·   ·  17 posts
  •  ·  1 friends
  • L

    1 followers

صغراں کی تنہائ

اسکول سے آ کر اس نے دروازے کے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے چھوٹے سے صحن میں اماں اور بشیراں بیٹھی نظر آئیں۔ پھٹے ہوئے پردے کو دروازے کے اوپر ڈال کر اس نے ایک اچٹتی نگاہ بشیراں پر ڈالی، جو بے نیازی سے چارپائی پر چڑھ کر اماں سے راز و نیاز کیے جا رہی تھی۔ سلام بھابھی، کیسی ہو تم؟ بشیراں نے لٹھ مارتے ہوئے انداز میں سلام کیا، جس میں نہ تو خلوص تھا اور نہ ہی پیار صرف یہ جتانا تھا کہ تمہیں کوئی تمیز نہیں، گھر آ گئی ہو۔ ٹھیک ہوں۔ یہ کہہ کر صغراں اندر رسوئی میں جا گھسی۔ وہاں بھرے ہوئے گندے برتنوں کے ڈھیر پرمکھیاں بھنبھنا رہی تھی۔ تیل کا چولہا بھی گھی، سالن اور آٹے کے ذرات سے اٹا ہوا تھا۔ چوکی کے پاس جلی ہوئی ماچس کی تیلیاں اور ٹوٹی ہوئی پیالی اس کا منہ چڑھا رہی تھی۔ چائے کی پتی اور نمک کے ڈبوں کے ڈھکن تک کھلے ہوئے تھے۔ اس ماچس کے ڈبے جتنے رسوئی گھر کی یہ حالت دیکھ کر صغراں کا پارہ آسمان کو چھونے لگا، لیکن وہ باہر بیٹھی ہوئی بشیراں کی وجہ سے ضبط کر گئی، اور ویسے بھی آج وہ اس سے جھگڑا مول لے کر اپنا وقت کھوٹا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ آج اسے جلدی جلدی کام سمیٹ کر بازار جانا تھا، اور بشیراں کے منہ لگنے کا مطلب تھا کہ وقت ضائع ہو جائے گا۔ اس نے حمام کا ڈھکن اٹھا کر جھانکا اور شکر ادا کیا کہ اس میں پانی موجود تھا۔ اس نے جلدی جلدی گندے برتن دھوئے اور باقی سامان کو بھی ترتیب سے ٹھکانے لگانے لگی۔ صغراں کی بے مروتی کا بشیراں پر بھی خاطر خواہ اثر ہو چکا تھا، اور اب وہ زور و شور سے اماں کے ساتھ صغراں کی شان میں قصیدے پڑھنے میں مصروف تھی۔ ہاں! تجھے کتنا کہا تھا کہ نصیر کی یہاں شادی نہ کر، پر تو نے میری ایک نہ مانی۔ اس منحوس، پچھل پیری کو بہو بنا کر لے آئی۔ آتے ہی کھا گئی میرے گھر ویر کو۔ کیا جوان تھا، بالکل سلطان راہی لگتا تھا۔ اماں کو بھی اپنے اکلوتے نصیر کی یاد آئی تو وہ بھی میلا چیکٹ دوپٹہ آنکھوں پر رکھ کر یوں بھیں بھیں کرنے لگیں جیسے ابھی سامنے نصیر کی میت دھری ہو۔ میری ساس نے کتنا کہا تھا کہ پروین کا رشتہ لے لو، پر تجھے اور نصیر کو تو اس صغراں بی بی کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ تب پتہ نہیں کیا جادو ٹونہ کیا اس کے گھر والوں نے۔ تم دونوں کی تو مت ہی ماری گئی تھی۔ ہائے بس کر بشیراں! تجھ سیانی کی بات مانی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ میرے تو نصیب ہی جل گئے تھے جس دن اس کی ڈولی لے کر آئی تھی۔ وہ میری نند راج کر رہی ہے اپنے گھر میں۔ ایسے بخت والی ہے کہ اگلے گھر جاتے ہی ، خصم اس کا باہر دبئی چلا گیا۔ وہاں سے بکسے بھر بھر کے بھیجتا ہے، کپڑوں اور نوٹوں کے۔ اور یہاں یہ ڈائن آئی تو پانچ سال میں بچارا اگلے جہان کو ہی سدھار گیا۔ ان دونوں کی آواز اس قدر بلند تھی کہ باورچی خانے میں بیٹھی صغراں کیا، محلے دار بھی با آسانی یہ خبر نامہ سن رہے تھے، لیکن جس محلے میں یہ گھر تھا، ان گھروں کے اکثر لوگوں کی اپنی ہی داستانیں تھیں۔ نا مراد ذلیل کمینیاں۔ اندر بیٹھی صغراں کے ہونٹوں پر ان دونوں کے لیے بڑے اعلیٰ القابات موجود تھے، لیکن وہ ان کو با آواز بلند نشر کرنے کے بجائے صرف بڑبڑانے پر اکتفا کر رہی تھی۔ بھابھی کو کہہ، ایک کپ چائے بنا دے سر در د سے پھٹا جا رہا ہے ۔ ہائے بے شرم! نہ ہو تو روزہ نہیں رکھا؟ اماں بھی رونے کے پروگرام سے تنگ آ کر آنکھیں پونچھتے ہوئے بیٹھی تھیں۔ تو بہ اماں! اتنی دور سے چل کر تیرے سے ملنے آتا تھا، مجھ سے تو نہ رکھا گیا روزہ، اور پھر گرمی بھی تو بہت ہے آج۔ بشیراں اپنی کالی چادر کا پنکھا جھلتے ہوئے بولی۔ اتنی گرمی میں چائے پی جائے گی، بس روزہ رکھنا تو کھانا ہی مشکل ہے۔ اندر بیٹھی صغراں نے بل کھا کر سوچا، اور پھر جلدی سے ہانک لگائی۔ بشیراں سے کہہ دو دودھ نہیں ہے۔ چل چھوڑ چائے کو، اصل میں تو اس کا دل ہی نہیں چائے پلانے کا۔ تو یہ بتا، پھر تو گئی نہیں اپنی باجیوں کی طرف؟ اب بشیراں اپنے اصل مطلب کی طرف آ چکی تھی جس کی خاطر وہ اتنی دور سے چل کر گرمی میں اماں سے ملنے آئی تھی۔ بشیراں نے اپنی بلند آواز بھی دھیمی کر لی تاکہ مبادا اندر بیٹھی صغراں نہ سن لے۔ بشیراں کی ماند پڑتی آواز نے صغراں کو بھی چوکنا کر دیا تھا کہ ضرور اب کوئی خاص بات ہونے والی ہے۔ وہ بھی در وازے کے ساتھ لگ کر آلو چھیلنے لگی لیکن اس کا سارا دھیان باہر ہونے والی گفتگو پر تھا۔ گئی تھی ان بوڑھی ہڈیوں کو گھسیٹتی ہوئی، پر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بشیراں تاؤ میں آ گئی۔ کیوں اماں! کیوں فائدہ نہ ہوا؟ اتنے سال تو نے ان لوگوں کی خدمت کی، اپنی ہڈیاں گلائیں ، کوئی لحاظ نہ کیا ان لوگوں نے؟ بشیراں کی آواز میں اب غصہ آ گیا تھا جیسے اس کا حق کسی نے اماں کو نہ دیا ہو۔ اب انہوں نے نئی، نئی فیشنی کام والیاں رکھ لی ہیں، وہ کہتی ہیں جو ہمارے گھر کام کرتا ہے، ہم بس اسے دیتے ہیں۔ اب پرانی کام والیوں کو دے کر ہم اپنی اس کام والی سے نہیں بگاڑ سکتے۔ ہائے ہائے، کسی نے صدقہ خیرات بھی نہ دیا اس مہینے میں؟ بشیراں ابھی تک ناامید نہ ہوئی تھی۔ اب تو دروازہ تک نہیں کھولتے، وہی باہر لگے فون سے ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں۔ معاف کریں! تم کیا، سال کے سال جان کھانے آجاتی ہو؟کیڑے پڑیں ان کے پیسوں میں، آگ لگے ان کے عید کے جوڑوں میں، جس نے غریب کو نہ پوچھا، اسے اللہ پوچھے۔ بشیراں ہاتھ ملتے ہوئے کوسنے دینے لگی۔ ہائے اماں! میں تو بڑی امید لے کر آئی تھی کہ اماں کو دو تین نئے جوڑے ملے ہوں گے تو اس بار میری بھی عید ہو جائے گی، پر چلو جو اللہ کو منظور تھا۔ اچھا، اب میں چلتی ہوں۔ ہائے ہائے، بیٹھ تو سہی۔ تو بھی مطلب کی ہی نکلی۔ نہ دو گھڑی بیٹھ تو ماں کے پاس۔ نہیں اماں، اب چلوں گی۔ پہلے بھی بڑا ٹائم برباد ہو گیا ہے میرا۔ دیر سے گئی اور وہ بھی خالی ہاتھ، تو میری خبیث ساس تو میرا خون ہی پی جائے گی۔ بس اب چلتی ہوں۔ بشیراں بی بی نے جھٹ اپنی میلی چادر اوڑھ لی اور پردہ اٹھا کر، پیروں میں چپل پہن کر تیزی سے دروازے سے باہر نکل گئی۔

 باورچی خانے میں بیٹھی صغراں اور باہر چارپائی پر بیٹھی اماں دونوں نے یوں سانس باہر نکالا جیسے پھیپھڑوں کو غلاظت سے خالی کر رہی ہوں۔ صغراں کی باورچی خانے میں دلچسپی ختم ہو چکی تھی۔ وہ جلدی سے باہر نکلی اور اپنے گھر کے واحد کمرے میں چلی گئی۔اسکول کا نیلا یونیفارم اتار کر اس نے اپنے گھر کے بدبودار، پھٹے ہوئے کپڑے پہن لیے، بغلوں میں وافر پسینے کی وجہ سے وہ مکمل طور پر تار تار ہو چکے تھے۔ اب اس کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ وہ ان کپڑوں کو سینے بیٹھتی۔ جلدی سے بڑی کالی چادر اوڑھ لی۔ یونیفارم کی جیب سے بڑی احتیاط کے ساتھ اس نے اپنی تنخواہ نکالی، مبلغ دو ہزار روپے، اب اس کی مٹھی میں تھے۔ مٹھی ان پیسوں سے یوں دہک رہی تھی جیسے بہت سے جگنو اس نے مٹھی میں قید کر لیے ہوں۔ اس میں سے ہزار روپیہ اس نے بڑی احتیاط کے ساتھ پائی پر رکھتے ہوئے برتنوں کے نیچے اخبار کے اندر چھپا دیے اور دوسرا ہزار روپیہ اس نے اپنے چھوٹے سے سرخ پرس میں ڈال کر گریبان میں اڑس لیا۔ پیروں میں بھی ہوئی چپل ڈالی جو کثرت استعمال سے اس حد تک گھس چکی تھی کہ ہر طرح کی سطح زمین آسانی سے محسوس کی جا سکتی تھی۔ صغراں کو اماں کی بشیراں کے ساتھ مل کر کی گئی باتوں کا کافی غصہ تھا، لیکن وہ فطرتاً اتنی بے مروت نہ تھی کہ بوڑھی ساس کا بالکل خیال نہ کرتی۔ نہ رہنے دو اماں، میں آ کر کر لوں گی ، صغراں سپاٹ لہجے میں بولی۔ کہاں جا رہی ہے تو؟ اماں جھاڑو پھینک کر سیدھی ہو گئی۔ بازار جا رہی ہوں، کمرے میں منی سو رہی ہے، گلی میں کاکا اور فری کھیل رہے ہیں، انہیں ساتھ لے کر جاؤں گی۔ کیوں، مل گئی تنخواہ؟ اماں کریدنے والے انداز میں بولی۔ ہاں ، صغراں نے مختصر جواب دے کر باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔ ہاں، ٹھیک ہے، عید آنے والی ہے اور بچوں کی حالت تو بڑی خراب ہے۔ منی کا جوڑا تو بالکل جواب دے گیا تھا اور کاکے کی اکلوتی پینٹ بھی گھٹنوں سے پھٹ گئی تھی۔ بڑی فری تو اب تین کپڑے مانگتی تھی۔ سوٹ کی قمیص سلامت تھی تو شلوار پھٹ گئی تھی، ۔ شلوار ٹھیک کی تھی تو قمیض جگہ جگہ سے ادھڑ گئی تھی اور جو دونوں کی حالت کچھ بہتر تھی اس کے ساتھ دوپٹہ نہیں تھا۔ اماں سر ہلاتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ دروازے کا پروہ اٹھاتے ہوئے صغراں رک گئی۔ دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن اس نے پوچھ ہی لیا، ہاں تجھے کچھ چاہیے تو ؟ “نہیں، نہیں۔ تو بچوں کو پورا کر، مجھے کچھ نہیں چاہیے

آٹھ سال پہلے نصیر کی سنگت میں صغراں کی زندگی کتنی آسان اور سہل تھی۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں، روٹھنا منانا، ساس کی گھر کی لڑائیاں، بشیراں کی بدزبانی، سب کچھ تھا لیکن صغراں کو کچھ بھی برا نہ لگتا تھا۔ نصیر کی ہمراہی میں وہ بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کر سکنے کی ہمت رکھتی تھی، پھر یہ ساس اور بشیراں تو کچھ بھی نہیں تھیں۔ اماں فطرتاً اتنی بد لحاظ نہ تھی لیکن اب بشیراں آجاتی تو اماں کے رنگ ڈھنگ بھی بدل جاتے۔ اب صغراں کے وجود میں کیڑے اور خرابیاں ہی نظر آتیں۔ بشیراں بی بی کے جانے کے بعد اسی طرح کا اثر اس پر چڑھا رہتا جیسے گیس والی بوتل پی کر پیٹ میں گیس بھر جاتی ہے اور پھر وقفے وقفے سے ڈکار آتی رہتی ہے۔ یہی حال اماں کا ہو جاتا۔ لیکن صغراں کو کسی بات کی پروانہ نہیں تھی، اس کا گھر تھا، اس کا چاہنے والا تھا، اس کی محبت کا دم بھرنے والا تھا۔ لیکن زندگی نے یوں پلٹا کھایا کہ وہ خود ایک لمحے کے لیے یوں تھم گئی۔ جس دن کفن میں لپٹا نصیر احمد اس سے جدا ہو کر منوں مٹی تلے جا سویا، وہ تینوں بچوں کو لے کر یوں پتھرائی کھڑی تھی کہ اماں کے کڑوے، بشیراں کی گالیاں اسے کچھ سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ صرف ایک خلا تھا جو اس کے سامنے تھا، جس میں اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، کوئی سمت اور کوئی منزل نہیں تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب چیزیں دوبارہ اس کے ذہن میں ابھرنے لگیں تو اسے معلوم ہوا کہ جوانی کی بیوگی میں صرف دکھ ہی نہیں ہوتا بلکہ بے چارگی اور ذات بھی ہوتی ہے۔ ہر کوئی جوان بیوہ کو مٹھائی کی وہ دکان سمجھتا ہے جو چورا ہے میں کھلی پڑی ہو اور ہر لفنگا ہاتھ بڑھا کر لڈو، گلاب جامن پر جھپٹنا چاہے۔ تب اسے معلوم ہوا کہ ایسی بد لحاظ، بد زبان، جھگڑالو ساس بھی نعمت ہو سکتی ہے یہ صغراں پر چوکیدار بن کر بیٹھ گئی، گویا وہ کوئی خزانہ تھی جس پر سانپ کنڈلی مار کر بیٹھا تھا۔ اماں کی وجہ سے اسے اسکول میں ملازمت مل گئی۔ زندگی آہستہ آہستہ گھسٹنے لگی، بیوگی، حالات کی تنگی، بچوں کی کفالت، ساس کی بدکلامی۔ ہر چند صغراں کے ناتواں وجود کو کبھی بکھیر دیتی اور کبھی مضبوط بنا دیتی۔ ایک بات کا صغراں کو احساس تھا کہ صغراں کے لیے اماں ایک ڈھال تھی جس کے پیچھے کر کے دنیا کی ہوس بھری نگاہوں کا مقابلہ کر سکتی تھی۔

بازار میں اتارش تھا کہ قدم قدم پر دھکے اور سر سے چادر سر کے جارہی تھی ۔ وہ کاکے اور فری کا ہاتھ پکڑے تیز تیز چل رہی تھی۔ مہنگائی اس قدر تھی کہ کتنی ہی دوکانوں پر وہ بھاؤ تاؤ نہ کر سکی۔ بڑی مشکل سے اس نے مناسب قیمت پر ننھی کی سینڈل اور فراک خریدا۔ اگلی چند دکانیں کاکے کی پینٹ قمیص کے لیے کھنگال ڈالیں۔ کسی جگہ بھاؤ نہ ٹھیک پڑتا اور کہیں کاکے کو کچھ پسند نہ آتا۔ بڑی مشکل سے ایک دکان پر اس نے پینٹ قمیض پسند کی۔ ابھی بھی کاکے کی ضد جاری تھی۔ مجھے کالی نہیں، نیلی پینٹ چاہیے۔ دو نمبر نیلی پچاس روپے زیادہ مہنگی ہے، دکان دار کتر کر بولا۔ نہیں، بس یہی ٹھیک ہے۔ صغراں نے دو تھپڑ کاکے کو لگائے۔ بس، اب یہی ٹھیک ہے، اب زیادہ بکواس نہ کر۔ فری تو ہر چوڑیوں اور مصنوعی زیورات کی دکان پر رک رک جاتی۔ صغراں اس کا بازو مروڑ کر اسے آگے کرتی، لیکن کچھ دور چل کر وہ پھر رک جاتی۔ ہاں! یہ موتیوں والے کانٹے اور ہار لینے ہیں، اچھی چیزیں ہیں۔ تجھے کانٹوں ہاروں کی پڑی ہے اور مجھے ابھی تیرے لیے عید کا سوٹ خریدنا ہے۔ پھر میں تاروں والا سوٹ لوں گی، جیسا پچھلی عید پر نازی نے پہنا تھا۔ ایک جگہ پر اسے چائے کے کپ نظر آ گئے۔کپ بھی تو سارے چٹخ گئے ہیں۔ اس نے جھٹ سے چھ کپ خرید لیے -ہاں ! میرا سوٹ اور ہار کب لوگی ؟ فری ٹھنک کر بولی دم تو لے ، لیتی ہوں، کیوں مری جا رہی ہے۔ پیسے بھی تو دیکھے لوں – منی اور کاکے کی چیزیں تو فورا خرید لیں۔ میری باری آئی ہے تو زبان نہ چلا ، سیدھی طرح چل-بڑی بحث و تکرار کے بعد ایک دکان سے فری کے سوٹ کا کپڑا خریدا۔ فری کو تو وہ کپڑا بالکل پسند نہ آیا لیکن صغراں کی تحکمانہ نگاہوں سے ڈر کر خاموش ہو گئی۔ اچھا، اب ہار تو لے دو، فری چلتے چلتے دوبارہ بولی۔ایک دکان پر رُک کر صغراں نے سستا سا کانٹے ہاروں کا سیٹ بھی لے دیا۔ فری کی آنکھوں میں خوشی کی چمک سے صغراں کے دل میں سرور سا آ گیا۔ ماں ! اب گھر چلو۔ کا کا جو شاپر بیگ اٹھائے چل رہا تھا اکتا کر بولا۔ اچھا اچھا چلتے ہیں۔ صغراں نے سرخ پرس میں جھانکا تو اس ہزار روپے میں سے دو سو روپے مڑے پڑے تھے۔ سوچا اب کی بار کیوں نہ بستر کی چادریں خرید لوں۔ نہیں نہیں، کیوں نا پلیٹیں لے لوں۔ ساری ہی تو خراب ہو گئی ہیں۔ اس خیال کو بھی اس نے رد کردیا۔ ایسا کرتی ہوںپردے خرید لیتی ہوں۔ لو بھلا دو سو میں ںپردےکہاں آئیں گے – چلتے ہوئے خود ہی ایک چیز سوچتی اور پھر خود ہی رو کردیتی پھر اسے! اماں کا خیال آیا۔ اماں کی جوتی بھی تو بالکل ٹوٹ گئی تھی۔ دو بار وہ قادر موچی سے بنوا چکی تھی اور اس کی چادر بھی جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی ایک بار جب بشیراں اپنی ساس کے ساتھ اُنہیں ملنے آئی تھی، تو اُس کی ساس نے سفید رنگ کی چکن کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اماں کتنی ہی دیر تک حیرت بھرے لہجے میں اُس سفید چادر کی تعریف کرتی رہیں۔ ایک کپڑے کی دکان پر صغراں کو ویسی ہی چادر لٹکی ہوئی نظر آئی۔ وہ بڑی دیر تک اُسے دیکھتی رہی۔ ڈیڑھ سو روپے کی صرف چادر—بڑی کشمکش کے بعد اُس نے وہ چادر خرید لی۔ باقی بچے پچاس روپے سے اماں کے لیے پلاسٹک کی چپل لے لی۔دوپہر کو اماں اور بشیراں کی ہونے والی باتوں سے صغراں کا دل تو بہت کھٹا ہو چکا تھا، لیکن خیر اور شر کی اندرونی جنگ میں صغراں کی فطرت کا جھکاؤ ہمیشہ خیر کی طرف رہا۔سو، اُس نے اس بار بھی اپنے لیے خیر ہی چُنی۔روزہ کھولنے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ صغراں بچوں اور سامان کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔ اس بار تو گھر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ پیچھے سے اماں نے جھاڑو لگا کر اس مختصر سے صحن کو چمکا دیا تھا۔ کھڑے میں پڑے میلے کپڑے بھی دھل کر تار کی زینت بن چکے تھے۔ باورچی خانے سے آلو کی سبزی کی خوشبو آ رہی تھی۔ اماں صحن میں بیٹھی پکوڑوں کا مصالحہ تیار کر رہی تھیں دونوں بچے سامان سے لدے پھندے دادی کے گرد آ بیٹھے۔ آئے ہائے کم بختو! کچھ تو تمیز سیکھ لو! اماں گھبرا کر بولیں۔دیکھو دادی! ہم کیا لائے ہیں!یہ دیکھو دادی! میرے کانٹے! فری نے اپنے کانٹے کانوں سے لگا کر پوچھا۔دادی! یہ دیکھو میری پینٹ شرٹ!اور دیکھو دادی! اماں نے کتنے پیارے کپ لیے ہیں چائے کے-توبہ توبہ، یہ بے صبرے! آرام آرام سے دکھاؤ۔ تم لوگوں نے تو مجھے بھی پاگل کر دیا ہے! اماں ان کی بے چینی پر ہنس کر بولیں۔اس میں کیا ہے ؟ اماں نے کالے شاپر کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ دادی بوجھو بھلا کیا ہے اس میں؟ فری دادی کی بے چینیسے لطف اندوز ہونے لگی -مجھے کیا پتا۔ میں کوئی بازار گئی تھی تم لوگوں کے ساتھ۔یہ دیکھو دادی! اماں نے تمہارے لیے چادر لی ہے اور ساتھ میں یہ چپل بھی۔ صغراں خاموشی سے چارپائی پر بیٹھی دادی اور پوتا پوتی کی باتیں سن رہی تھی۔ چادر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اماں کے چہرے پر وہی خوشی تھی جو کانٹے پا کر فری کی آنکھوں میں آئی تھی۔ اماں نے نظریں اٹھا کر صغراں کی طرف تشکر سے دیکھاجن میں احسان مندی تھی۔ ارے تم لوگ اپنی ہی چیزیں دکھاتے جا رہے ہو تمہاری اماں نے اپنے لیے کیا لیا ہے ؟ اماں شاپروں کو الٹ پلٹ کر کے پوچھنے لگی۔ہائے دادی! اماں نے تو اپنے لیے کچھ بھی نہیں لیا! فری بھی حیران ہو کر بولی۔کیوں صغراں! تُو نے کچھ نہیں لیا اپنے لیے؟ اماں نے پوچھا۔ مجھے کچھ چاہیے ہی نہیں تھا اماں، میں نے کیا لینا تھا۔ صغراں نے چادر اتار کر تھکے تھکے لہجے میں جواب دیا۔کیوں؟ تجھے کیوں نہیں کچھ چاہیے تھا؟ اماں کی آواز میں غصہ اُمڈ آیا۔ بس اب میرے بچے پہن اوڑھ لیں، میرے لیے یہی کافی ہے۔الٹ پلٹ کر کے پوچھنے لگی۔ہائے دادی! اماں نے تو اپنے لیے کچھ بھی نہیں لیا! فری بھی حیران ہو کر بولی۔کیوں صغراں! تُو نے کچھ نہیں لیا اپنے لیے؟ اماں نے پوچھا۔ مجھے کچھ چاہیے ہی نہیں تھا اماں، میں نے کیا لینا تھا۔ صغراں نے چادر اتار کر تھکے تھکے لہجے میں جواب دیا۔کیوں؟ تجھے کیوں نہیں کچھ چاہیے تھا؟ اماں کی آواز میں غصہ اُمڈ آیا۔ بس اب میرے بچے پہن اوڑھ لیں، میرے لیے یہی کافی ہے۔ اچھا تیرے لیے یہی کافی ہے، اور تُو خود بچوں کے سامنے فقیرنی بنی رہے؟ اماں نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔ ٹھہَر، میں ابھی آتی ہوں۔جب باہر آئیں تو ان کے ہاتھ میں گلابی رنگ کا جارجٹ کا سوٹ لہرا رہا تھا۔یہ لے! اماں نے سوٹ صغراں کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ میں باجی نسیم کے گھر گئی تھی تو انہوں نے مجھے دیا تھا، ساتھ میں دو سو روپے عیدی بھی دی تھی۔مگر اماں! تو تو بشیراں سے کہہ رہی تھی کہ تجھے کسی باجی نے کچھ نہیں دیا۔صغراں حیرانی سے بولی۔ ہے نا تو پاگل! اسے بتا دیتی تو نہ رہنے دیتی میرے پاس۔ یہ تو میں نے تیرے لیے سنبھال رکھا تھا۔میرے لیے، اماں؟ اب کی بار صغراں کی آنکھوں میں احسان مندی چھلک رہی تھی۔تو اور کیا۔ تیرے لیے، اپنے نصیر کی نشانی کے لیے، اپنے گھر کی عزت کے لیے۔صغراں بے اختیار اماں کے گلے جا لگی اور دونوں کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ان ننھے ننھے پانی کے قطروں سے دل کا میل کتنی آسانی سے دھل گیا۔

  • 51
  • More
Comments (0)
Login or Join to comment.