- · 0 friends
-
L

ماہواری سے متعلق بچوں کو آگاہ کرنے والی ماں: ’تہیہ کیا کہ اپنی بچیوں کو اس تکلیف دہ تجربے سے نہیں گزرنے دوں گی‘
مما سکول کے کام سے امریکہ گئی ہوئی تھیں۔ ہم بہن بھائی آپس میں معمول کی بات چیت کر رہے تھے کہ مجھے ماہواری شروع ہو گئی۔ میرا پہلا ردِعمل تھا کہ میں خوفزدہ ہو گئی۔ میں نے اپنے آپ کو واش روم میں بند کر لیا۔ بابا کو جب پتا چلا تو انھوں نے واش روم کے باہر سے مجھے تسلی دی اور کہا کہ کچھ نہیں ہوا یہ پیریڈز ہیں جن کا کچھ عرصہ پہلے ہم نے آپ کو بتایا تھا۔‘
یہ کہانی مریم عزیز کی ہے جو اسلام آباد کے ایک مقامی سکول میں اِس وقت ہائی سکول کی طالبہ ہیں۔ جب پہلی بار اُن کو ماہواری شروع ہوئی تو اُن کی والدہ بیرون ملک سفر میں تھیں اور گھر پر صرف اُن کے بہن بھائی اور والد تھے۔
مریم بتاتی ہیں کہ ’پہلے تو ہم تینوں بہن بھائیوں میں سے کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ ہم سب کے پاس کافی سارے سوال تھے اور ساتھ ہی میرے بھائی بہن کو میری طبیعت کی فکر بھی تھی۔‘
’بابا نے پھر پیڈز لا کر دیے، چاکلیٹس بھی دیں اور سمجھایا کہ مجھے کس طرح اپنا خیال کرنا ہے۔ بعد میں فیملی کے ساتھ ویڈیو کال میں مما اور بابا نے سمجھایا کہ پیریڈز سے گھبرانے کی بات نہیں اور یہ ہر مہینہ میں ایک ہفتہ کے لیے ایک بار ہوں گے۔ ساتھ ہی مما نے میرے چھوٹے بھائی کو بھی میرا خیال رکھنے کا کہا۔‘
اس سے پہلے کہ ہم مریم عزیز کی کہانی کو آگے بڑھائیں پہلے میں آپ سے مریم اور ان کے خاندان کی کہانی کو لکھنے کا مقصد بیان کرتی ہوں۔
اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد سے ہی ہر ماہ ماہواری شروع ہونے پر میں سوچتی ضرور تھی کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ لڑکیوں کو ہر ماہ کے چند دن جسمانی اور ذہنی بے سکونی سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور اس کو انتہائی خفیہ بھی رکھنا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس حالت میں روزہ رکھنے کی چھوٹ ہونے کے باوجود اپنے بھائیوں اور بعض دفعہ گھر کی خواتین کے سامنے بھی خود کو روزہ دار ظاہر کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا تک لینا پڑتا۔
تاہم اس سوال کی نہ مجھے اجازت تھی، نہ اس قدرتی عمل کے مثبت پہلو پر روشنی ڈالنے کے لیے کہیں سے آواز سنائی دیتی تھی۔
برسوں گزرنے کے بعد مجھے فارحہ یوسف کی صورت میں ایسی ماں سے ملنے کا اتفاق ہوا جو اپنی بلوغت کے وقت تو ماہواری کو چھپانے کے دوران ایسے ہی مشکل حالات سے گزریں جس سے اُس وقت کم و بیش ہر لڑکی گزرتی تھی، تاہم انھوں نے اپنی بیٹیوں کو اس جبر میں نہ دھکیلا بلکہ بچیوں کے ساتھ اپنے بیٹے کو بھی ماہواری کے عمل سے متعلق آگاہی دی تاکہ وہ اس کو نارمل قدرتی عمل سمجھ کر خواتین کو برابری کا مقام دے سکے۔
اب ہم واپس آتے ہیں مریم عزیز کی جانب جو اس وقت اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر تسلی و اطمینان کے ساتھ ہم سے بات کر رہی تھیں۔
مریم نے اپنی ماہواری سے متعلق جب سکول میں سہیلیوں سے ذکر کیا تو ان کی کئی سہیلیوں کو پیریڈز شروع ہو چکے تھے تاہم ان کی اور مریم کی کہانی میں فرق یہ تھا کہ ان کی کئی سہیلیوں کو اپنی والدہ، کزن یا گھر میں موجود خواتین کا تو بھرپور تعاون ملا تاہم ان بچیوں کو والد یا بھائیوں کو اس بارے میں بتانے سے منع کیا گیا۔
’ماہواری نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں ہے‘
اب ہم یہاں آپ کو بتاتے ہیں مریم کی والدہ فارحہ یوسف کے بچپن اور اُن کی ماہواری سے متعلق تجربات کے بارے میں۔
فارحہ یوسف کو تقریباً 13 سال کی عمر میں ماہواری شروع ہوئی لیکن اپنے دور کی دیگر بچیوں کی طرح وہ بھی ماہواری سے ناواقف تھیں لہٰذا نادانی میں انھیں لگا کہ وہ دیوار پر غلط طریقے سے چڑھی ہیں اس لیے انھیں کچھ ہو گیا ہے۔
وہ اپنے بچپن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’جب میں چھوٹی تھی تو میں ایک ٹام بوائے کی طرح تھی۔ دیواروں پر چڑھنے، دوڑنے اور بھاگنے میں مجھے مزا آتا تھا۔ تو جب پہلی بار ماہواری ہوئی تو کسی نے بتایا نہیں تھا مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔‘
’تو میں ڈر گئی اور میں پورا دن اپنے کپڑے دھوتی رہی۔ میں ہر 15 سے 20 منٹ بعد بھاگ کے واش روم جاتی تھی اور چینج کر کے پھر آ جاتی تھی، پھر امی کو شک ہوا اور میرے بتانے پر انھوں نے مجھے کہا کہ کوئی بات نہیں سب کو ہو جاتا ہے یہ نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں ہے۔‘
’ہم بہن بھائی آپس میں بہت قریب تھے۔ میرے سے چھوٹا میرا بھائی تھا، ہم آپس میں ہر بات کا تبادلہ کرتے تھے تو میرے لیے بڑی عجیب بات تھی کہ میرے ساتھ اتنا کچھ ہو گیا اور ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اس کو بتاؤں ہی ناں۔ مجھے اس میں انتہائی رازداری محسوس ہوئی کہ یہ کچھ ایسا خفیہ ہے جو کسی کو بھی نہیں بتانا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس حوالے سے اُنھیں یہ بھی فکر رہتی تھی کہ پیریڈز ’ہوں گے تو مصیبت نہ ہوں تو مصیبت۔ مہینے کے تین ہفتہ آپ ٹھیک ہیں اور ایک ہفتہ ایسا کہ سکول تک جانے کا دل نہیں کرتا۔ شدید کھنچاؤ ہو رہا ہے اور کسی کو بتا بھی نہیں سکتے۔‘
'دوست کو پیریڈز شروع ہوئے تو وہ سمجھی کہ اس کے گردے پھٹ گئے ہیں'
ماہواری کو چھپانے سے متعلق یہ ایک اکیلی فارحہ کی کہانی نہیں بلکہ انٹرنیٹ کے دور سے پہلے بچیوں کو عموماً ماہواری سے متعلق پتا ہی تب چلتا تھا جب ان کو ماہواری شروع ہوتی۔ پھر اپنے جسم کے تولیدی اعضا سے متعلق بات چیت بھی گویا شجرِ ممنوعہ تھی۔
فارحہ بتاتی ہیں کہ کم عمر بچیوں میں حیض شروع ہونے پر سب سے پہلا ردِعمل ایک شدید ڈر کا ہوتا ہے کہ نہ جانے انھیں کون سی بیماری ہو گئی ہے تو ساتھ ہی لاشعور میں ڈانٹ پڑنے کا خوف بھی موجود ہوتا ہے، تو سوچیے کہ ایسی صورتحال میں بچی کس کو بھلا کیا اور کیونکر بتاتی۔
’میری ایک دوست کو ماہواری شروع ہوئی تو وہ سمجھی کہ اس کے گردے پھٹ گئے ہیں۔ وہ اتنا ڈر گئی اور اسے محسوس ہوا کہ اس کی ماں اسے ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر نہیں جا رہیں اور یہ کہ اب وہ کچھ دنوں کی مہمان رہ گئی ہے اور اب وہ مر جائے گی۔‘
’اسی طرح ایک دوست کو ماہواری شروع ہوئی تو اس کی کزن نے کہا کہ تم کو ایک خطرناک بیماری شروع ہو گئی ہے اور تم نے کسی کو نہیں بتانا، اب تم سٹور میں بند رہو۔ وہ صبح سے رات تک ڈر کے مارے سٹور میں بند رہی کہ نہ جانے اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘
ایک تو جسم سے خون کا اخراج اور دوسرا کسی کو نہ بتانے کی تنبیہ۔ اس چھپنے چھپانے کے عمل میں بچیاں اس کم عمری میں انتہائی شش و پنج کا شکار رہتی ہیں۔
فارحہ کے بقول انھیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ انھوں نے ایسا کیا غلط کیا ہے کہ انھیں اپنی حالت اپنے بھائی اور انتہائی شفیق ماموں سے بھی چھپانے کا کہا جا رہا ہے۔
’لڑکوں کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ ان کی پیدائش کی وجہ یہ ہے‘
فارحہ کہتی ہیں کہ اس وقت تقریباً سب ہی بچیوں کی کہانی ایک سی ہوتی تھی لیکن جب ان کی اپنی بچیوں کی بلوغت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے تہیہ کیا کہ وہ اپنی بچیوں کو خواہ مخواہ کے اس تکلیف دہ تجربے سے نہیں گزرنے دیں گی، جس کا سامنا اُن کے دور کی بچیوں کو زبردستی کروایا جاتا تھا۔
انھوں نے اپنی بچیوں کو وقتاً فوقتاً سمجھانا شروع کیا تاکہ ماہواری شروع ہونے پر وہ گھبرانے اور ڈرنے کے بجائے ان سے یا اپنے والد سے بات کر سکیں۔
’مجھے لگتا ہے کہ بچوں کو سمجھانے سے ان میں اپنے اندر اعتماد آ جاتا ہے اور اس کی خود سے چھپنے والا احساس بھی کم ہو جاتا ہے۔ تو اس طرح انھیں پتا ہو گا کہ یہ ایک نارمل چیز ہے۔
’اس کو چھپانے کے لیے لڑکیوں کو خواہ مخواہ رمضان میں سحری میں اٹھ کر ایکٹنگ نہیں کرنی۔ لڑکوں کو بھی پتا ہونا چاہیے کہ ان کی پیدائش کی وجہ یہ ہے۔ تو زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اور مثبت طریقے سے سماج کو تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ گھروں میں اس حوالے سے کھل کر بات کی جائے۔‘
’ماہواری کو فطری عمل سمجھیں‘
فارحہ اور مریم کے ساتھ گفتگو میں فارحہ کے بیٹے محمد عزیز بھی شامل رہے جنھوں نے بہت اعتماد سے خواتین کی ماہواری سے متعلق بات بھی کی اور ہمیں بتایا کہ کس طرح وہ اپنی بہنوں کا حیض کے دوران زیادہ خیال رکھ سکتے ہیں۔
’جب میری بہن کو پیریڈز شروع ہوئے تو مما نے اکیلے مریم کو نہیں بلکہ ہم سب کو بتایا اور کہا کہ اس صورتحال میں کس کو کیا کرنا ہے اور کس طرح مجھے اپنی بہن کی مدد کرنی ہے۔ ہمارے گھر میں ہم باآسانی ایک دوسرے سے بات شیئر کر لیتے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے کچھ چھپانا نہیں ہوتا۔‘
’کبھی گھر میں امی بابا نہیں ہوتے اور بہن کو سینیٹری پیڈز منگوانے ہوتے ہیں تو میں وہ بھی لا دیتا ہوں۔‘
فارحہ یوسف کا کہنا ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب ہر لڑکے کو پتا چلتا ہے تو بجائے اس سے کہ لڑکی اپنے ہی گھر میں بہت چھپ کر رہے۔ جس وقت آپ اپنی بچی کو بتائیں اس وقت اپنے بیٹے کو بھی بتائیں تاکہ وہ اپنی بہن کا خیال رکھ سکے اور اس کو عجیب نہ لگے، بلکہ وہ اسے عام فعل سمجھے۔
فارحہ کی اسی بات پر ہم نے پاکستان میں خواتین کے حقوق اور صنفی مسائل پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’عکس‘ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تسنیم احمر سے جانا کہ آخر بچیوں کے ساتھ بچوں کو ماہواری کے قدرتی عمل سے متعلق آگاہی دینے سے کیا مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔
تسنیم احمر کا کہنا تھا کہ ’یہ نظام خواتین نے خود اپنے لیے نہیں بنایا بلکہ اس جسم میں پیدائشی طور پر یہ نظام قدرت نے ڈالا ہے جس کا ایک خاص مقصد ہے۔ اس میں نہ شرم ہے نہ بے حیائی۔ سب بچیوں کو آٹھ نو سال کی عمر سے نہ صرف سمجھانے کی ضرورت ہے بلکہ ضرورت ہے کہ بچیوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی اس بارے میں سمجھایا جائے تاکہ معاشرے میں توازن آ سکے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’لڑکوں کو ضرور والدین کی جانب سے بتانا، سمجھانا بہت ضروری ہے تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ عورت کے اندر اگر ماہواری کا نظام ہے تو وہ خود قدرت نے اس کے اندر رکھا ہے اور اگر یہ نظام نہ ہوتا تو زندگی بھی شاید آگے نہ بڑھتی۔
’ماہواری ایک بیماری نہیں بلکہ ایک قدرتی عمل ہے جو ہر ماہ ایک خاص عمر سے ایک خاص عمر تک ہوتی ہے تاکہ وہ بچیاں جو مخلوط نظام تعلیم میں پڑھتی ہیں یا جو ایک خاندانی نظام میں بھائیوں اور والد کے درمیان ہوتی ہیں ان کو ماہواری کے دوران اپنی مختلف کاموں کو ترک کرنے کے لیے بہانے نہ بنانے پڑیں اور نہ ہی وہ گھبراہٹ کا شکار ہوں۔‘
’جب تک اس پر بات نہیں ہو گی اور اس کو زندگی کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا تب تک الجھنیں بڑھتی رہیں گی۔ وقت آ گیا ہے کہ ماہواری کے بارے میں شرم و حیا اور مصنوعی پردے کو اتار پھینکا جائے اور قدرتی نظام کے بارے میں کھل کر بات کی جائے تاکہ زندگی آسان بن سکے۔‘
ماہواری کی شروعات ایک خوفناک تجربہ بھی بن سکتا ہے‘
شفا ہسپتال اسلام اباد کے ماہر نفسیات ڈاکٹر محبوب یعقوب کا کہنا ہے کہ ماہواری سے متعلق بچیوں کو وقت پر شعور دینا بہت ضروری ہے۔ ’ان میں یہ اعتماد دینا کہ یہ ایک نارمل عمل ہے اور اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں، بہت اہم ہے۔ ایسا کرنے سے لڑکیوں میں ان کی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ماہواری سے متعلق وقت پر آگاہی نہ دینے سے بچیوں کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے اور بڑے ہوتے ہوتے ان کو ذہنی دباؤ اور اضطراب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کئی بار ماہواری شروع ہونے کا وقت بچیوں کے لیے ایک خوفناک تجربہ بھی بن سکتا ہے۔ جو خوف اور ہچکچاہٹ کی صورت میں ساری عمر ان کے ساتھ چل سکتا ہے۔‘
تاہم ڈاکٹر محبوب یعقوب کے مطابق جہاں تک بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بیٹوں کو ماہواری سے متعلق سمجھانے کی بات ہے تو یہ گھر کے ماحول اور معاشرے میں ان بچوں یا لڑکوں کا خواتین کے لیے معاشرے میں عزت و احترام بڑھنے میں مدد دے سکتا ہے مگر یہ اس بات پر منحصر ہے کہ فیملی کیسی ہے اور خاندان کا ڈھانچہ کیسا ہے۔
’بیٹوں اور بیٹیوں کو ماہواری سے متعلق سمجھانے میں مجموعی طور پر تو اچھا اثر پڑ سکتا ہے تاہم یہ بات ہرگز اتنی سادہ نہیں۔ آپ معاشرے کے کس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ کے عموماً رسم و رواج اور روایات کیسی ہیں ان کو مدِنظر رکھنا بھی اکثر لوگوں کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔‘