- · 1 friends
-
L

گھر کی بات
السلام علیکم، امی!مریم نے گھر میں داخل ہوتے ہی پُرجوش آواز میں سلام کیا۔ اس کے پیچھے اس کے دونوں بیٹے بھی تھے۔ گھر میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ نانو کہاں ہیں؟ بچوں نے مریم سے سوال کیا ادھر ہوں بیٹا! ماریہ بیگم نے کچن سے باہر آتے ہوئے کہا بچے لپک کر نانو سے لپٹ گئے۔ ماریہ بیگم نے بچوں کو خود میں سمیٹ لیا، اور باری باری دونوں کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ارے ہماری باری کب آئے گی؟ یا پھر ایسے ہی لائن میں لگے رہیں گے؟ مریم نے ناز سے کہا۔ارے بلونگڑو، تم نے تو مجھے اپنی بیٹی ہی بھلا دیا! نازیہ بیگم نے ہنستے ہوئے کہا اور مریم کو گلے لگا لیا۔ مریم نے محبت سے اپنی ماں کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔اتوار کو اتنی خاموشی؟ سب کہاں ہیں؟مریم نے اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔تمہارے ابو قریبی مارکیٹ سے سودا سلف لینے گئے ہیں، کرن کے سر میں درد ہے، وہ اندر لیٹی ہوئی ہے۔ تمہارے بھائی بچوں کو سکول چھوڑنے گئے ہیں۔ماریہ بیگم نے فرداً فرداً سب کے متعلق بتایا۔بھابھی میکے چلی گئیں؟ میں نے تو پہلے کال کرکے اپنے آنے کی اطلاع دی تھی۔ پورے دن بعد آئی ہوں میکے! مریم قدرے خفا ہوئی۔اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میرے آنے کی خبر سن کر بھابھی میکے چلی جائیں گی، تو میں تو اطلاع دیتی ہی نہیں! لاڈلی اور جلدباز مریم ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔ارے بیٹا، سانس تو لو۔ آتے ہی موڈ خراب کر لیا! ماریہ بیگم نے ہنستے ہوئے کہا، میں نے تمہیں بتایا تھا کہ تمہاری بھابھی کی بہن کوئٹہ سے آئی ہوئی ہے۔ پرسوں اس کی واپسی ہے۔ آج اتوار ہے، سب بہن بھائی اکٹھے ہو کر وقت گزار رہے ہیں۔ باقی تو اسی شہر میں ہوتے ہیں، یہ بہن کوئٹہ میں رہتی ہے۔ پروین بیچاری روز روز تو نہیں آتی۔تمہاری بھابھی تو کہہ رہی تھی کہ آج مریم آ رہی ہے، میں شام کو چلی جاؤں گی۔ رات کے کھانے پر سب بہن بھائیوں سے ملاقات ہو جائے گی۔ میں نے بہو سے کہا، تم چلی جاؤ، مریم ناراض نہیں ہوگی۔ میری بیٹی سمجھدار ہے، رشتے جوڑنا خوب جانتی ہے۔ماریہ بیگم نے بیٹی کی بدگمانی دور کرتے ہوئے نرمی سے سمجھایا اور ساتھ ہی محبت بھرے انداز میں تھوڑا مکھن بھی لگا دیا۔وہ تو میں واقعی ہوں! سدا کی جلدباز مریم نے مسکراتے ہوئے کہا۔اپنا داؤ چلتا دیکھ کر ماریہ بیگم بھی متانت سے مسکرا دیں
ماریہ بیگم اور فرید صاحب کے تین بچوں میں مریم سب سے بڑی تھی۔ اس کے بعد یاسر اور پھر کرن کا نمبر آتا تھا۔ مریم نہ صرف ننیہال بلکہ ددھیال میں بھی پہلی بچی ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلی رہی۔ سونے پہ سہاگہ، سسرال میں بھی اکلوتی بہو ہونے کی وجہ سے اسے بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔ اسی وجہ سے بعض اوقات اس میں خود پسندی آ جاتی تھی۔ دوپہر کے کھانے میں ماریہ بیگم اور کرن نے بہت اہتمام سے کھانا تیار کیا۔ چکن بریانی، ساتھ میں بچوں کی پسندیدہ رس ملائی، رائتہ اور سلاد سمیت کئی لوازمات، اور ماریہ بیگم کے ہاتھ کی نرم نرم چھلکوں والی روٹیاں۔ سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔کھانے کے بعد بچے اور کرن موبائل پر مصروف ہو گئے۔ فرید صاحب قیلولے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ماریہ بیگم برتن دھونے کے ارادے سے باورچی خانے کی طرف بڑھیں تو مریم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ بٹھا لیا۔ارے امی، بیٹھیں تو سہی۔ برتن بعد میں دھل جائیں گے۔ ہم ماں بیٹی کچھ گپ شپ کر لیتے ہیں۔ماریہ بیگم خاموشی سے بیٹھ گئیں۔امی، آپ کو معلوم ہے؟ اس دفعہ میری ساس اپنی تینوں بیٹیوں، دامادوں اور نواسوں کے لیے گرمیوں کے کپڑے بھجوا رہی ہیں۔ وہ بھی مشہور لان برانڈز کے! اور بھی بہت سی چیزیں آ رہی ہیں۔ امی، آپ بھی اس بار میرے سوٹ کے ساتھ فہد کے لیے بھی ایک سوٹ بھجوا دیں۔ اپنے نواسوں کے لیے تو آپ ضرور کچھ بھیجیں گی نا؟آخرکار مریم نے بات کہہ ہی دی۔بیٹا، تمہارے سسرال اور میکے کے معاشی حالات میں بہت فرق ہے۔ تمہاری ساس کو تمہارے مرحوم سسر کی پنشن کے ساتھ مارکیٹ میں موجود چار دکانوں کا کرایہ بھی ملتا ہے۔ احمد بھی اچھی پوسٹ پر ہے۔ اس کی تنخواہ تمہارے ابو اور یاسر کی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ وہ صاحبِ حیثیت لوگ ہیں، ہمارا ان سے کیا مقابلہ؟ بیٹا، بیاہی بیٹیوں کو عید پر دینا دلانا تو ہوتا ہے، مگر گرمیوں کے لیے الگ سے دینا ہمارے لیے آسان نہیں۔ ویسے بھی کئی سالوں سے عید گرمیوں میں ہی آ رہی ہے، اس لیے ہم تو عید پر ہی لان کے سوٹ دے دیتے ہیں۔ تم تو جانتی ہو، تمہارے ابو اور یاسر کی آمدنی سے گھر کا گزارا ہی مشکل سے ہوتا ہے۔یاسر خود بال بچوں والا ہے۔ بچوں کے ہزاروں اخراجات ہوتے ہیں۔ شکر ہے ہماری بہو بھلی ہے، اس نے اپنے پیسوں کو کبھی الگ نہیں کیا۔تمہاری خالہ اگلے سال کرن کی شادی کی بات کر رہی ہیں۔ اس کا جہیز بھی تیار کرنا ہے۔ تم مہنگائی کا حال تو دیکھ ہی رہی ہو، جیسے عفریت بن کر ہر چیز کو نگلنے پر تلی ہو۔ایسی مہنگائی میں بیٹی کا فرض خوش اسلوبی سے پورا ہو جائے، یہ بھی اللہ کا بہت بڑا کرم ہے۔ماں کی باتیں سن کر مریم پریشان ہو گئی۔امی، میری ساس کیا کہیں گی؟ ایک ہی پیاری بہو ہے، اور اگر ایسے بھی گفٹ نہ دے سکے تو؟ میری ساس تین تین بیٹیوں کو اتنا کچھ دیتی ہیں…مریم کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔ارے بیٹا، تمہاری ساس بہت اچھی اور سمجھ دار خاتون ہیں۔ میں تو روز اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میری بیٹی کے سسرال والے نہ صرف کھلے ہاتھ والے ہیں بلکہ کھلے دل والے بھی ہیں۔ تمہاری ساس نے تمہیں کبھی پہننے اوڑھنے میں کمی نہیں دی، اپنی بیٹیوں اور تم میں کوئی فرق نہیں رکھا۔نہ ہی تمہارے میکے سے کسی بات کا گلہ شکوہ کیا۔ بیٹا، اچھے اور خاندانی لوگوں کی یہی پہچان ہے۔ مانا کہ دنیا میں اچھے لوگ کم رہ گئے ہیں، لیکن تمہاری ساس اور شوہر انہی نیک لوگوں میں سے ہیں۔ بیٹا، اللہ کا شکر ادا کیا کرو، حالات جو بھی ہوں، اللہ تمہارے ساتھ ہے۔ماریہ بیگم نے بیٹی کے چہرے پر نگاہ ڈالی تو دل پسیج گیا۔اچھا بیٹا، تم پریشان نہ ہو۔ تمہارے ابو اور میں کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔ ان شاء اللہ ہو جائے گا۔ماریہ بیگم نے دل میں جوڑ توڑ کرتے ہوئے اپنی پریشانی کو چھپا لیا۔
بیگم، آپ کے شاہی ملبوسات سال کے بعد آ ہی گئے۔ لگتا ہے اس دفعہ ماسٹر صاحب نے سونے کے تاروں سے سلائی کی ہے۔ سلائی کی ادائیگی کرتے ہوئے مجھ ناچیز کی جیب خالی ہو گئی۔فہد نے مسکراتے ہوئے کپڑوں والا تھیلا مریم کے ہاتھ میں تھمایا۔ مریم فوراً کپڑے دیکھنے لگی اور ساتھ ساتھ تبصرہ بھی کرتی گئی۔ فہد اور اس کی امی، مریم اور بچوں کی کیفیت دیکھ کر مسکرا دیے۔ارے یہ کیا کر دیا؟ مریم نے دردناک چیخ ماری۔ ارے ستیا ناس ہو گیا! یہ کس کے ناپ کا سلائی کر دیا ہے؟ لگتا ہے ماسٹر صاحب اب سٹھیا گئے ہیں۔مریم نے اسٹائلش سی گہری سبز رنگ کی سوٹ کو ساس اور شوہر کے سامنے پھیلایا، جو اس کے باقی سوٹوں کے سامنے خاصا چھوٹا اور چست لگ رہا تھا۔ارے ارے، یہ تو کاکی باجی (بڑی نند کوکب) کا لگ رہا ہے، جو ویسے ہی بہت دبلی پتلی ہیں۔ کمزوری کی وجہ سے کوکب سے کاکی بن گئی ہیں۔واقعی بیٹا، ایسا ہی لگ رہا ہے۔ ساس نے ہنسی چھپاتے ہوئے کہا۔آنٹی، یہ اتنا پیارا سوٹ تھا۔ میری امی نے دیا ہے، ڈیزائنر سوٹ! لگتا ہے ماسٹر صاحب واقعی بوڑھے ہو گئے ہیں۔ آپی کے ناپ کا سی دیا ہے!ہاں بیٹا، اس دن تم دونوں ساتھ ہی تو گئی تھیں ماسٹر صاحب کو کپڑے دینے۔ انہوں نے کوکب کا سمجھ کے اس کے ناپ کا سلائی کر دیا ہوگا۔بہو کی صدماتی کیفیت دیکھ کر ساس نے تسلی دینا ضروری سمجھا، جب کہ فہد مسکراہٹ دباتے ہوئے وہاں سے رفوچکر ہو گیا، کیونکہ اسے علم تھا کہ ماسٹر صاحب پر نکالنے والا غصہ اب اسی غریب پر نکلے گا۔میری امی نے مجھے اتنا پیارا سوٹ کتنے ارمانوں اور محبت سے دیا ہوگا۔ اگر ذرا سا ڈھیلا ڈھالا ہو جاتا تو دوبارہ بنوا لیتی، مگر یہ تنگ سوٹ اب کس کام کا؟ مریم نے اپنے فربہ سراپے پر نظر دوڑاتے ہوئے افسوس سے سوچا۔چھریرا بدن رکھنے والی مریم، اب دو بچوں اور اچھی خوراک کے سبب بھاری بھرکم لگنے لگی تھی۔ ضرور امی نے اپنی لاڈلی بہو کو دکھایا ہوگا، اس نے نظر لگا دی ہوگی میرے سوٹ کو! حاسد نہیں تو اور کیا؟ اسی کی نظرِ بد نے میرا سوٹ برباد کر دیا۔ ہائے میری امی نے کتنی محبت اور ارمانوں سے خریدا ہوگا!پتا نہیں، امی اور کرن نے اپنی کتنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر اس لاڈلی کی خواہش پوری کی ہو گی۔قارئین! کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا