- · 1 friends
-
L

خاموش ساتھی
وہ دوپہر کا کھانا ٹیبل پر لگا چکی تھی۔ بچے بھی اسکول سے آ پہنچے تھے، بس صاحب جی کا انتظار تھا جو آج کچھ لیٹ ہو گئے تھے۔مما، شروع کریں، بھوک لگ رہی ہے، کچا گڈو بولا۔بس بیٹا، تھوڑا سا انتظار کر لو، تمہارے بابا آتے ہی ہوں گے۔ماں، بابا کے ہوٹل میں تو آج گرینڈ فنکشن تھا، مزے مزے کے کھانے ہوں گے، وہ تو وہیں سے کھا پی کر آئیں گے، چھوٹا ریحان چہک کر بولا۔مگر میں وہاں سے کچھ بھی کھا کر نہیں آیا میرے بچو، وہ اچانک اندر آتے ہوئے بولے۔تم لوگوں کو پتا ہے کہ میں اپنے پیارے بچوں اور پیاری بیگم کے بغیر نوالہ بھی نہیں لیتا، انہوں نے اپنا کوٹ صوفے پر پھینکا۔ان کے اس تبصرے پر پیاری بیگم ذرا سا شرما گئیں اور ان کے لیے کرسی کھینچی۔واہ واہ، انہوں نے ایک ڈونگے کا ڈھکن ہٹایا۔ بھاپ اڑتی ہوئی خوشبودار شوربے کی مہک پھیلی۔بیگم، کیا آپ نے پیاز کو ٹھیک سے براؤن نہیں کیا تھا؟ شوربے کا رنگ کچھ کھلا ہوا نہیں لگ رہا، انہوں نے سالن میں چمچ چلایا۔ہاں، شاید ایسا ہی ہے، وہ نرمی سے بولیں۔اور چاول؟ انہوں نے چاول کی ڈش کو قریب کھسکایا۔ دانہ دانہ الگ الگ نہیں ہے۔ کیا آپ نے دم دیتے وقت سرکہ نہیں ڈالا تھا؟سرکہ تو ختم ہو چکا تھا، میں نے لیموں نچوڑ دیا تھا۔سرکہ اور لیموں… دونوں کا فنکشن ایک جیسا تو ہوتا ہے، مگر بہتر ہوتا کہ آپ لیموں نچوڑنے کے بجائے اس کے ٹکڑے کر کے ڈال دیتیں۔وہ اب بھی خاموش رہیں، اس نکتہ چینی کی عادی جو تھیں۔وہ خود بھی بہت سلیقہ مند اور پکانے میں ماہر تھیں، مگر لاکھ کوشش کے باوجود اپنے شریف شوہر کا مقابلہ تو نہیں کر سکتی تھیں۔ جی ہاں، آپ نے بالکل درست سمجھا، ان کے صاحب جی ایک مستند شیف تھے۔جب ان کے لیے ایک شیف کا رشتہ آیا تھا تو ان کی اماں نے پہلے تو اپنا کلیجہ تھام لیا تھا۔ہائے اللہ، کیا لڑکا ہانڈی روٹی کرتا ہے؟پھر ابا نے سمجھایا، بیگم، وہ ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں ہیڈ شیف ہے۔ اچھی خاصی تنخواہ ہے، دیگر مراعات الگ ہیں۔پھر سب کی باہمی مشاورت سے یہی رشتہ طے ہو گیا۔اب ظاہر ہے، ایسے ڈاکٹر انجینئر لڑکوں کا کیا فائدہ جن کے پاس دل کا ذائقہ ہی نہ ہو۔جب اس نے تصویر دیکھی تو نہایت وجیہ اور شاندار شخص نظر آیا۔ دل ہی دل میں گدگدی ہوئی۔ ہیرو ٹائی پہنے سہیلیاں چھیڑتیں،بنو، بڑی قسمت والی ہو! میاں جان اپنے ہاتھوں سے مزے مزے کے کھانے بنا کر کھلایا کریں گے۔
شادی کی رات وہ لچکائی، شرمائی، ڈوبتے ابھرتے دل کے ساتھ بیٹھی تھی۔ جی ہی جی میں ڈر بھی رہی تھی کہ کہیں دولہا میاں آتے ہی اس سے بگھارے بینگن اور کدو کے کباب کی ترکیب ہی نہ پوچھنے لگ جائیں۔خیر، وہ اندر آئے۔ اس کے حسن کو دل کھول کر خراجِ تحسین پیش کیا۔ اپنے ہاتھوں سے اس کی نازک کلائیوں میں خوبصورت لگن پہنائی۔ پھر خوبصورت باتوں، پیاری محبت اور ڈھیر ساری نرمی سے لبریز باتوں کا آغاز کیا۔ نہ کوئی نصیحت کی، نہ کوئی رسمی گفتگو، کیونکہ گھر میں ان کے علاوہ اور کوئی تھا ہی نہیں۔ایک اماں تھیں، جو بڑے بھائی اور بھابھی کے ہمراہ امریکہ میں مقیم تھیں۔ وہ بھی شادی میں شریک نہ ہو سکیں کیونکہ ان کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، لہٰذا سفر کی اجازت نہ مل سکی۔چند ہی لمحوں میں ان کی نرم مزاجی اور اپنائیت بھرے سلوک سے وہ متاثر ہو گئی۔ اس کی جھجک ختم ہو گئی، اور سب اندیشے اڑن چھو ہو گئے۔ وہ اب ہنس کر کہنے لگے:نا ڈیئر! مجھے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ شادی کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ اکیلا آدمی سب کچھ سنبھالتے تھک جاتا ہے۔ اوپر سے کسی کو دولہا دلہن کی پرائیویسی کا بھی خیال نہیں ہوتا۔ اب رہا مشکل سے نمٹنے کا معاملہ، تو تم مائنڈ مت کرنا، پرانی باتیں بھلا دو۔ آؤ کچن چلتے ہیں۔ بچپن سے ہی سر میں درد ہے، وہ تب ہی جاتا ہے جب میں چائے بناتا ہوں۔وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اٹھی، اپنی لمبی میکسی سنبھالتی ہوئی ان کے ہمراہ کچن کی طرف چلی۔ کچن صاف ستھرا، تمام ضروری ساز و سامان سے مزین، کشادہ اور خوشبودار تھا۔ دونوں نے مل کر گھر کا چولہا جلایا، اور پھر ایک دوسرے کی حسین سنگت میں چائے بنائی۔ وہیں بیٹھ کر چائے بھی پی۔نا ڈیئر! آج سے میرے دل اور اس کچن کی رانی تم ہو۔ تمہیں ہر طرح کی آزادی ہے۔ جیسے چاہو، جو چاہو پکاؤ، اور جب پکاؤ، مجھے کھلاؤ۔ یہ بندہ ناچیز آپ کی راجدھانی میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا۔وہ اس مکالمے پر اندر تک سرشار ہو گئی۔ اب آنے والے وقت نے ثابت کرنا تھا کہ وہ اپنے وعدوں میں کتنے سچے تھے
وہ ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں ہیڈ شیف تھے۔ شیف کی ایک پوری ٹیم کو لیڈ کرتے تھے۔ مصروفیت سے بھری ہوئی جاب تھی، کبھی کسی گرینڈ ڈنر کی تیاری، تو کبھی کسی ارجنٹ آرڈر کی نگرانی۔ مگر جتنے بھی مصروف ہوتے، ہمیشہ وقت نکال کر گھر آتے اور اپنی بیگم کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ہی شوق سے تناول فرماتے۔وہ بھی اچھی کک تھیں۔ وہ ان کی تعریف بھی کرتے، مگر اپنی تنقیدی فطرت سے مجبور ہو کر چھوٹی موٹی نکتہ چینی بھی ضرور کر دیتے، جس کا وہ برا نہیں مناتی تھیں۔ وہ اکثر کہتے:بیگم، یہ روایتی طریقے سے کھانا پکانا چھوڑیں، جدید انداز اپنائیں۔ یہ کیا کہ ہر بار پہلے پیاز براؤن کیا، پھر ادرک لہسن کا پیسٹ ڈالا، پھر کچھ ٹماٹر مرچ مصالحوں کے ساتھ شامل کیے، اور پھر گوشت یا سبزی کو اتنا بھونا کہ تمام غذائیت تباہ و برباد ہو گئی۔اب تو اسٹیم اسٹائل چل رہا ہے۔ آپ سبزیاں یا گوشت اسٹیم کیا کریں۔مگر وسیم، اتنا روکھا پھیکا سا کھانا ہر کوئی تو نہیں کھاتا۔اسی لیے تو ہمارے ہاں ہر کوئی شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بنا بیٹھا ہے۔مگر غذائیت کے ساتھ ساتھ ذائقہ بھی تو چاہیے۔اس کا بھی حل میرے پاس ہے۔ آپ ہر قسم کی ساسز بنا کر رکھیں، ہر کوئی اپنے ذوق اور ذائقے کے مطابق کھانے میں شامل کر لے۔ان کے پاس تو چٹکی بجاتے ہر مسئلے کا حل ہوتا
اگر کبھی موڈ میں ہوتے اور فارغ بھی ہوتے تو کچن کو بھی رونق بخش دیتے۔ بچے ہی فرمائش کرتے:بابا، بریانی بنائیں!چلو بیگم، آج بریانی بناتے ہیں۔بیگم کو ساتھ لیے بغیر وہ کچن میں قدم نہ رکھتے۔ پھر وہ ان کی بھرپور مدد کرتیں۔ بریانی تیار ہوتی تو بچے کھاتے ہوئے خوشی سے سر دھنتے:اوہ بابا! اتنی مزے دار… اتنی ڈیلیش! کمال کر دیا آپ نے!وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے۔پھر وہی خوشی کسی ایک ماہ بعد بیگم کے لیے جلتی چنگاری بن جاتی۔میں نے کیا کمی رکھی تھی جو میرے ہاتھ کی ویسی تعریف نہیں کرتے؟ وہ بعد میں بچوں کے کان مروڑتیں۔نہیں مما! آپ کی بریانی بھی اچھی ہوتی ہے، بس بابا نے شاید کچھ اور ایڈ کیا تھا۔ نیا سا ٹیسٹ آرہا تھا!بچے ماں کے سامنے پورے سیاستدان بن جاتے، لیکن حقیقت میں سارے کے سارے باپ کے فین تھے۔کیا ایڈ کیا تھا! سارا کچھ تو میں نے ہی کاٹ کر، کوٹ کر، اور تیار کر کے دیا تھا
ایک دن انہوں نے شلجم گوشت بنایا۔ شام کو وہ اپنی اماں کے لیے ایک لفافہ بھر کے لے گئی۔ اماں خاموشی سے کھاتی رہیں۔اس نے فخریہ بتایا کہ اماں، یہ وسیم نے بنایا ہے۔اتنا بڑا شیف ہے، اور اسے شلجم گوشت بھی نہیں پکانا آتا؟ وہ بلک پڑیں۔اماں، آپ کا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے نا، تو انہوں نے اسٹیم کر کے بنایا ہے۔ارے ہٹاؤ اسے، اسے کھا کر تو میرا بلڈ پریشر ضرور ہائی ہو جائے گا۔ انہوں نے باؤل پرے دھکیلا۔وہ محض مسکرا کر رہ گئی
اُسی دن گڈو کا نتیجہ آیا، وہ فرسٹ آیا تھا۔ اس خوشی میں انہوں نے اپنے فیملی فرینڈز کو دعوت پر بلا لیا۔اس کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ہائے اللہ وسیم، میں اکیلی اتنی بڑی دعوت کا انتظام کیسے کروں گی؟ آج کل تو ماسی بھی چھٹی پر ہے۔ورنہ ایسے اوور ٹائم کاموں کے لیے اسی کو روک لیتی۔ارے بیگم صاحبہ، آپ اکیلی کیوں؟ میں جو ہوں آپ کے ساتھ۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا کر تسلی دی۔اس دن وہ دونوں صبح ہی سے کچن میں گھس گئے۔ مینو بھی لمبا چوڑا تھا، تو کام بھی خاصا زیادہ تھا۔اب چولہا انہوں نے سنبھال لیا، اور باقی اضافی کام جیسے جیسے وہ کہتے گئے، وہ کرتی رہی۔اس نے ڈھیروں پیاز کاٹی، کچھ براؤن کی، کچھ کا مصالحہ فرائی کیا۔ ادرک لہسن کا پیسٹ بنایا، ٹماٹر گرائنڈ کیے، سبز مرچیں باریک باریک کاٹیں۔ دو تین قسم کے سلاد بنائے۔ کسٹرڈ انہوں نے بنایا، مگر اوپر کی ڈرائی فروٹ سے ڈیکوریشن اس نے کی۔ برتن نکالے، وسیع و عریض ٹیبل سجایا۔جب مہمان پہنچے تو وہ دونوں میاں بیوی اب بھی چین میں مصروف تھے۔ہائے اللہ بھابھی، تم کتنی نیک بیوی ہو۔ اگر شیف میاں کا ساتھ ہو، تو بھلا دعوت کی کیسی ٹینشن۔ایک تھکی تھکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آ گئی
دعوت بخیر و خوبی انجام پائی۔ مہمانوں نے دل کھول کر وسیم صاحب کی کوکنگ کی تعریف کی۔سب ہی نے یہی کہا کہ انہوں نے لاجواب کھانا بنایا ہے۔تعریفوں کے جو ڈونگرے ان پر برسائے گئے، وہ انہوں نے خوشی خوشی سمیٹے۔ایک بار بھی انہوں نے اپنی بیگم کی محنت کا ذکر نہ کیا، جو مسلسل ان کے ساتھ لگی رہی تھی۔وہ تو سارا وقت چولہے کے سامنے کھڑے رہے، مگر انہیں ہر چیز تو اس نے ہی فراہم کی تھی۔کبھی پیاز کاٹ کر دیے، کبھی مصالحہ نکال کر دیا، کبھی سبزی دھو کر، کبھی پانی بھر کر لا دی۔چند لمحوں کے لیے ان چھوٹے چھوٹے کاموں کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟شاید کمال صرف چولہا سنبھالنے والے کا ہوتا ہے۔تو اس کا دل ماند پڑ گیا۔مگر پھر یہ سوچ کر خود کو سنبھالا کہ آخر کار تعریف تو گھر ہی کی ہوئی ہے،اور وہ بھی تو اسی گھر کی رکن ہے
موسم بدلا۔ سردیاں رخصت ہوئیں۔ مارچ کا ٹھنڈا ٹھار مہینہ آپہنچا۔ راتوں میں خنکی باقی تھی مگر دوپہریں کچھ کچھ گرم ہونے لگی تھیں۔وہ گرم اور بھاری کپڑوں کو پیک کر کے اسٹور میں ملازمہ سے رکھوا رہی تھی جب قریب رکھے موبائل کی گھنٹی بجی۔میاں جی کی کال تھی۔نادبیر، کل صبح کی فلائٹ سے اماں اور بھابھی بچوں کے ہمراہ آ رہے ہیں۔ تم جلدی سے ان کے لیے بیڈ روم وغیرہ تیار کر لو۔