·
Added a post

حمدہ ایک کامیاب عورت تھی۔ شہر کے بہترین اسکول کی پرنسپل، ہر میٹنگ کی سربراہ، ہر فائل پر دستخط کرنے والی اولین اتھارٹی۔لیکن اس کے گھر میں ایک کرسی ہمیشہ خالی رہتی تھی — وہ جس پر کبھی شریکِ حیات بیٹھا کرتا تھا، جو اب صرف شام کے اخبار کے نیچے دبی پڑی تھی۔عباس، اس کا شوہر، ایک چھوٹی سی دکان چلاتا تھا۔

نہ وہ دکان کی رونق تھا، نہ گھر کا چراغ۔بس ایک سایہ تھا جو حمدہ کی چمکدار شخصیت کے پیچھے چھپتا چھپتا، اب خود کو بھی کھو چکا تھا۔حمدہ نے ہمیشہ سمجھا کہ عزت پیسوں سے آتی ہے، محبت مقام سے، اور رشتے صرف ذمہ داریوں کے پتے ہوتے ہیں — جو وقت آنے پر جھڑ جاتے ہیں۔وہ بن سنور کر اسکول جاتی، میٹنگز میں سراہا جاتا، واپسی پر اپنے ہی لہجے کی اکڑ میں بچوں کو ڈانٹتی۔گھر میں کوئی اس سے بحث نہیں کرتا تھا — شاید ہمت نہیں ہوتی تھی، یا شاید اب کسی کو فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ایک روز عباس نے صرف اتنا کہا:چائے، ذرا کم پتی والی بنا دو، حمدہ۔وہ پھٹ پڑی۔گویا اس نے اس کے تخت پر بغاوت کی ہو۔اب چائے بھی میں بناؤں؟ خود کر لو، کچھ سیکھو! سب کچھ میں ہی کروں؟عباس خاموش رہا، جیسے ہمیشہ سے رہتا آیا تھا۔پھر دکان چلا گیا، جیسے ہر روز جاتا ہے۔

بس آج فرق صرف اتنا تھا کہ جاتے جاتے اس نے ایک نظر اس خالی کرسی پر ڈالی، جہاں کبھی حمدہ اس کے ساتھ چائے پیا کرتی تھی — بہت پرانی بات ہے، شاید اس وقت جب پیسے نہیں تھے، لیکن سکون تھا۔کبھی کبھی رشتے خالی کرسیوں کی طرح ہو جاتے ہیں — موجود ہوتے ہیں، بس بیٹھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔بھلے وقتوں میں اماں کہا کرتی تھیں:کمانے والی اور روپے پیسے والی عورت ہرگز بُری نہیں ہوتی — مگر صرف مال داری سے کسی کی خوبی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔جو عورت پیار سے بات کرے، زمین پر قدم جما کر رکھے، رشتوں کو نبھائے — وہی اصل میں ‘عظیم’ ہوتی ہے۔اور جو صرف باتیں بنائے، طنز کرے، اپنی بڑائی جتائے — ان کے پاس اکثر کم ظرفی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ایسی عورت کا دامن بھی خالی ہوتا ہے، اور دل بھی۔تجارت تو حضرت خدیجہؓ نے بھی کی تھی۔وہ مال دار تھیں، خود مختار تھیں، لیکن ان کی دولت کبھی ان کے مزاج پر حاوی نہ ہوئی۔بلکہ انہوں نے اپنے مال کو اللہ کے رسول ﷺ کے مشن پر نچھاور کر دیا —نہ صرف مالی طور پر، بلکہ جذباتی طور پر بھی وہ ان کی سب سے بڑی ڈھال تھیں۔

وہ دولت سے نہیں، کردار سے عظیم تھیں۔عباس صاحب تو شاید بے مقصد ہی جئے جا رہے تھے-

سامنے ہی عائشہ نئی پڑوسی چلی آرہی تھیں سامنے والا ” ولا ” انہوں نے ہی خریدا تھا۔السلام علیکم ! ان بیوہ خاتون میں الگ طرح کا سلیقہ تھا، جمے ہوئے بال سفید لباس اور چہرہ صاف شفاف باتوں باتوں میں پتا چلا کہ یہ “ولا ان کی ملکیت نہیں ہے بلکہ ان کے بھتیجے کا ہے انہوں نے بس رہائش کے لئے لیا ہے ایک آدھ بار گھر آئیں تو جیسے دنیا باغ و بہار ہوگئی ہو۔ دھیما لہجہ اور رکھ رکھاؤ-کیا خاتون ہیں قسمت والوں کو ملتی ہیں ایسی خواتین۔ انہوں نے مکدر دل کے ساتھ حمدہ کو دیکھ کرسوچا- عائشہ کافی سمجھ دار خاتون ہیں ۔ اتنا بولنا تھا کہ ہم پھوٹ گیا جسے سارا ملبہ ان پر گر چکا تھا۔کیا دیکھ لیا اس کے محتاج صورت میں, جو لگے ہیں تعریفوں کے پل باندھنے۔مسز حمدہ نے اسکول کے طرز پر ہی تقریر شروع کر دی۔ ان کا لہجہ بالکل ویسا ہی تھا جیسے اسمبلی میں کسی نافرمان طالبعلم کو ڈانٹا جاتا ہے۔ وہ مسلسل عباس صاحب کو گھورتی جا رہی تھیں، جیسے ان کی نظروں میں ایک ہی مطالبہ چھپا ہو — اپنی غلطی تسلیم کرو، ورنہ نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار رہو۔ جملے ایک کے بعد ایک یوں برس رہے تھے جیسے ہدایت نامے بورڈ پر چسپاں کیے جا رہے ہوں۔ تمہارا رویہ ناقابلِ برداشت ہے، تمہارے عمل سے نظام میں خلل آیا ہے، اگر آئندہ ایسا ہوا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے پاؤں اٹھا کر سیدھا گردن پر رکھتے ہوئے کہا کہ اب عائشہ بی بی کے اردگرد نہ دیکھوں۔ ان کے لہجے میں ذاتی کمائی کا غرور بول رہا تھا، جیسے کہہ رہے ہوں کہ خرچا کھانا بند ہو جائے گا۔ پھر ایک لمحے کو رک کر گویا فیصلہ سنا دیا کہ آپ اپنا خرچا پانی اپنے پاس رکھیں، میں معمولی کماتا ہوں مگر رہوں گا اپنی مسز کے ساتھ۔ حمدہ، میں نے عائشہ سے نکاح کر لیا ہے۔ وہ ایسی عورت ہے جو میری محتاج رہے گی، اور میں اس کی محبت کا محتاج رہوں گا۔ بس یہی کافی ہوگا میرے لیے۔ ان کے لہجے میں سکون تھا، جیسے برسوں کا بوجھ اتار دیا ہو۔

بچوں کو میرے خلاف کرنا ہو تو کر لیجیے گا۔ وہ میرے حال سے واقف ہیں، اعتراض کریں بھی تو کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ اپنے اخراجات کے لیے آپ کے محتاج ہیں، میرے نہیں۔ اتنا صاف عباس صاحب پہلی بار بولے تھے۔ حمدہ حیران رہ گئی تھیں۔ وہ تو کامیاب عورت تھیں، نا کام کیسے ہو گئیں؟ عباس صاحب جاتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ کامیاب عورت وہ ہے جس نے اپنی محبت میرے نام کر دی، مجھے کچھ جتایا نہیں۔ اور نا کام صورت حمدہ ہے جس نے محبت کرنا سیکھا ہی نہیں۔ وہ پیسوں کے حساب سے کامیاب ہوگی، محبت میں نہیں۔