا رہے تھے۔اتنے میں باہر شور و غل بلند ہوا، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مہمان آ چکے ہیں۔مہمانوں سے ملنے کے بعد طیبہ نے چائے کے ساتھ کچھ ہلکی پھلکی تواضع پیش کی۔ جب سب چائے پی چکے تو اُس نے برتن سمیٹے اور کچن میں جا کر برتن دھونے لگی، جبکہ تانیہ ماں، بہن اور بہنوئی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی۔جب طیبہ برتن دھو کر فارغ ہوئی تو مہمانوں کے پاس بیٹھنے چلی، لیکن صفیہ بیگم نے فوراً آواز دی کہ طیبہ بیٹا، کھانا لگا دو۔طیبہ نے اثبات میں سر ہلایا اور منظر سے ہٹ گئی۔کھانے کے دوران ہر ایک کی زبان پر تانیہ کے ہاتھ کے بنے کھانے کی تعریف تھی۔ ماں فخر سے اپنے داماد کے سامنے اپنی بیٹی کی شان میں قصیدے پڑھ رہی تھیں۔طیبہ خاموشی سے کھانا کھاتی رہی۔کسی نے نہ اُسے بلایا، نہ اُس کی محنت کو سراہا، نہ کسی رشتے کی حیثیت سے اُسے یاد کیا۔کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔جب مہمان رخصت ہوئے تو طیبہ کے سر پر دوبارہ باورچی خانے کی صفائی کی تلوار لٹک رہی تھی۔ تانیہ اپنا کام ختم کر کے واپس اپنے گھر جا چکی تھی۔طیبہ نے رات کو کافی دیر تک کچن کا کام نپٹایا۔جب وہ تھکن سے چور ہو کر اپنے کمرے میں آئی تو شوہر کو اپنا منتظر پایا۔طیبہ، کہاں رہ گئی تھیں؟ پیٹ بھر کر اتنا مزیدار کھانا کھایا ہے کہ نیند آ رہی ہے حسن نے تبصرہ کیا۔جی، آپ سو جائیں۔ مجھے صبح امی کے گھر بھی جانا ہے، آپ نے چھوڑنا ہے طیبہ نے یہ کہہ کر کروٹ لی اور سونے کی تیاری کرنے لگی۔
اں کے گھر آ کر بھی طیبہ چپ چپ سی تھی۔وہ یہ سوچ کر اداس تھی کہ کسی نے اُسے نہیں سراہا۔ کسی نے اُس کی محنت کو خاطر میں نہیں لایا۔ سب نے صرف کھانے کی تعریف کی، اور وہ بھی تانیہ کے نام سے۔اب وہ ماں کے گھر آئی تھی تو دل میں ٹھان لیا تھا کہ تھوڑا بہت کھانا پکانا سیکھ کر ہی واپس جائے گی۔شام کو جب وہ کھانا بنانے کے لیے کچن کی طرف بڑھی تو بھابھی نے اُسے روک دیا کہ دو دن کی مہمان ہو، مزے کرو، آرام کرو۔ سسرال میں یہی سب تو کرنا ہے۔طیبہ خاموشی سے پلٹ آئی اور ماں کے پاس جا بیٹھی۔صفیہ بیگم سب کچھ سمجھ گئی تھیں۔اُن کی بیٹی سسرال میں کھانا پکانا نہ آنے کی وجہ سے باتیں سُن رہی تھی، ورنہ اُسے باقی ہر کام خوب آتا تھا۔طیبہ بیٹی، ایک دو دن میں کوئی بھی کام مکمل طور پر نہیں سیکھا جا سکتا۔گھر جا کر روز کچھ نہ کچھ دل سے سیکھو، میری بیٹی سب کچھ سیکھ جائے گی ماں نے نرمی اور شفقت سے سمجھایا۔جی امی، میں سیکھ لوں گی طیبہ نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔گھر آنے کے بعد پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کھانے میں کیا پکا ہےاسی لیے بیٹی کو گھر سے ہی سب کچھ سکھا کر بھیجنا چاہیےماں کے دل میں ملال کی ایک ٹھنڈی لہر اُٹھی۔اُدھر طیبہ کو بھی افسوس تھا کہ اُس نے خود کو صرف تعلیم حاصل کرنے تک محدود رکھا۔اُس نے کبھی عملی زندگی کے لیے خود کو تیار ہی نہیں کیا۔شادی کوئی پریوں کی کہانی نہیں ہوتی۔وہی لڑکیاں سسرال میں اپنی پہچان بنا پاتی ہیں جو ماں باپ کے گھر سے ہی بنیادی کام، رکھ رکھاؤ اور سلیقہ سیکھ کر جاتی ہیں۔وہ جو زندگی کو صرف خوابوں میں نہیں دیکھتیں بلکہ خود کو ہر پہلو سے سنوارتی ہیں۔جو لڑکیاں محض ایک ہی چیز — تعلیم، خوبصورتی یا آزادی — کو اپنا کل خواب بنا لیتی ہیں، اور عملی زندگی کے لیے خود کو تیار نہیں کرتیں،وہ شادی کے بعد طیبہ کی طرح شرمندگی، احساسِ کمتری اور تنہائی کا سامنا کرتی ہیں۔
طیبہ چار دن بعد جب سسرال واپس لوٹی تو یہ عزم کر چکی تھی کہ وہ اب کسی کی بات کو دل پر لگا کر اپنی بہتری کا سفر نہیں روکے گی۔رات کو جب سب کھانا کھا رہے تھے تو طیبہ نے قدرے بلند آواز میں اپنی ساس سے مخاطب ہو کر کہا:پھوپھو، تعلیمی مصروفیت اور لاڈ پیار کی وجہ سے میں نے ایک بنیادی اور اہم ہنر کو پسِ پشت ڈال دیا۔میں مانتی ہوں کہ یہ میری غلطی تھی، کیونکہ سمجھ دار تو وہی ہوتا ہے جو اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائے۔میں اپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے یہ وعدہ کرتی ہوں کہ اب دل سے کھانا پکانا سیکھوں گی۔طیبہ کی بات پر ساس مسکرا دیں اور دل سے اپنی بہو کو دعا دی۔اگلے ایک ماہ میں طیبہ نے ساس اور نند کی نگرانی میں دل لگا کر کھانا پکانا سیکھا۔چند دن بعد حسن کی پروموشن کی خوشی میں گھر میں ایک چھوٹی سی دعوت کا اہتمام کیا گیا، جس میں طیبہ کے میکے والے بھی مدعو تھے۔دعوت کا سارا کھانا طیبہ نے خود تیار کیا۔ کھانا نہایت لذیذ تھا اور سب نے دل کھول کر تعریف کی۔بالآخر میری بیوی نے کر دکھایا،حسن نے فخر سے کہا تو طیبہ شرما گئی۔وہ دل سے رب کی شکر گزار تھی۔ اُس نے دکھ دکھایا تھا، اور رب نے اُسے اس ہنر میں مہارت عطا کر دی۔غلطیاں زندگی کا حصہ ہوتی ہیں، j jمگر ان کو تسلیم کر کے، سچی نیت اور خلوصِ دل سے خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا ہی اصل دانشمندی ہے