ان کی آواز خوشی سے کپکپا رہی تھی۔بات یہ تھی کہ اسے بھی بہت خوشی ہوئی۔ سسرالی رشتوں کا خالی پن اُسے بھی کبھی کبھی بہت ستاتا تھا۔پھر اماں اور بھابھی سے ویڈیو کال پر بات چیت کر کے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ دونوں کتنی اچھی، سلیقہ مند اور خوش مزاج عورتیں ہیں۔اسے بھی ان سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا۔وہ سب کچھ وہیں چھوڑ چھاڑ کر جھٹ اٹھی۔ ملازمہ کی مدد سے سارا گھر چمکایا، مہمانوں کے لیے کمرہ تیار کیا۔چلتے پھرتے، آئینے پر پڑتی نظر نے اُسے خود پر رکنے پر مجبور کر دیا۔اس کی ساس اور بھابھی پہلی بار اُسے “لائیو” دیکھنے آ رہی تھیں، تو ظاہر ہے کہ اسے بھی خود کو اچھے انداز میں پیش کرنا چاہیے تھا۔لہٰذا تمام گھریلو کاموں سے فارغ ہو کر وہ بیوٹی پارلر چلی گئی۔رات کو جب وہ نیا ہیئر کٹ اور تراش خراش کے بعد نکھری نکھری سی واپس آئی، تو وہ (وسیم) اُسے دیکھ کر مبہوت رہ گئے۔آخر تم عورتیں یہ اہتمام میاں کے لیے کیوں نہیں کرتیں؟اس لیے کہ وہ ہمیں ایسا کرنے کو کہتے ہی نہیں ہیں۔اچھا، چھوڑیں۔ آپ یہ بتائیں کہ کھانے میں کیا بنانا ہے؟ناشتہ تو وہ لوگ فلائٹ میں ہی کریں گے، لنچ تک ہی پہنچ پائیں گے۔انہیں ایئرپورٹ بھی لینے جانا ہوگا، تو میں کل چھٹی کر لوں گا۔ اماں کے بی پی اور بھابھی کے ذائقے کا مجھے اندازہ ہے،اس لیے کھانے کا مینو میں بتاتا ہوں۔ تم ٹینشن نہ لو۔نہیں، آپ گروسری کی لسٹ بنا دیں۔ میں ڈرائیور سے کہہ کر منگوا لوں گی
اپنی طرف سے تو وہ دونوں میاں بیوی سب کچھ طے کر کے سوئے تھے، مگر کسی انہونی کا کیا پتا؟ایسی باتوں کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔رات کے آخری پہر اس کے میکے سے اس کے بھائی کی کال آئی۔اس نے بتایا کہ ان کی اماں کا اچانک بی پی شوٹ کر گیا تھا، اور ایمرجنسی میں اسپتال لے جانا پڑا۔اب وہ وہاں اکیلا پریشان کھڑا تھا۔اس کی بھابھی کی چند روز میں ڈلیوری متوقع تھی، اس لیے وہ اپنے میکے میں تھیں۔اس حالت میں وہ ہسپتال آ بھی نہیں سکتی تھیں۔وسیم… اب کیا کریں؟وہ گھبرا کر بولی۔تم پریشان نہ ہو۔میں تمہیں اسپتال چھوڑ آتا ہوں۔جب تک اماں کی طبیعت نہ سنبھلے، تم وہیں رہو۔ پیچھے سب کچھ میں سنبھال لوں گا
اسے اسپتال چھوڑ کر آئے تو خیال آیا کہ کچھ دیر لیٹ جاتے ہیں، پھر اٹھ جائیں گے۔مگر صبح بہت دیر سے آنکھ کھلی۔بچوں نے بھی دادی اور تائی کے آنے کی خوشی میں اسکول سے چھٹی کر رکھی تھی۔وہ بھی ابھی تک بے خبر سوئے پڑے تھے۔پہلے تو ثنا سب کو اٹھا دیتی تھی۔وہ جلدی سے ہاتھ منہ دھو کر کچن میں پہنچے۔وقت بہت کم رہ گیا تھا۔اماں تو سفر میں کچھ بھی نہیں کھاتیں، اور اوپر سے شوگر پیشنٹ بھی تھیں،اس لیے کھانا وقت پر تیار کرنا بے حد ضروری تھا۔مگر اب کچن میں کھڑے ہو کر ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں سے شروع کریں۔رات کو ثنا نے کہا بھی تھا کہ وہ کچھ سامان تیار کر کے رکھ دیتی ہے،مگر انہوں نے منع کر دیا تھا کہ سب کچھ فریش ہی ڈالنا ہے۔خیر، اب کام کا آغاز کیا۔بہت سا وقت پیاز کاٹنے، ادرک لہسن کا پیسٹ بنانے، ہری مرچیں اور ٹماٹر گرائنڈ کرنے اور دیگر چھوٹے چھوٹے کاموں میں گزر گیا۔پہلے تو سب کچھ تیار شدہ ملتا تھا،مگر اب ہر کام خود کرنا پڑ رہا تھا۔انہوں نے مینو بھی مختصر کر دیا۔پھر بھی جب کام ختم ہوا، تو وہ بے حد تھک چکے تھے۔آج انہیں احساس ہوا کہ یہ جو کاٹنے، کوٹنے اور چھیلنے جیسے چھوٹے چھوٹے کام ہوتے ہیں،جنہیں وہ کبھی قابلِ ذکر ہی نہیں سمجھتے تھے، وہ دراصل کتنے اہم ہوتے ہیں،اور انہیں کرنے والے کی کتنی توانائی صرف ہوتی ہے۔اس سے پہلے انہوں نے یہ سب کبھی خود کیا ہی نہیں تھا۔ہوٹل میں بھی جو جونیئر شیف ہوتے تھے، وہ یہ سب کرتے تھے،اور سارا کریڈٹ سینئر شیف لے جاتے تھے۔وہ خود بھی ان میں شامل تھے۔گھر میں بھی انہوں نے کبھی ثنا کو ان کاموں پر سراہا نہیں تھا،نہ ہی اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔یعنی گھر اور کام کی جگہ—دونوں جگہ ان کا رویہ غیر منصفانہ تھا۔اب دونوں جگہ ازالہ ضروری تھا۔آفس تو جب جائیں گے، تب کی بات ہے،فی الحال تو وہ گھر پر تھا
اماں کی طبیعت سنبھل چکی تھی اور ڈاکٹر کچھ دیر میں انہیں ڈسچارج کرنے والے تھے۔ ثنا سامان سمیٹ رہی تھی کہ اچانک موبائل کی بیپ سنائی دی۔ اس نے دیکھا، صاحب جی کا پیغام آ رہا تھا۔میرے گھر اور کچن کی رانی، تمہارا شکریہ۔ تم ہر جد و جہد، ہر کوشش میں میرے پیچھے نہیں بلکہ میرے ساتھ کھڑی رہیں۔ دل کی گہرائیوں سے تمہارا ممنون ہوں۔ آج کے دن احساس ہوا کہ بعض اوقات انسان کو اپنے ساتھی کی فراہم کردہ سہولت اور مدد کی افادیت کی قدر، اس کی غیر موجودگی میں ہی محسوس ہوتی ہے۔ اس غفلت اور کوتاہی پر بندہ ناچیز معذرت خواہ ہے۔ سدا خوش رہو۔جان و سیم یہ انوکھا اور رومانوی پیغام پڑھ کر وہ اندر تک سرشار ہو گئی۔ لیکن پھر بھی کچھ زیادہ سمجھ میں نہیں آیا۔ جب گھر آ کر مینو کو مختصر ترین دیکھے گی تو تب ہی سمجھ میں آنا تھا۔بھائی آیا تو وہ خوشی خوشی گھر جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی