- · 1 friends
-
L

عیدی سے بڑی خوشی
ارے ابو، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ رہنے دیں، آپ نہیں۔ ابو، پلیز۔ نسیمہ بیگم اپنے کمرے سے نکل رہی تھیں جب انہیں اپنی بہو ندا کی آواز آئی، جو یقیناً اپنے ابو سے فون پر بات کر رہی تھی۔آپ اپنی دوائی لے لیں، میرا کیا ہے؟ کون سا یہ عیدی لیے بغیر میری عید نہیں ہوگی۔ دیکھیں، آپ کتنے کھانس رہے ہیں۔ پہلے ہی آپ نے دوا دیر سے لی۔ بھائی کو بھی آپ کا خیال نہیں۔ مانا کہ بال بچّے دار ہیں، مگر ایسا بھی کیا کہ باپ کے نوالے کتے پھریں! کیا وہ نہیں جانتے کہ آپ بیمار ہیں اور دوائیاں آپ کی ضرورت ہیں؟ اچھا نا، پلیز، میں جو کہہ رہی ہوں، وہی کریں۔ اپنا خیال رکھیے گا۔نسیمہ بیگم کا انداز بالکل درست نکلا۔ ندا کے باپ کا ہی فون تھا، جو یقیناً اسے عیدی بھیجنے کا کہہ رہے تھے، اور ندا انہیں ہر طرح سے منع کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔نسیمہ بیگم کو دل سے غصہ آیا کہ وہ اپنے میکے والوں کو کیوں منع کر رہی ہے۔ کون سا وہ روز روز چیزیں اٹھا کر دینے آتے ہیں؟ سال بھر میں اگر وہ کچھ دینا ہی چاہ رہے ہیں، تو اس میں بھی یہ انہیں روک رہی ہے۔فون رکھتے ہی نسیمہ بیگم چیل کی طرح ندا کی طرف لپکیں۔کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں اپنے باپ کو منع کرنے کی کہ عیدی مت بھیجو۔کیا مطلب آنٹی؟ میرے ابو بیمار ہیں، انہیں گھر میں خود پیسوں کی ضرورت ہے۔ یہ اضافی بوجھ میں ان پر کیسے ڈالوں؟ندا نے پہلے تو کچھ نہ سمجھتے ہوئے انہیں دیکھا، پھر سب سمجھتے ہوئے وضاحت دینا ضروری سمجھا۔بیٹیوں کو کچھ دینا ماں باپ پر اضافی بوجھ نہیں ہوتا، اور تمہارا باپ سال بعد تمہیں کچھ دے دے گا تو مر نہیں جائے گا۔نسیمہ بیگم کا لہجہ ترش اور انداز سخت تھا۔وہ خود بیمار ہیں۔ندا کمزور آواز میں بس اتنا ہی کہہ سکی۔ہاں، اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کا یہ بہانہ اچھا ہے۔ساس کے طنز پر ندا چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ سکی۔تبھی معیز تھکے تھکے سے انداز میں چلتا ہوا اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔ وہ اس وقت آفس سے واپس آیا تھا۔ ماں نے اسے دیکھا تو فوراً اس کے لیے جگہ بنائی۔آؤ معیز، یہاں بیٹھو۔ ندا، پنکھے کی رفتار تو کم کر دو، اور ہاں، اندر سے میری عینک بھی لا دینا، مجھے قرآن پاک پڑھنا ہے۔ندا نے سر ہلایا، پنکھا کم کیا اور باہر چلی گئی، کیونکہ اسے افطاری کی تیاری بھی کرنی تھی۔ وہ اگر اس وقت شروع کرتی تو بمشکل شام تک کام نمٹتا۔معیز، کب تک تمہیں تنخواہ ملے گی، بیٹا؟ندا کے باہر نکلتے ہی نسیمہ بیگم نے معیز سے پوچھا تو وہ فکرمندی سے ماں کو دیکھنے لگا۔کیوں امی، سب خیر تو ہے؟تمہاری بہن کا فون آیا تھا۔ کہہ رہی تھی کہ اس بار ہم اسے عیدی اس کی دیورانی کے شایانِ شان بھیجیں۔ تم جانتے ہو نا، وہ کس قدر امیر گھرانے سے ہے۔ فائزہ نہیں چاہتی کہ اس کے سامنے اس کی عیدی میں کوئی کمی رہ جائے۔گر امی، عید میں تو ابھی بہت دن ہیں۔کہاں بہت دن ہیں، کل سے دوسرا عشرہ شروع ہو رہا ہے، بیٹا۔ پھر دیکھنا، کیسے دوڑ لگاتے ہیں یہ روزہ یہ تو ٹھیک ہے امی، لیکن۔۔۔ماں کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے وہ اپنی بات کہنا چاہ رہا تھا کہ نسیمہ بیگم نے فوراً سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ انہیں کچھ غلطی ہونے کا احساس ہوا، کیونکہ معیز کے چہرے پر واضح پریشانی تھی۔امی! آج آفس میں میری ایک لڑکے سے جھڑپ ہو گئی، تو مجھے نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ماں کا اندازہ سچ ثابت ہوا۔ بالوں میں اضطراب سے ہاتھ پھیرتا ہوا معیز بے حد الجھا ہوا لگ رہا تھا۔نسیمہ بیگم نے بے ساختہ سینے پر ہاتھ مارا۔یا اللہ خیر!
آپ دل چھوٹا نہ کریں معیز ۔ اللہ پاک کوئی نہ کوئی راہ ضرور نکال دے گا۔ معیز بے حد پریشان تھا۔ ایک تو گھر کے خرچے، اوپر سے نوکری کا جانا—معیز کا سر سوچ سوچ کر پھٹا جا رہا تھا۔ ندا کے لیے اس کی یہ حالت دیکھنا بے حد تکلیف دہ تھا۔ وہ اس کے غم میں گھلتی جا رہی تھی۔ اب بھی اس کے پاس بیٹھی اسے حوصلہ دینے کی کوشش کر رہی تھی، مگر وہ مایوسی سے صرف سر ہلا کر رہ گیا۔ بہت مایوس ہو گیا ہوں میں۔ پہلے ہی بہت مشکل سے یہ نوکری ملی تھی اور پھر اچانک ہی فارغ کر دیا گیا۔ گھر کے حالات تمہارے سامنے ہیں۔ رمضان شریف میں تو خرچ بھی دُگنا، چوگنا ہو جاتا ہے، اوپر سے عید بھی سر پر ہے۔ اور فائزہ فون پر فون کر رہی ہے اپنی عیدی کے لیے۔ ندا کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے حوصلہ دے، کیونکہ گھر کے حالات خود اس کے سامنے تھے۔ جمع پونجی کوئی تھی نہیں۔ پھر بھی وہ اپنے سارے بکھرتے حوصلے سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ معیز بس اسے دیکھتا رہ گیا۔ندا! باہر آؤ، تمہارے ابو تمہاری عیدی لائے ہیں۔تبھی نسیمہ بیگم کی آواز باہر سے آئی۔معیز نے حسرت بھری نظروں سے ندا کو دیکھا۔دیکھو، آ گئی تمہاری بھی عیدی۔ندا کی عیدی اس کے سامنے رکھی تھی۔ مہندی، چوڑیاں، کپڑے جوتے اور ڈرائی فروٹ ۔ وہ یہ سب دیکھتی افسوس بھی کر رہی تھی کہ اس کے ابو نے اپنی دوائیں لانے کے بجائے بیٹی پہ پیسے خرچ کر دیے تھے۔ لیکن اسے یہ بھی خوش تھی کہ ابو اس کے لیے اس کی خوشی کی خاطر سب اس کی پسند کی چیزیں لائے تھے۔ اتنے بیمار ہو کر بھی وہ یہ رسم نبھانے چلے آئے تھے۔ نسیمہ بیگم دور بیٹھی اس کے چہرے پر پھیلی خوشی کے رنگ دیکھ رہی تھیں اور پہلو پہ پہلو بدل رہی تھیں کہ بہو کے منع کرنے کے باوجود اس کا باپ اتنا کچھ لے آیا تھا، اور وہ—بیٹی کے بار بار کہنے اور یاد دلانے کے باوجود—اس کے لیے ایک چیز بھی خرید نہیں پا رہی تھیں۔ندا کی آواز نے ان کی سوچوں کا تانتا توڑ دیا۔دیکھیں، آئی! ابو میرا فیورٹ رنگ لے آئے ہیں۔ندا سبز رنگ کا خوبصورت جوڑا ساتھ لیے ان کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ہاں، اچھا ہے۔ میری فائزہ کو بھی تو یہی رنگ پسند ہے۔ اگر ہم اس کی عیدی لے کر گئے تو اسی طرح کے کپڑے لے کر جائیں گے۔یہ کہتے ہوئے ان کی آواز خالی سی ہو گئی۔ندا اثبات میں سر ہلانے لگی۔ہاں، بالکل۔ ابو جانے کتنا خرچ کر آئے۔ آخرکار میں نے تو منع بھی کیا تھا انہیں۔ماں باپ کہاں بیٹیوں کو دینے سے کبھی پیچھے ہٹتے ہیں؟ بات صرف استطاعت کی ہوتی ہے۔ہ گہری سانس لے کر بولیں۔لیکن میرے ابو کے پاس تو اتنا کچھ نہیں تھا۔ بتا رہے تھے کہ جو وہ بچپن سے مجھے پاکٹ منی دیتے آئے ہیں، وہ میری شادی کے بعد سے ایک جگہ جمع کرتے رہے۔ اور آج اسی رقم سے میری اتنی عیدی لے آئے ہیں۔دیکھیں معیز، ابو ہر چیز کتنی مہنگی لے کر آئے ہیں۔تب ہی باہر آتے ہوئے معیز کو دیکھ کر ندا نے اسے پکارا۔وہ ہلکی سی مسکراہٹ لیے اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ہاں نظر آرہا ہے یار۔ سب چیزیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ سب بہت قیمتی بھی ہیں ۔ وہ اس کے ساتھ مل کر سب چیزیں اشتیاق سے دیکھنے لگا تھا۔ ہماری فائزہ بھی تو ایسی ہی عیدی کا کہہ رہی تھی۔ ایسی تو اس کی دیورانی کی آئی ہے ۔ نسیمہ بیگم کی حسرت لبوں پہ مچلی تھی۔ میں کوشش کروں گا امی، میں بھی فائزہ کے لیے سب کچھ ایسا ہی لوں۔ معیز اداسی سے بولا تو ماں نے مایوسی سے اسے دیکھا۔ بہت مشکل ہے، بیٹا۔ تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ میں آج فائزہ کو فون کر کے منع کر دوں گی، بتا دوں گی کہ ہم میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اس کی دیورانی سے مقابلہ کر سکیں، بلکہ اتنی بھی نہیں کہ اس کے لیے کچھ خرید سکیں۔ نسیمہ بیگم کی آواز رندھ گئی۔ ندا نے چونک کر انہیں دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں پانی جمع تھا۔ وہ ماں تھیں، بہت کچھ محسوس کر رہی تھیں۔ اس وقت ان کے دل کی جو حالت ہو رہی تھی، وہ ندا سے چھپی نہ رہ سکی۔ تب ہی اس کے ذہن میں ایک خیال سا آیا۔ نہیں آنٹی، آپ فائزہ کو منع نہیں کریں گی۔ اس نے مضبوطی سے کہا۔ تو پھر کہاں سے کریں گے بندوبست؟ معیز کے پوچھنے پر وہ ہلکا سا مسکرائی۔ میں نے کہا تھا نا، اللہ پاک ایک در بند کرتا ہے تو دوسرا کھول دیتا ہے۔ تو ایسا ہی ہوا۔ سمجھیں، فائزہ کی عیدی کا بندوبست ہو گیا۔ کیا مطلب؟ دونوں ماں بیٹے نے یک زبان ہو کر پوچھا۔ ندا اپنی ساری چیزیں اٹھا کر نسیمہ بیگم کی طرف بڑھانے لگی۔ یہ رہی فائزہ کی عیدی۔ لیکن یہ تھر تمہارے ابو لائے ہیں تمہارے لیے؟ نسیمہ بیگم نا سمجھی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ تو کیا ہوا۔ ابو میرے لیے لائے میں نے لے لی۔ اب میں یہ اپنی خوشی سے فائزہ کو دے رہی ہوں ۔ اس کے نارمل سے انداز پر نسیمہ نے تشکر سے اسے دیکھا تھا۔اور اب جلدی سے اٹھ جائیں۔ بائیک نکالیں۔ اور آنٹی کو ساتھ لے جا کر یہ عیدی فائزہ کو دے آئیں۔ اس سے پہلے کہ اس کی دیورانی عید کرنے چلی جائے ۔ اس نے معیز کو اس کی بائیک کی چابی اٹھا کر دیتے ہوئے کہا تو معیز محبت سے اسے دیکھے گیا۔ جس نے ہمیشہ ہر اس مقام پر اس کا ساتھ دیا تھا جہاں اس کا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑنے والا ہو جاتا تھا۔نہیں بیٹا ! یہ تمہارے والد نے تمہارے لیے محبت سے بھیجی ہے تم یہ چیزیں لے جا کر اپنے کمرے میں رکھو اللہ تمہیں پہننا نصیب کرے۔ نسیمہ بیگم نے ندا کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔لیکن آنٹی فائزہ نسیمہ بیگم نے ندا کی بات کاٹتے ہوئے۔فائزہ کی فکر نہ کرو عیدی کے بغیر بھی عید ہو سکتی ہے۔ اس کا شوہر اور ساس اس معاملے میں بہت اچھے ہیں بلکہ اب تو تمہیں بھی کہوں گی کہ اپنے والد کو منع کردو کہ آئندہ یہ تردد نہ کریں اس طرح کی فضول رسموں کو ختم کر کے ہمیں رمضان اور عید کے اصل روح کو سمجھنا چاہیے۔ عید دلوں کی خوشی اور روزوں کا انعام ہے جو ہمیں تو کل سکھاتا ہے ۔ ان کی بات پر معیز نے بھی سر ہلا کر تائید کی تو ندا کولگا اس کے سر سے کوئی بھاری بوجھ اتر گیا ہو۔