·   ·  40 posts
  •  ·  0 friends
  • L

    1 followers

فیصل آباد: ماں نے بیٹی کے مبینہ قاتل شوہر کو 15 برس بعد کیسے ڈھونڈ نکالا؟

اس کہانی کی ابتدا لگ بھگ 15 سال پہلے صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے علاقے ’بولے دی جھگی‘ سے ہوئی جب تبسم کی عمر فقط 16 برس تھی۔ تبسم کے والد ایک امام مسجد تھے اور گھر کی قریبی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔

تبسم کو پڑھائی کا بہت شوق تھا اور اسی لیے ان کے والدین نے گھر کے قریب ایک نجی سکول میں پڑھانے والے محمد صدیق کو بطور ہوم ٹیوٹر رکھ لیا تاکہ وہ تبسم کی پڑھائی میں مدد کر سکیں۔

صدیق ہر روز شام کے وقت گھر کی بیٹھک میں تبسم کو پڑھانے آیا کرتے تھے۔ تبسم کی والدہ حفیظاں بی بی کے مطابق پڑھائی کے دوران کوئی تبسم کو تنگ نہیں کرتا تھا تاکہ وہ امتحانات کی اچھے سے تیاری کر سکیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ایک روز مغرب کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ گھر کی بیٹھک خالی ہے اور تبسم بھی آس پاس نہیں۔ اہلخانہ گھر کے قریب واقع صدیق کے گھر پہنچے مگر وہاں دروازے پر پہلے سے تالہ پڑا ہوا تھا۔ ہمسائیوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

تبسم کے والدین کو اس وقت تک یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ تبسم کا ضروری سامان بھی گھر پر موجود نہیں تھا اور جلد ہی انھیں پتا چلا کہ تبسم اپنے استاد صدیق کے ساتھ گھر چھوڑ کر جا چکی ہے۔

معاشرے میں رسوائی کا ڈر

تبسم کی والدہ کا کہنا تھا کہ تبسم کے والد بیٹی کے گھر چھوڑ جانے کے غم میں نڈھال تھے مگر اہل محلہ اور رشتہ داروں کے ڈر سے انھوں نے اس معاملے پر چپ سادھ لی اور بیٹی سے قطع تعلقی اختیار کر لی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر نے ’بدنامی‘ کے ڈر سے پولیس میں رپورٹ بھی درج نہیں کروائی اور اس واقعے کے چند ماہ بعد ہی تبسم کے والد اچانک دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔

والدہ بتاتی ہیں کہ واقعے کے 10 سال تک انھوں نے تبسم سے رابطہ نہیں کیا مگر اس دوران ’ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب تبسم کی یاد نہ ستاتی ہو۔‘

’اس کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومتا تھا۔ ہر روز میں اپنی بیٹی کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستی۔ کئی بار تو خواب میں بھی تبسم کا چہرہ نظر آتا اور میں اس وقت کو کوستی جب تبسم کو ٹیوشن پڑھانے کے لیے صدیق کو ہوم ٹیوٹر رکھا تھا۔‘

حفیظاں بی بی بتاتی ہیں کہ انھیں بیٹی کے بارے میں بہت عجیب و غریب خیال بھی آتے تھے اور بعض اوقات انھیں یوں محسوس ہوتا کہ جسے تبسم انھیں پکار رہی ہو۔ ’اس غم میں کلیجہ منھ کو آتا تو رو لیتی۔ زمانے میں رسوائی سے بچنے کی خاطر اپنا دکھ کسی کو بیان بھی نہ کر پاتی۔‘

اس طرح وقت گزرتا رہا اور بیٹی کے غم میں حفیظاں بی بی کے بالوں میں چاندی اُتر آئی۔

اس واقعے کے 10 سال بعد تبسم کی بڑی بہن نے اپنے شوہر کے اصرار پر صدیق سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جس میں صدیق نے بتایا کہ وہ لاہور کے علاقے چوہنگ میں مقیم ہیں۔

یہ خبر تبسم کی والدہ تک بھی پہنچی اور انھیں یہ تسلی تو ہوئی کہ بیٹی خیر خیریت سے ہے تاہم ان کے دل میں اس واقعے کو لے کر رنج بدستور موجود تھا مگر اتنا وقت گزر جانے کے بعد جب گھر والوں نے تبسم سے بات کرنا چاہی تو صدیق نے بیماری کا بہانہ بنا کر ملنے سے انکار کر دیا۔

وقت گزرتا رہا اور صدیق بہانے بناتا رہا۔ پھر اچانک صدیق کا موبائل نمبر آف ہو گیا اور اس تک پہنچنے کے تمام راستے بھی بند ہو گئے۔

جب دل میں پلنے والے وسوسے بیدار ہوئے

حفیظاں بی بی کا کہنا ہے کہ اس صورتحال نے اُن کے دل میں پلنے والے وسوسوں کو بیدار کر دیا تھا کیونکہ یہ خواب اور خیال تو انھیں اکثر تنگ کرتا تھا کہ ان کی بیٹی مصیبت میں ہے لیکن جب وہ مسلسل کوشش کے باوجود بیٹی سے بات نہیں کر پائیں تو انھیں یقین ہو گیا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ جنوری 2022 میں وہ اپنی بڑی بیٹی اور داماد کے ہمراہ تبسم کو ڈھونڈھتے ہوئے لاہور کے علاقے چوہنگ پہنچ گئیں، یہ وہی جگہ تھی جہاں سے صدیق نے آخری بار ان سے رابطہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ اس علاقے میں مقیم ہے۔

وہاں اہل علاقہ نے انھیں بتایا کہ صدیق عرصہ دراز سے لاہور کے علاقے ساندہ میں رہائش پذیر ہے جہاں وہ ایک سکول میں بچوں کو پڑھاتا ہے اور ہومیو پیتھک کلینک بھی چلاتا ہے۔ تبسم کی والدہ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ بتائے ہوئے پتے پر پہنچیں اور صدیق کو ڈھونڈنے لگی مگر صدیق کا کوئی سراغ نہ ملا۔

حفیظاں بی بی کے مطابق صدیق کی تلاش میں ناکامی نے اُن کے شک کو مزید پختہ کیا کہ یقیناً کوئی گڑبڑ ہے مگر دوسری جانب مسئلہ یہ تھا کہ لاہور میں نہ تو ان کی کوئی جان پہچان تھی اور نہ رہنے کا کوئی آسرا۔

ان کے مطابق اِس مسئلے کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ اسی علاقے میں لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا کہ اس سے علاقے میں رہنے کا بندوبست بھی ہو جائے گا اور بیٹی کی خبر بھی مل سکے گی۔

یوں چوبرجی کے علاقے میں انھوں نے لوگوں کے گھروں میں کام شروع کر دیا۔ اُن کے مطابق دن میں وہ لوگوں کے برتن، کپڑے اور فرش دھوتیں اور شام میں بیٹی کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتیں اور چار مہینے ایسے ہی گزر گئے۔

اسی طرح ایک دن وہ بیٹی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے چوبرجی کے ایک سیکنڈری سکول میں جا پہنچیں جہاں محمد صدیق بچوں کو پڑھا رہا تھا۔

اس کیس کے حوالے سے درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق حفیظاں نے پولیس کو بتایا کہ جیسے ہی وہ صدیق کے پاس پہنچیں وہ انھیں دیکھ کر حیرت زدہ تو ہوا لیکن اس کے چہرے پر ایک بے چینی اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے اور تبسم کے متعلق پوچھنے پر محمد صدیق حیلے بہانے بناتا رہا اور اس دوران باتیں کرتے کرتے اچانک بھاگ کھڑا ہوا۔

اس اچانک صورتحال نےحفیظاں بی بی کے پاؤں تلے زمین کھینچ لی اور انھیں یقین ہو گیا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ کچھ بُرا ہوا ہے۔ وہ فوراً چوبرجی کے قریب ساندہ پولیس سٹیشن پہنچیں جہاں انھوں نے ایس ایچ او تھانہ ساندہ عدیل سعید کو اپنی بیٹی کی گمشدگی اور محمد صدیق کے متعلق بتایا اور ان سے مدد کی اپیل کی۔

والدہ نے پولیس کو صدیق کی تصاویرفراہم کیں اور اسے ڈھونڈنے کا مطالبہ کیا۔ جلد ہی پولیس صدیق کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب رہی۔

ملزم کا قتل کا انکشاف

اسی حوالے ایس ایچ او تھانہ ساندہ عدیل سعید سے جب رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ دوران حراست ملزم محمد صدیق سے جب تفتیش کی گئی تو ابتدا میں تو انھوں نے بہانے بنائے اور مختلف کہانیاں سنائیں تاہم تھوڑی تفتیش کے بعد ملزم نے بتایا کہ اس نے تبسم کو 15 سال پہلے ہی قتل کر دیا تھا۔

پولیس حکام کے دعوے کے مطابق محمد صدیق نے بتایا کہ انھوں نے 2007 میں تبسم سے دوسری شادی کی تھی اور اس سے پہلے وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے چکے تھے جن سے ان کے دو بچے تھے۔

پولیس حکام کے مطابق صدیق نے بتایا کہ وہ تبسم کو بھگا کر لاہور لے آیا تھا اور اس کے ساتھ اس کے بچے بھی تھے۔ ملزم نے بتایا کہ بچوں کی وجہ سے آئے روز جھگڑا ہوا کرتا تھا اور اس دوران تبسم بچوں کو گھر سے نکالنے کا کہتی تھی۔

تبسم سے شادی کو ابھی پانچ مہینے ہی گزرے تھے کہ ایک رات دونوں میاں بیوی میں جھگڑا ہوا اور طول پکڑ گیا، صدیق نے پولیس کو بتایا کہ اسی دوران وہ آپے سے باہر ہو گیا اور تبسم کو چپ کروانے کے لیے اس نے اسے اٹھا کر چارپائی پر دے مارا، اسی دوران صدیق نے تبسم کا گلہ دبایا اور چیختا رہا کہ آواز بند کرو، آواز بند کرو۔

جیسے ہی تبسم کی آواز بند ہوئی اور صدیق کا چیخنا ختم ہوا تب تک تبسم کے جسم سے روح پرواز کر چکی تھی۔ 

پولیس حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ گوشت بنانے والے ٹوکے کی مدد سے اس نے تبسم کے لاش کے ٹکڑے کیے تاکہ وہ اپنے قتل کو چھپا سکے اور لاش کو ٹھکانے لگا سکے۔

اس تفتیش کی نگرانی کرنے والی سینیئر پولیس افسر ایس پی عمارہ شیرازی نے بتایا کہ ملزم نے دوران تفتیش اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو گلہ دبا کر مارا اور اس کی لاش کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے مختلف جگہوں پر پھینک دیے تھے۔ 

صدیق نے 2007 میں عیدالاضحیٰ کے تیسرے دن اپنی بیوی کو قتل کیا اور لاش کے ٹکڑے کر کے قربانی کے جانوروں کی آلائشوں پر پھینک دیے تاکہ کسی کو شک نہ ہو، اور کچھ ٹکڑے نالے میں بہا دیے۔ اس واقعے کے بعد ملزم نے تیسری شادی بھی کی اور وہ لاہور کے علاقے ساندہ میں روپوش تھا۔

ایس پی عمارہ شیرازی نے بتایا کہ تبسم کے اہلخانہ نے اس کے گھر سے بھاگنے، لاپتہ ہونے، یا اغوا ہونے کی کوئی پولیس رپورٹ درج نہیں کروائی تھی اس لیے پولیس کی جانب سے تبسم کو ڈھونڈنے کی کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

ملزم کا بیان قلمبند کر کے ابتدائی تفتیش کا مرحلہ مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ ابتدائی جسمانی ریمانڈ کے بعد انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے سیکشن 164 کے تحت بیان ریکارڈ کروایا گیا اور بعدازاں جوڈیشل ریمانڈ پر کیمپ جیل منتقل کیا گیا ہے۔ 

انچارج انویسٹیگیشن حسن رضا کے مطابق ملزم کے بیان کے ساتھ اس کیس کا چالان بھی جمع کروا دیا گیا ہے۔ دوسری جانب جسمانی اور جوڈیشل ریمانڈ ہونے کے بعد ملزم کی جانب سے اب تک کوئی وکیل پیش نہیں ہوا اور نہ ہی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی ہے۔

چالان جمع ہونے کے بعد عدالت میں مقدمے کی کارروائی کے دوران سرکاری وکیل ہی کے ملزم کی جانب سے پیش ہونے کے امکانات ہیں جبکہ مقدمہ کی ابتدائی کارروائی لاہور کی سیشن کورٹ میں ہوگی۔

پندرہ سال پہلے ہونے والی واردات میں شواہد کی عدم دستیابی کیس پر کیا اثر ڈالے گی؟

قانونی ماہرین کے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد، لاش اور آلہ قتل کی برآمدگی ملزم کے اعترافی بیان کے ساتھ اگر چالان مرتب کیا جائے تو حالات و واقعات اور عدالت میں ملزم کے اعتراف کی بنا پر سخت سزا ملنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ 

لیکن تبسم قتل کیس میں پولیس حراست میں ملزم کا اعتراف تو موجود ہے لیکن آلہ قتل ہے نہ ہی لاش کے باقیات ملنے کی کوئی امید ہے، ایسے مقدمات کی تفتیش کا چالان کمزور بنتا ہے جس کا براہ راست فائدہ ملزم کو ہوتا ہے کیونکہ عدالت میں اگر ملزم کسی سٹیج پر اپنے بیان سے منحرف ہو جاتا ہے تو کیس سالہا سال چلنے کا امکان پیدا ہوتا ہے جس کے فیصلے آخر میں ملزم کی بریت کی صورت سامنے آتے ہیں۔

قانون دان ایڈوکیٹ اسد عباس بٹ کا کہنا ہے کہ اگر پولیس مقدمے کی تفتیش میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور ملزم کے بتائے گئے مقامات سے تبسم کی لاش کے ٹکڑے یا ہڈیاں برآمد کر کے ڈی این اے رپورٹ کے ساتھ، آلہ قتل تلاش کرلے تو ملزم صدیق کو سزا دلوانے میں کامیابی ہو سکتی ہے مگر اس عمل کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں کیونکہ 15 سال گزر جانے کے بعد شواہد ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ 

تاہم دوسری جانب تبسم کی والدہ کا کہنا ہے کہ اگر انھوں نے بروقت بیٹی کی گمشدگی کی اطلاع پولیس کو دی ہوتی تو شاید آج اُن کی بیٹی زندہ ہوتی۔

  • 11
  • More
Attachments
Comments (0)
Login or Join to comment.