·
Added a post
·

ویب سائٹ پر پہلی بار 28 فروری 2020 کو پیش کی گئی تھی، جسے آج قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

28 فروری 2019 کو جب ابھینندن ورتمان کی اہلیہ تنوی ماروا کے موبائل فون پر سعودی عرب کے نمبر سے ایک کال آئی تو وہ حیران بھی ہوئیں اور پریشان بھی کیونکہ دوسری جانب سے لائن پر انھیں پاکستانی جیل میں قید ان کے شوہر ونگ کمانڈر ابھینندن کی آواز سنائی دی۔

آئی ایس آئی کی جانب سے یہ کال سعودی عرب سے روٹ کی گئی تھی۔

مبینہ طور پر ایک جانب پاکستانی اہلکار ابھینندن پر گھونسوں کی بوچھاڑ کر رہے تھے تو دوسری جانب ان کا ہی ایک آدمی ابھینندن کی اہلیہ سے فون پر ان کی بات کروا رہا تھا۔ جاسوسی کی دنیا میں اسے 'گڈ کاپ، بیڈ کاپ' تکنیک کہا جاتا ہے اور اس کا مقصد کسی شخص سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔

پھر اسی روز عمران خان نے پاکستانی پارلیمان میں اعلان کیا کہ ان کا ابھینندن کو قید میں رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، وہ اسے چھوڑ رہے ہیں۔

پاکستانی ارکانِ پارلیمان نے ویسے تو تالیاں بجا کر ان کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا لیکن کئی حلقوں میں سوال بھی اٹھے کہ کیا یہ سمجھداری کا فیصلہ ہے؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلےابھینندن کی رہائی کا عندیہ دیا تھا

دوسری جانب انڈیا کے سیاسی رہنماؤں نے یہ تاثر دینے میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ عمران خان نے انڈیا کے سخت رخ سے گھبرا کر یہ قدم اٹھایا ہے۔

انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کے صدر امت شاہ نے پانچ مارچ کو ریاست جھارکھنڈ کے ایک انتخابی جلسے میں کہا کہ 'انھوں نے ہمارے پائلٹ کو پکڑا لیکن مودی جی کی وجہ سے انھیں 48 گھنٹے کے اندر چھوڑنا پڑا۔'

امت شاہ کے اس بیان سے پہلے ہی عندیہ ملنے لگا تھا کہ ابھینندن کو چھوڑا جانے والا ہے۔

28 فروری کو ہی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کرنے ہنوئی پہنچنے والے امریکی صدر ٹرمپ سے جب صحافیوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ 'میں سمجھتا ہوں جلد ہی آپ کو پاکستان سے ایک اچھی خبر سننے کو ملے گی۔ ہم اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جلد ہی یہ حل ہو جائے گا۔'

اور صدر ٹرمپ کے اس دعوے کے چند گھنٹے بعد ہی پاکستان نے ابھینندن کو انڈیا کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔

شہزادہ سلمان کا اہم کردار

اس معاملے میں امریکہ کے علاوہ سعودی عرب نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ پلوامہ حملے کے بعد سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے پاکستان کا دورہ کیا پھر انڈیا کا۔

انڈیا کے دفاعی ماہرین کے خیال میں ان دوروں کے دوران شہزادہ سلمان نے سفارتی لحاظ سے ایک تنی ہوئی رسّی پر چلتے ہوئے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں تعاون کی تعریف کی وہیں انڈیا میں انھوں نے وزیر اعظم مودی کی اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا کہ دہشتگردی کو کسی بھی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

یہی نہیں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اسلامی ممالک کے اجلاس میں اس دوران انڈیا کی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بات کی لیکن انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس معاملے کے حل میں سعودی عرب کی دلچسپی کی وجہ کیا تھی۔

سعودی عرب میں انڈیا کے سفیر رہ چکے تلمیز احمد کا خیال ہے کہ 'سعودی عرب اپنے ایران مخالف اشتراک میں پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی انڈیا کو ایران سے دور کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔'

پاکستان نے سکیورٹی کونسل کے پانچ ممبران سے رابطہ کیا

بالاکوٹ میں انڈیا کے حملے کے بعد پاکستان نے دنیا کے بااثر ممالک اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبران سے رابطہ کر کے انھیں مطلع کیا کہ انڈیا بالاکوٹ حملے کے نتائج سے مطمئن نہیں ہے۔ اس کے بحری جہازوں نے کراچی کی جانب بڑھنا شروع کر دیا ہے اور وہ پاکستان پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ بھی کہ انڈیا اور پاکستان کی سرحد پر انڈیا کی فوجی سرگرمی تیز ہو گئی ہے۔ ان معلومات سے پریشان ہو کر متعدد ممالک نے انڈیا سے رابطہ کیا۔

انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’انڈیا نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ اصل میں اس کی بحری فوجیں کراچی کے بندرگاہ کی جانب نہیں بلکہ دوسری جانب جا رہی ہیں۔ ان ممالک کے پاس سیٹیلائٹس کے ذریعہ اس نقل و حرکت کو دیکھنے کی صلاحیت ہے اور وہ چاہیں تو پاکستان کے دعوؤں کی آزادانہ تفتیش کر سکتے ہیں۔

’ان ممالک نے انڈیا سے پوچھا کہ کیا وہ طیارے کو گرائے جانے اور انڈین پائلٹ کو پاکستان میں قید کیے جانے کے خلاف کارروائی پر غور کر رہا ہے تو انڈیا نے جواب دیا کہ گیند اب پاکستان کے کورٹ میں ہے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ کشیدگی کم ہو تو اسے اس بارے میں اقدامات کرنے ہوں گے۔ انڈیا نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر ابھینندن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو پاکستان کو نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔‘

انڈیا کی تنبیہ

یہی نہیں ’را‘ کے ڈائریکٹر انل دھسمانا نے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹنینٹ جنرل عاصم منیر سے بات کر کے ان پر واضح کر دیا کہ اگر ابھینندن کے ساتھ سختی برتی گئی تو پاکستان کو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اسی دوران قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے امریکہ میں اپنے ہم منصب جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائک پومپیو کو ہاٹ لائن پر بتایا کہ اگر ونگ کمانڈر ابھینندن کے ساتھ کوئی بھی بدسلوکی ہوتی ہے تو انڈیا کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔

اتنا ہی نہیں دووال اور دھسمانا نے متحدہ عرب امارات سے بھی بات کر کے انڈیا کی منشا واضح کر دی تھی۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں بلیک آؤٹ

اسی دوران پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو خفیہ معلومات ملیں کہ انڈیا 27 فروری کو رات نو سے دس کے درمیان پاکستان پر نو میزائلوں سے حملہ کرے گا۔

پاکستان نے اس کا جواب دینے کے لیے انڈیا پر 13 میزائلوں سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسی دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے آس پاس 'بلیک آؤٹ' کرنے اور فضائی راستے بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔

سعودی عرب کا سفارتی کردار

کشیدگی کے دوران سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ عادل الجبیر امن کا پیغام لے کر اسلام آباد گئے۔ اسی وقت انڈیا میں سعودی عرب کے سفیر ڈاکٹر سعود محمد نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی۔

پلوامہ حملے سے قبل مودی حکومت نے سعودی حکومت کو بہت زیادہ توجہ دینی شروع کر دی تھی۔ شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ذاتی تعلقات مضبوط ہو چکے تھے۔ جب پلوامہ حملہ ہوا تھا تو سعودی حکومت نے پاکستان کا ساتھ دینے کے بجائے ایک سخت بیان جاری کیا تھا۔

سفارتی معاملوں کے ماہر ہرش پنت نے بتایا کہ ’سعودی عرب نہیں چاہتا تھا کہ یہ معاملہ اتنا بڑھے اور اسے واضح طور پر دنیا کے سامنے انڈیا اور پاکستان میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا پڑے۔‘

ان کے مطابق ’حکمت عملی کے معاملوں میں پاکستان اور سعودی عرب کی سوچ ایک دوسرے سے بہت قریب ہے۔ سعودی عرب نے 'بیک چینل' سے کوشش کی کہ پاکستان اس معاملے کو مزید نہ بڑھنے دے۔ اس نے انڈیا سے بھی بات کی اور جب اسے انڈیا سے اس بات کے اشارے مل گئے کہ کوئی بیچ کا راستہ نکل آنے پر انڈیا کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، تو اس نے پاکستان سے رابطہ کیا۔

’اس نے پاکستان پر واضح کر دیا کہ اگر اس نے کشیدگی کم کرنے کی کوشش نہیں کی تو وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا نہیں رہ سکے گا۔'

پاکستان کو اسلامی ممالک کے درمیان تنہا ہو جانے کا خوف

ہرش پنت نے بتایا کہ 'سعودی عرب پر مغربی ممالک کا دباؤ تو تھا ہی، لیکن سعودی عرب کے اس موقف سے پاکستان کو لگا کہ وہ اسلامی ممالک کے درمیان اکیلا رہ جائے گا۔ پاکستان مغربی دباؤ برداشت کرنے کے لیے کسی حد تک تیار ہو سکتا تھا لیکن سعودی عرب کے خلاف کھڑا ہونے کا مطلب تھا کہ اسلامی ممالک بھی اس کا ساتھ دینے میں گھبراتے۔'

قومی سلامتی کے مشیروں کی کونسل کے رکن تلک دیویشور کا کہنا ہے کہ 'پاکستانی حکمران نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ اگر سٹینڈ آف بڑھتا ہے تو پاکستان کا ساتھ کون کون سے ممالک دیں گے۔ اگر ان کو یہ لگتا کہ اس معاملے میں مغربی یا اسلامی ممالک اس کا ساتھ دیں گے تو شاید کشیدگی کو اور بڑھانے کے بارے میں وہ سوچ سکتا تھا۔ لیکن جب انھیں لگ رہا ہو کہ اس معاملے میں اکیلا پڑ جانے کا خطرہ ہے تو ان کے سامنے ابھینندن کو چھوڑ کر کشیدگی کم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ '

·
Added a post
·

پاکستان کے ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں ایک فوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے پاکستانی فوج کے میجر سید معیز عباس شاہ کی نماز جنازہ راولپنڈی میں ادا کر دی گئی ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق راولپنڈی میں ان کی نماز جنازہ میں پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے بھی شرکت کی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق اس موقع پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ میجر سید معیز نے ’(شدت پسندوں کا) بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا‘ اور ’آخرکار لائن آف ڈیوٹی میں بہادری، قربانی اور حب الوطنی کی اعلی ترین مثال قائم کرتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔‘

میجر سید معیز کی میت نماز جنازہ کے بعد ان کے آبائی علاقے روانہ کی گئی جہاں ان کے تدفین ہو گی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں خفیہ اطلاعات پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن کیا گیا۔ فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے ’دہشتگردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا اور 11 دہشتگرد ہلاک اور سات زخمی ہوئے۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق شدید فائرنگ کے تبادلے میں آپریشن کی قیادت کرنے والے میجر معیز عباس شاہ اور لانس نائیک جبران اللّٰہ ہلاک ہو گئے ہیں۔

میجر سید معیز کون تھے؟

37 سالہ میجر سید معیز عباس شاہ کا تعلق پاکستان کے شہر چکوال سے ہے اور انھوں نے 2011 میں پاکستانی فوج میں کمیشن حاصل کیا۔

حکام کے مطابق ان کا کمیشنڈ یونٹ سیون این ایل آئی تھا۔ تاہم بعدازاں وہ پاکستان کے سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کا حصہ بن گئے اور اس وقت وہ وزیرستان میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔

میجر سید معیز چھ سال قبل اس وقت انڈیا اور پاکستان میں لوگوں کی نگاہوں میں آئے جب دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے اور پاکستان نے بالاکوٹ پر انڈین حملے کے بعد ’جوابی کارروائی‘ میں انڈیا کا ایک مِگ 21 جنگی جہاز مار گرایا تھا۔

27 جنوری 2019 میں ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ وہ دیگر فوجی اہلکاروں کے ہمراہ لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقے ہوڑاں میں طیارے سے نکل کر بچنے والے انڈین پائلٹ ابھینندن ورتھمان کو گرفتار کرنے پہنچے تھے۔

ہوڑاں سے تعلق رکھنے والے ایک شہری محمد رزاق چودھری نے ابھینندن کے جہاز کو تباہ ہوتے اور انھیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پیراشوٹ کے ذریعے اُترتے دیکھا تھا۔

انھوں نے اس وقت بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب وہ گاؤں کے دیگر لوگوں کے ہمراہ وہاں پہنچے تو وہاں جمع ہونے والا ہجوم انڈین پائلٹ پر ’پتھر برسا رہا تھا اور ابھینندن وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

ان کے مطابق ونگ کمانڈر ابھینندن فرار ہونے کی کوشش کے دوران قریبی نالے تک پہنچے تو ’لوگوں نے انھیں گھیرے میں لے لیا‘ لیکن اس وقت پاکستانی فوج کے اہلکار کیپٹن سید معیز کی قیادت میں وہاں پہنچ گئے۔

محمد رزاق چودھری کے مطابق ہجوم میں شامل بعض افراد نے انڈین پائلٹ ابھینندن کو ’مکے اور تھپڑ بھی مارے تھے۔‘

اس وقت وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ابھینندن کے چہرے پر خون ہے اور انھیں پاکستانی فوج کے اہلکار ہجوم میں سے نکال رہے ہیں۔

’ایسے افسران کی ہی وجہ سے پاکستانی اپنی فوج پر فخر کرتے ہیں‘

واقعے کو ایک سال مکمل ہونے پر میجر معیز نے پاکستانی چینل جیو نیوز کے میزبان حامد میر کو بتایا تھا کہ جب وہ انڈین پائلٹ کے قریب پہنچے تو وہاں شہریوں نے ابھینندن کو گھیرا ہوا تھا۔

حامد میر کے ساتھ ان کی یہ ویڈیو منگل کی شام سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں میجر سید معیز کہہ رہے ہیں کہ: ’یہ ایک مشکل علاقہ ہے اور اس طرح کے آپریشن ٹائم باؤنڈ ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم نے جلد از جلد پائلٹ کو گرفتار کرنا تھا اور ہماری ترجیح یہ تھی کہ ہم انھیں زندہ پکڑیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کیونکہ آپ پہلے ہی جانتے ہیں کہ انڈین میڈیا کتنا غیر ذمہ دار ہے۔ اگر یہ (پائلٹ) مر جاتا تو وہ یہ دعویٰ کرتے کہ وہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مر گیا تھا اور یہ (پاکستانی فوجی) اسے یہاں لے آئے ہیں۔‘

انھوں نے انٹرویو کے دوران مزید کہا تھا کہ جب وہ ابھینندن کے قریب پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ ’سویلین شہری ان پر کود پڑے اور انھیں مارنا شروع کر دیا۔‘

میجر سید معیز اس وقت کیپٹن کے عہدے پر فائز تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’جیسے ہی میں ان (انڈین پائلٹ) کے قریب پہنچا انھوں نے میرا رینک دیکھتے ہی بولا کہ کیپٹن میں انڈین ایئرفورس کا ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان ہوں اور میں سرینڈر کرتا ہوں، پلیز مجھے بچا لیں۔‘

’تو اس کے پیشِ نظر اب یہ (ابھینندن کی حفاظت) میری پیشہ ورانہ ذمہ داری تھی کیونکہ انھوں نے سرینڈر کر دیا تھا۔‘

خیال رہے کہ پاکستانی فوج کی تحویل میں ابھینندن کی ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں سوال پوچھے جانے پر ابھینندن اپنا نام اور رینک بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے اچھا برتاؤ کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی فوج نے میرا خیال رکھا ہے۔۔۔ شروع میں ایک کیپٹن نے مجھے ہجوم اور جوانوں سے بچایا۔‘

یاد رہے کہ پاکستان نے ایک روز بعد یعنی یکم مارچ کو ابھینندن کو رہا کر کے واہگہ بارڈر کے راستے واپس انڈیا بھیج دیا تھا۔

میجر سید معیز عباس شاہ نے سوگواران میں بیوہ اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین بھی میجر سید معیز کی ہلاکت پر افسوس اور ان کے ’وطن کی حفاظت کے جذبے‘ پر ان کی تعریفیں کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

حمزہ اظہر نامی صارف لکھتے ہیں کہ ’ایسے افسران کی ہی وجہ سے پاکستانی اپنی فوج پر فخر کرتے ہیں جو اپنے ملک کے لوگوں کی حفاظت کے لیے اپنے خون کی قربانی دیتی ہے۔‘

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک اور صارف لکھتے ہیں کہ ’دشمن کے پائلٹ کو پکڑنا ایک بڑا معرکہ تھا اور میجر معیز نے انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں یہ کارنامہ سر انجام دیا تھا۔‘

·
Added a post

جیا کو اس کی صورت سے بھی نفرت ہو چکی تھی، مگر اس لمحے اسے بچوں کی طرح بلکتا، روتا دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا۔ شاید میاں بیوی کا رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے، اس نے دل میں سوچا اور ماضی کی ہر بات کو فراموش کرکے اسے معاف کر دیا۔ ہا ہا، اس سے زیادہ گھٹیا اور کمزور انتقام ہو ہی نہیں سکتا تھا، یہ افسانہ نگار آخر اتنے بے وقوف کیوں ہوتے ہیں۔ فاطمہ نے افسانہ ختم کرتے ہی تبصرہ کیا۔کیوں بھئی، اب کون سا افسانہ برا لگ گیا جناب کو۔ ندا، جو پاس ہی بیٹھی تھی، مسکراتے ہوئے بولی۔ امی تو کہتی ہیں کہ یہ افسانے، کہانیاں سب زندگی کی کہانیاں ہوتی ہیں اور حقیقت کے قریب ہوتی ہیں، لیکن میں نہیں مانتی۔ بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ شوہر اتنا ظلم کرے، اور آخر میں معافی مانگے، اور آپ مہان دیوی بن کر اسے معاف بھی کر دیں۔ فاطمہ غصے سے بولی۔ابھی تم نے زندگی دیکھی ہی کتنی ہے، کیا پتا شادی شدہ زندگی میں ایسا ہی ہوتا ہو۔ ندا نے نرمی سے کہا۔ توبہ، توبہ، باز آئی میں ایسی شادی سے۔ فاطمہ نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔چپ کر جاؤ، مت بولا کرو اتنا فالتو۔ اللہ نہ کرے ایسا وقت آئے۔ ندا، جو فاطمہ سے صرف ایک سال بڑی تھی، اسے ڈراتے ہوئے بولی۔فاطمہ ڈر کے مارے ایک بار پھر کان پکڑ کر خاموش ہوگئی۔

حرا نے لکھتے لکھتے قلم ہاتھ سے رکھ دیا۔ اف، وہی پرانی کہانی! اب کیا آگے یہ لکھوں کہ فاطمہ کے ساتھ بھی یہی ہوا؟ نہیں، کچھ اور سوچنا پڑے گا۔ حرا اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ ایک افسانہ نگار تھی مگر اب کچھ نیا لکھنا چاہ رہی تھی۔ ایک ہی طرح کے افسانے لکھ لکھ کر وہ بور ہو چکی تھی۔ اس نے کہانی ادھوری چھوڑ دی۔ چند دن بعد اس نے دوبارہ کہانی کو آگے بڑھانا چاہا، مگر کامیاب نہ ہو سکی۔ اس دوران اس کی اپنی شادی طے پا گئی۔ پھر شادی کی تیاریاں، شادی، اور شادی کے بعد کی زندگی میں وہ ایسی مصروف ہو گئی کہ لکھنا لکھانا سب ایک طرف رہ گیا۔حرا، جو افسانے لکھنے میں ماہر تھی، اپنی زندگی کی ڈور کو بھی افسانوں کی طرح سلجھانے لگی۔ میاں کے دل میں جگہ بنانے کے ساتھ ساتھ ساس کا دل جیتنے کی کوشش میں لگی رہی۔ آخر کار اس نے پسندیدہ بہو کا درجہ حاصل کر لیا۔ ساس اس کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہ کرتیں۔ نندیں، دیور سب اس کے گن گانے لگے۔ وقت گزرتا گیا، اور حرا کو پتا ہی نہ چلا۔ آج جب اس نے آئینے میں خود کو غور سے دیکھا، تو احساس ہوا کہ پندرہ برس بیت چکے ہیں۔ اچھی بہو، اچھی بیوی، اچھی ماں اور بھاوج بننے کے چکر میں وہ خود کہیں کھو گئی تھی۔ وہ لڑکی جو کبھی خواب دیکھا کرتی تھی، ایک عورت میں بدل چکی تھی۔ ایسی عورت جس میں بظاہر کوئی چمک باقی نہ تھی۔ آئینے میں نظر آنے والی یہ عورت کون تھی؟ یہ حرا تو نہیں ہو سکتی۔ نہیں، یہ میں نہیں ہو سکتی۔ حرا اپنے خیالوں میں گم تھی کہ وسیم، اس کا شوہر، ایک عجیب بات کہہ کر اس کے سر پر بجلی بن کر گرا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اسے کوئی اور پسند آگئی ہے، اور شاید وہ دوسری شادی کر لے۔ کیوں؟ آخر میں نے آپ کے لیے کون سا کام نہیں کیا؟ ہر چیز وقت پر ملتی ہے، گھر صاف ستھرا رہتا ہے، امن اور سکون بھی ہے۔ آپ کو مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں رہی، پھر آپ نے ایسا کیوں سوچا؟ حرا سراپا سوال بن چکی تھی۔ کیوں؟ وسیم نے ایک نظر اس پر ڈالی۔ کبھی گھر اور کاموں سے ہٹ کر اپنے آپ کو بھی دیکھا ہے۔ ذرا آئینے میں دیکھنا، خود کو بھی کرتی ہو مجھ سے۔ وسیم نے گہرا سوال کیا۔ حرا آئینے میں خود کو دیکھ کر حیران تھی۔ یہ بے ڈھنگا سراپا، جگہ جگہ جھانکتے سفید بال، بے رنگ چہرہ۔ یہ میں ہوں، اس نے دوبارہ اپنے آپ سے پوچھا۔ کیا کرتی تھیں تمہاری ہیروئنیں، افسانہ نگار صاحبہ۔ آئینے میں کھڑی حرا نے خود سے سوال کیا۔ تو کیا میں بھی ایک افسانہ بن رہی ہوں۔ یہ سوچ کر اس نے جیسے خود کو نیند سے جگایا۔ دراز سے برسوں پرانی ڈائری نکالی۔ آخری صفحات پر فاطمہ کی ادھوری کہانی درج تھی۔اچھا، تو یہ کہانی ادھوری اس لیے تھی، اب مجھے فاطمہ بن کر اسے مکمل کرنا ہوگا۔ وہ سوچ کر مسکرائی، اور اپنے لیے کچھ باتیں نوٹ کیں۔ آج کی تاریخ درج کی، اور تین مہینے بعد اپنی شادی کی سولہویں سالگرہ کی تاریخ لکھ دی۔ نیچے ایک جملہ لکھا اور مسکراتے ہوئے پڑھا:ہاں، ایسا ہی ہوگا۔ اگلے ہی دن حرا نے خود کو بدلنے کا آغاز کر دیا۔ اپنے چہرے اور جلد کا خیال رکھا، بالوں کو ڈائی کروایا اور جدید طرز کی کٹنگ کرائی۔ ڈائیٹ پلان شروع کیا، بوتیک کے سروے کیے اور ایک اچھے ڈیزائنر سے اپنے لیے بہترین کپڑے تیار کروائے۔ اس دوران وسیم پر بھرپور توجہ دینا بھی شروع کر دی۔ نہ اس سے کسی لڑکی کے بارے میں سوال کیا، نہ کوئی شکایت۔ بس وسیم کی پسند کے کھانے بنائے، اس سے بے تکان باتیں کیں، اور رات کو واک پر ساتھ جانے لگی۔وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا۔ شادی کی سالگرہ میں اب پندرہ دن رہ گئے تھے۔ آج حرا نے آئینے میں خود کو دوبارہ غور سے دیکھا۔ یہ بدلی ہوئی حرا تھی۔ روزانہ ہلکا پھلکا تیار رہنا اس کا معمول بن چکا تھا۔ آج بھی وہ دونوں واک پر گئے ہوئے تھے۔ وسیم کافی الجھا ہوا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ جب وہ دوسری شادی کا سوچ رہا تھا تو اب حرا میں کوئی خامی نظر نہیں آ رہی تھی۔ پہلے تو عجیب بے ڈھنگی لگتی تھی، اب کیوں نہیں لگ رہی۔ وسیم اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں ناکام تھا۔ اصل میں حرا نے اتنی آہستگی سے اپنی زندگی میں تبدیلی لائی تھی کہ کچھ بھی اچانک نہیں ہوا۔ یہی بات وسیم کے لیے حیرانی کا باعث تھی۔  دو تین دن بعد ہماری شادی کی سالگرہ ہے۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اس بار سب کو بلالوں۔ آپ بھی جسے چاہیں انوائٹ کر لیں۔ حرا نے کہا۔جسے دل چاہے۔ وسیم نے جسے پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔ اس پر حرا مسکرا کر بولی، جی، جس کو بھی۔ وسیم نے دوستوں کے ساتھ ساتھ جہنم کو بھی بلا لیا۔ اچھا ہے، وہ سمجھ لے گی کہ میں دوسری شادی کا کیوں سوچ رہا ہوں۔ وسیم نے دل میں سوچا۔

کالی ساڑھی پہنے، موتیا کے پھولوں کا زیور سجائے، اور نئے انداز سے سیٹ کیے ہوئے بالوں کے ساتھ حرا نے آئینے میں ایک نظر خود کو دیکھا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا کہ تمہیں آج جیتنا ہے، ہر حال میں۔وہ وسیم کے ساتھ چلتی ہوئی ٹیبل تک آئی۔ ہال میں سب کی نظریں ان پر تھیں۔ وسیم بھی اسے اس روپ میں دیکھ کر حیران تھا۔ کہاں تو وہ ہر وقت ایک بے رنگ، بے ترتیب حرا، اور کہاں یہ حرا، جس پر سے نظریں ہٹنا مشکل تھا۔آج بھی بہترین جوڑی ہے آپ کی۔ کسی نے تعریف کی تو وہ مسکرا دی اور کیک کاٹنے کے بعد مہمانوں کی تواضع میں مصروف ہو گئی۔ ایک طرف، وسیم کے ایک دوست نے دبے دبے لہجے میں کہا کہ تم تو کہتے تھے کہ تمہاری بیوی بے ڈھنگی ہے، اسی لیے دوسری شادی کا سوچ رہے ہو۔ ایسی عورت بے ڈھنگی ہوتی ہے؟ اگر یہی معیار ہے، تو مجھے تو معاف ہی رکھو۔ وسیم کچھ کہنے کے لیے مڑا، لیکن وہ شخص وہاں سے جا چکا تھا۔ حرا نے دور کھڑے ایک عورت کو وسیم سے بات کرتے دیکھا۔ اچھا، تو یہ ہے وہ۔ حرا نے دل ہی دل میں سوچا، مگر وہ اپنے کام میں لگی رہی۔دعوت کے اختتام پر حرا اپنے کمرے میں آئی۔ وسیم بھی پیچھے پیچھے آ گیا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا، لیکن الفاظ ڈھونڈ نہیں پا رہا تھا۔ وسیم نے آخرکار کہا کہ سوری، حرا۔ حرا نے مسکرا کر جواب دیا کہ محبت میں اعتماد ہوتا ہے، سوری نہیں۔وسیم خاموش ہو گیا۔ حرا نے اپنی ڈائری اٹھائی، اس صفحے کو کھولا جہاں تین مہینے پہلے اس نے ایک جملہ لکھا تھا۔ اس نے جملہ پڑھا:فاطمہ نے اسے دل سے معاف کر دیا۔ حرا فاتحانہ انداز سے مسکرائی، ڈائری بند کی، اور زندگی کے نئے سفر کی جانب قدم بڑھا دیے۔

·
Added a post

حمدہ ایک کامیاب عورت تھی۔ شہر کے بہترین اسکول کی پرنسپل، ہر میٹنگ کی سربراہ، ہر فائل پر دستخط کرنے والی اولین اتھارٹی۔لیکن اس کے گھر میں ایک کرسی ہمیشہ خالی رہتی تھی — وہ جس پر کبھی شریکِ حیات بیٹھا کرتا تھا، جو اب صرف شام کے اخبار کے نیچے دبی پڑی تھی۔عباس، اس کا شوہر، ایک چھوٹی سی دکان چلاتا تھا۔

نہ وہ دکان کی رونق تھا، نہ گھر کا چراغ۔بس ایک سایہ تھا جو حمدہ کی چمکدار شخصیت کے پیچھے چھپتا چھپتا، اب خود کو بھی کھو چکا تھا۔حمدہ نے ہمیشہ سمجھا کہ عزت پیسوں سے آتی ہے، محبت مقام سے، اور رشتے صرف ذمہ داریوں کے پتے ہوتے ہیں — جو وقت آنے پر جھڑ جاتے ہیں۔وہ بن سنور کر اسکول جاتی، میٹنگز میں سراہا جاتا، واپسی پر اپنے ہی لہجے کی اکڑ میں بچوں کو ڈانٹتی۔گھر میں کوئی اس سے بحث نہیں کرتا تھا — شاید ہمت نہیں ہوتی تھی، یا شاید اب کسی کو فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ایک روز عباس نے صرف اتنا کہا:چائے، ذرا کم پتی والی بنا دو، حمدہ۔وہ پھٹ پڑی۔گویا اس نے اس کے تخت پر بغاوت کی ہو۔اب چائے بھی میں بناؤں؟ خود کر لو، کچھ سیکھو! سب کچھ میں ہی کروں؟عباس خاموش رہا، جیسے ہمیشہ سے رہتا آیا تھا۔پھر دکان چلا گیا، جیسے ہر روز جاتا ہے۔

بس آج فرق صرف اتنا تھا کہ جاتے جاتے اس نے ایک نظر اس خالی کرسی پر ڈالی، جہاں کبھی حمدہ اس کے ساتھ چائے پیا کرتی تھی — بہت پرانی بات ہے، شاید اس وقت جب پیسے نہیں تھے، لیکن سکون تھا۔کبھی کبھی رشتے خالی کرسیوں کی طرح ہو جاتے ہیں — موجود ہوتے ہیں، بس بیٹھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔بھلے وقتوں میں اماں کہا کرتی تھیں:کمانے والی اور روپے پیسے والی عورت ہرگز بُری نہیں ہوتی — مگر صرف مال داری سے کسی کی خوبی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔جو عورت پیار سے بات کرے، زمین پر قدم جما کر رکھے، رشتوں کو نبھائے — وہی اصل میں ‘عظیم’ ہوتی ہے۔اور جو صرف باتیں بنائے، طنز کرے، اپنی بڑائی جتائے — ان کے پاس اکثر کم ظرفی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ایسی عورت کا دامن بھی خالی ہوتا ہے، اور دل بھی۔تجارت تو حضرت خدیجہؓ نے بھی کی تھی۔وہ مال دار تھیں، خود مختار تھیں، لیکن ان کی دولت کبھی ان کے مزاج پر حاوی نہ ہوئی۔بلکہ انہوں نے اپنے مال کو اللہ کے رسول ﷺ کے مشن پر نچھاور کر دیا —نہ صرف مالی طور پر، بلکہ جذباتی طور پر بھی وہ ان کی سب سے بڑی ڈھال تھیں۔

وہ دولت سے نہیں، کردار سے عظیم تھیں۔عباس صاحب تو شاید بے مقصد ہی جئے جا رہے تھے-

سامنے ہی عائشہ نئی پڑوسی چلی آرہی تھیں سامنے والا ” ولا ” انہوں نے ہی خریدا تھا۔السلام علیکم ! ان بیوہ خاتون میں الگ طرح کا سلیقہ تھا، جمے ہوئے بال سفید لباس اور چہرہ صاف شفاف باتوں باتوں میں پتا چلا کہ یہ “ولا ان کی ملکیت نہیں ہے بلکہ ان کے بھتیجے کا ہے انہوں نے بس رہائش کے لئے لیا ہے ایک آدھ بار گھر آئیں تو جیسے دنیا باغ و بہار ہوگئی ہو۔ دھیما لہجہ اور رکھ رکھاؤ-کیا خاتون ہیں قسمت والوں کو ملتی ہیں ایسی خواتین۔ انہوں نے مکدر دل کے ساتھ حمدہ کو دیکھ کرسوچا- عائشہ کافی سمجھ دار خاتون ہیں ۔ اتنا بولنا تھا کہ ہم پھوٹ گیا جسے سارا ملبہ ان پر گر چکا تھا۔کیا دیکھ لیا اس کے محتاج صورت میں, جو لگے ہیں تعریفوں کے پل باندھنے۔مسز حمدہ نے اسکول کے طرز پر ہی تقریر شروع کر دی۔ ان کا لہجہ بالکل ویسا ہی تھا جیسے اسمبلی میں کسی نافرمان طالبعلم کو ڈانٹا جاتا ہے۔ وہ مسلسل عباس صاحب کو گھورتی جا رہی تھیں، جیسے ان کی نظروں میں ایک ہی مطالبہ چھپا ہو — اپنی غلطی تسلیم کرو، ورنہ نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار رہو۔ جملے ایک کے بعد ایک یوں برس رہے تھے جیسے ہدایت نامے بورڈ پر چسپاں کیے جا رہے ہوں۔ تمہارا رویہ ناقابلِ برداشت ہے، تمہارے عمل سے نظام میں خلل آیا ہے، اگر آئندہ ایسا ہوا تو سخت کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے پاؤں اٹھا کر سیدھا گردن پر رکھتے ہوئے کہا کہ اب عائشہ بی بی کے اردگرد نہ دیکھوں۔ ان کے لہجے میں ذاتی کمائی کا غرور بول رہا تھا، جیسے کہہ رہے ہوں کہ خرچا کھانا بند ہو جائے گا۔ پھر ایک لمحے کو رک کر گویا فیصلہ سنا دیا کہ آپ اپنا خرچا پانی اپنے پاس رکھیں، میں معمولی کماتا ہوں مگر رہوں گا اپنی مسز کے ساتھ۔ حمدہ، میں نے عائشہ سے نکاح کر لیا ہے۔ وہ ایسی عورت ہے جو میری محتاج رہے گی، اور میں اس کی محبت کا محتاج رہوں گا۔ بس یہی کافی ہوگا میرے لیے۔ ان کے لہجے میں سکون تھا، جیسے برسوں کا بوجھ اتار دیا ہو۔

بچوں کو میرے خلاف کرنا ہو تو کر لیجیے گا۔ وہ میرے حال سے واقف ہیں، اعتراض کریں بھی تو کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ اپنے اخراجات کے لیے آپ کے محتاج ہیں، میرے نہیں۔ اتنا صاف عباس صاحب پہلی بار بولے تھے۔ حمدہ حیران رہ گئی تھیں۔ وہ تو کامیاب عورت تھیں، نا کام کیسے ہو گئیں؟ عباس صاحب جاتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ کامیاب عورت وہ ہے جس نے اپنی محبت میرے نام کر دی، مجھے کچھ جتایا نہیں۔ اور نا کام صورت حمدہ ہے جس نے محبت کرنا سیکھا ہی نہیں۔ وہ پیسوں کے حساب سے کامیاب ہوگی، محبت میں نہیں۔

·
Added a post

 جگنو اپنے خاندان سے سخت کبیدہ خاطر رہتی تھی۔ ہر بندہ دوسرے سے ناراض، ہر فرد شکوہ کناں، اور ناراضیاں و تلخیاں اتنی طویل ہوتیں کہ زندگی ختم ہو جاتی، مگر ناراضیاں ختم نہ ہوتیں۔ ہاں، جب کسی رشتے دار کی وفات کی خبر سننے کو ملتی تو سب روتے دھوتے، اور پیش پیش ہوتے جو زندگی بھر مرحوم کا نام لینا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ جگنو دل ہی دل میں اسے “مردہ پرستی” کہتی۔ وہ سوچتی، جو شخص ہر اچھے برے رویے سے بے نیاز ہو چکا ہے، اس کے لیے ہمارے آنسو کیا معنی رکھتے ہیں بھلا؟آنسوؤں کے بیچ میں حماقتوں کا ذکر ہوتا (پرنم مسکراہٹ کے ساتھ)، چن چن کر گمشدہ قصے دہرائے جاتے، اور کہیں بھی اس ماضی کا شائبہ نہ ہوتا جس کی وجہ سے زندگی کا اتنا اچھا وقت گلے شکوؤں میں ضائع ہو چکا تھا۔ ایسے موقعوں پر جگنو ہمیشہ سر جھٹک کر رہ جاتی۔ نانا سردیوں میں ہمیشہ گرم چادر اوڑھتے، اسے دھوپ لگواتے، نرمی سے ہاتھ پھیرتے جیسے کوئی لمس ڈھونڈ رہے ہوں، اور اکثر اسے لپیٹ کر یادوں میں کھو سے جاتے تھے۔ نانا بتاتے کہ یہ ان کے مرحوم بھائی کی ہے، جس سے لین دین پر جھگڑا ہوا تھا۔ یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ مرتے دم تک دونوں بھائی نہ مل پائے۔نانا نے جب چھوٹے بھائی کی کینسر کی خبر سنی تو اسے ڈھکوسلا سمجھا۔ بیمار بھائی بلاتا رہا، لیکن نانا ناراضی کا پیرہن اوڑھے بیٹھے رہے۔ جب بھائی کی وفات کی خبر سنی تو گویا سکتہ ہو گیا۔ خوب روئے دھوئے، پھر کچھ نہ سوجھا تو بھائی کی گرم شال ساتھ لے آئے۔ اسے اوڑھتے، دھوپ لگواتے، اور سنبھال کر رکھتے۔ کاش رشتے بھی اسی حفاظت کے ساتھ رکھے جا سکتے، دھوپ لگا کر، قہقہہ لگا کر۔ جگنو اکثر سوچتی۔ صاف گو جگنو نے ایک دن اپنے دل کی بات کو عنوان دے ہی دیا۔نانا، بہتر نہیں ہے کہ ہم جھوٹی انا پر پیر رکھ کر رشتے بچائیں؟نانا افسردگی سے سامنے دیکھتے رہے اور پھر آہستگی سے گویا ہوئے:یہ انا بہت ظالم چیز ہے، بیٹا۔ انسان کو خاکستر کر دیتی ہے اور رشتے فنا کر دیتی ہے۔ اپنے قیدیوں کو رشتوں کی موت سے پہلے رہائی نہیں دیتی۔نانا کے لہجے میں پچھتاوا اور دکھ بول رہے تھے۔ جگنو جو انہیں شرمندہ کرنا چاہتی تھی، ان کی کٹھور دلی پر بات کرنا چاہتی تھی، وہ ان کے افسردہ لہجے سے خود بھی اداس ہو گئی۔اپنے گھر میں، جگنو دیکھتی کہ پپا کے سیدھے ہاتھ کی انگلی میں فیروزے کی ایک خوبصورت ڈیزائن والی انگوٹھی ہمیشہ موجود رہتی۔ یہ انگوٹھی وہ خود سے جدا نہ کرتے تھے۔مما بتاتی تھیں کہ یہ رفو پھپھو کی تھی۔ وہ سب سے چھوٹی اور سب کی لاڈلی تھیں، بالخصوص پپا کی۔ دھوم دھام سے ان کی شادی ہوئی تھی، لیکن چند برس بعد انہوں نے جائیداد میں سے اپنا شرعی حصہ طلب کر لیا۔یہ سنتے ہی بھائی شعلہ بن گئے۔ صرف دادی تھیں جو آنے والے حالات کو تین برس تک نم آنکھوں سے دیکھتی رہیں۔جگنو کو یاد تھا کہ کیسے پپا، چاچو، مما اور چاچی نے پھپھو کو بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا تھا۔ ہم دے چکے جو دینا تھا۔ پڑھائی لکھائی، جہیز، کپڑا لتا، زیور! پھپھو گھر کا راستہ بھول گئیں۔ جب تک دادی زندہ رہیں، ان کا فون پر رابطہ رہا۔ دادی کی وفات کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ برسوں بعد جب ان کی وفات کی خبر ملی تو سب لوگ گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ مالی حالات کی خرابی اور شوہر کی بیماری کی پریشانیوں کے باعث انہوں نے اپنا حق مانگا تھا۔ اگر بھائی حصہ نہ بھی دیتے تو کم از کم دل جوئی ہی کر لیتے، صلہ رحمی ہی کر لیتے۔پھپھو کے سوئم اور چالیسویں کے موقع پر بھائیوں نے دھوم دھام سے تقریب منعقد کی، دنیا کے سامنے واہ واہ بٹوری۔- مما آپ کو بہت یاد کرتی تھیں۔ آخری وقت تک آپ کی منتظر رہیں۔ فروا نے آہستگی سے کہا۔ پپا خاموش اور بوجھل نظر آ رہے تھے۔یہ انگوٹھی آپ نے انہیں گفٹ کی تھی، ناں؟فروا نے اپنے پرس سے انگوٹھی نکالی۔مما کو یہ بہت عزیز تھی۔ پپا نے جھٹ انگوٹھی پہن لی اور پھر کبھی جدا نہ کی۔ جگنو کو کسی سے ہمدردی محسوس نہ ہوئی۔میں بھی جھوٹی انا کو کبھی اپنی زندگی پر حاوی نہیں ہونے دوں گی۔ اگر رشتے عزیز ہیں تو جھکنے میں کوئی حرج نہیں۔” اس نے دل ہی دل میں ارادہ کر لیا۔

زندگی رشتوں کی اس ناراضی اور انا پرستی کے ساتھ رواں دواں تھی۔ شاید انسان کی فطرت یہی ہے۔ دوسروں کو بدلنے کے بجائے ہمیں خود کو بدلنا ہوتا ہے۔اسی سوچ کے ساتھ وہ والدین کے گھر سے رخصت ہو کر فیصل کے گھر آ گئی۔ اس کی کشادہ دلی اور وسعتِ قلبی کے سب قائل تھے۔چاچی بھی اس سے ناراض نہ ہوتیں۔بھابھی ہمیشہ ملنے میں پہل کرتیں۔دیور اور نندیں کہا کرتیں، بیٹیوں سے بڑھ کر ہے، جیتی رہو۔جب بھی ساس سر پر ہاتھ پھیرتیں تو یہی دعا دیتیں۔وقت آگے بڑھ رہا تھا۔ جگنو کو شروع سے سلیم بھائی کی فضہ پسند تھی۔ بیٹے نے بھی ماں کی پسند کا احترام کیا اور یوں فضہ اور رضا کی نسبت طے ہو گئی۔انہی دنوں فیصل اور سلیم بھائی میں کسی معاملے پر ایسی تلخی پیدا ہوئی کہ جینا مرنا ختم ہو گیا۔اگر تم نے میکے کا نام بھی لیا تو۔۔۔فیصل مٹھیاں بھینچ کر کہتا۔رشتے بھی ٹوٹ گئے اور دل بھی۔سلیم بھائی نے فضہ کا رشتہ فوراً اپنے دوست کے بیٹے سے طے کر کے گویا اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ یوں جگنو، شوہر اور بیٹے کا مان رکھنے کے لیے انا کے کھیل کا شکار ہو گئی۔بعض اوقات ہم اپنی انا کو سر اٹھانے نہیں دیتے، لیکن ہم سے وابستہ رشتے داروں کی انا ہمیں مجبور کر دیتی ہے۔ جگنو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ سب میکے والوں نے سلیم بھائی کا ساتھ دیا۔میکے کی خبریں کبھی کبھار اسے ملتی رہتیں—کسی کی بیماری، پریشانی یا خوشی کا حال۔ جگنو دل مسوس کر رہ جاتی۔

 پانچ برس بیت گئے۔ انہی دنوں اسے فضہ کی منگنی ٹوٹنے کی خبر ملی۔ قدرتی بات تھی۔ دل افسردہ ہو گیا۔ پھر سلیم بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ۔ وہ تڑپیں جانا چاہتی ہیں۔ لیکن فیصل کی انا ابھی بھی تو انا تھی۔ ہر گز نہیں نہیں ۔ فیصل اس وقت صرف ایک مرد تھا۔ جھوٹی انا کا قیدی ۔ سلیم بھائی کی حالت سیریس تھی۔سب بہن بھائی اسے بلا رہے تھے۔ بھائی ، بار بار تمہارا نام لے رہے ہیں جگنو ۔ وہ تڑپ اٹھتی ۔ مگر بے بس تھی۔ کیا وہ بھی بھائی کی چیزوں کے سہارے زندگی کے دن گزارے گی ؟ اس کی نظروں میں شکست خوردہ نانا اور پچھتاؤں کے مارے پپا کے چہرے آ جاتے۔ رو رو کر وہ خود بھی بیمار ہو چکی تھی۔ فیصل اپنی انا کو نفرت کا پانی دے رہے تھے۔رضا نے جب ماں کی حالت دیکھی تو دل پانی پانی ہو گیا۔ اس نے کتنے عرصے بعد خالہ کو فون کیا۔خالہ، مما بیمار ہیں، بہت بیمار… وہ اپنی آواز کی لرزش پر قابو نہ پا سکا۔رضا، میں آ رہی ہوں، جسٹ ویٹ! اچانک فون پر کسی کے قبضے کی آواز آئی۔ یقینا خالہ کے ہاتھ سے سیل فون لے لیا گیا تھا۔ اور آدھے گھنٹے بعد فضہ اس کے گیٹ پر کھڑی تھی۔فضہ سیدھی فیصل کے پاس گئی۔انکل، میں پیا کے رویے کی معافی مانگتی ہوں۔ آپ پھپھو کو ان کے قصور کی اتنی بڑی سزا نہ دیں۔ ہم ملنے کے لیے موت کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ میں بیٹی بن کر آئی ہوں، براہ کرم میرا مان نہ توڑیں۔ اس نے ہاتھ جوڑ دیے۔کتنے پل خاموشی کی نذر ہو گئے۔ فیصل جھوٹی انا کا شکار ضرور تھے، لیکن کٹھور ہرگز نہ تھے۔ وہ جگنو کی خدمات کے معترف تھے اور فضہ بھی انہیں پسند تھی۔انہوں نے چپ چاپ فضہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور بیٹے کو گاڑی کی چابی لانے کا اشارہ کیا۔ کچھ دیر بعد وہ سلیم بھائی کے پاس موجود تھے۔جگنو رو رہی تھی، جبکہ بھائی کا ہاتھ تھامے کھڑی تھی۔ فیصل سنجیدہ تھے، اور رضا اور فضہ مطمئن نظر آ رہے تھے۔فیصل نے کہا، میں بڑا ہوں مگر معافی مانگتا ہوں۔ جھکنے میں کوئی عار نہیں ہوتی، ورنہ رشتے خاک میں مل جاتے ہیں – سلیم بھائی کی آواز نقاہت زدہ تھی، لیکن انہوں نے آگے بڑھ کر ہاتھ کھول دیے۔ دونوں گلے لگ گئے۔جھوٹی انا نے تڑپ کر آخری بار سر اٹھایا، پھر زمین پر گر کر ریزہ ریزہ ہو گئی۔آج رشتوں کی محبت نے انا کو شکست دے دی تھی۔ ہر جدائی کی تکلیف دہ گھڑیاں بیت چکی تھیں

  • 1
·
Added a post

نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، مگر وہ پھر بھی آنکھیں موندے بیڈ پر چت لیٹے بیگم کے سو جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ جوں ہی ان کے کانوں میں خراٹوں کی جل ترنگ گونجی، انہوں نے بائیں آنکھ ذرا سی کھول کر دیکھا۔ بیگم صاحبہ نیند میں ڈوبتی دکھائی دیں۔ انہوں نے چند لمحے مزید انتظار کیا، پھر ہولے سے کمبل سرکا کر اٹھ بیٹھے۔ پاؤں میں چپلیں اڑسیں اور دبے قدموں دروازے کی طرف بڑھے۔ جاتے جاتے ایک چور نظر بے خبر بیگم پر ڈالی اور آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ خنک ہوا کے جھونکے نے استقبال کیا، جس پر انہوں نے ذرا سی جھر جھری لی۔ برآمدے کی گرل سے باہر جھانکا۔ وسیع صحن پر ہو کا عالم طاری تھا۔ اس وقت تک تو حامد اور سرمد بھی اپنے کمرے میں سونے جا چکے تھے۔ انہیں مزید اطمینان ہوا۔ اب میدان صاف تھا۔ وہ دبے پاؤں برآمدے کے کونے میں دھرے گرے رنگ کے جہازی سائز فرج کی جانب بڑھے۔ لپک کر دروازہ کھولا۔ بلب کی زرد روشنی ایک لکیر کی صورت باہر تک چلی آئی۔ انہوں نے اوپر نیچے نظر دوڑائی۔ تمام اشیاء نہایت قرینے سے رکھی ہوئی تھیں۔ سب سے اوپر گندھا ہوا آٹا اور دودھ کی پتیلی رکھی تھی۔ اس سے نیچے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں موجود تھیں۔ پھر نچلے خانے میں تازہ سالن اور کچھ پچھلے دنوں کے بچے کھچے سالن رکھے تھے۔ انہوں نے ایک ایک ڈھکن اٹھا کر دیکھا، مگر انہیں اپنی مطلوبہ چیز نظر نہ آئی۔ وہ مایوس ہو کر فرج کا دروازہ بند کرنے لگے، جب اچانک ان کی نظر سب سے نیچے موجود سبزیوں اور پھلوں والے ڈبے پر پڑی۔ انہوں نے جھک کر کھینچ کر نکالا اور پھر ان کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ رس ملائی کا بڑا سا پیالہ وہیں رکھا تھا، بلکہ ایک طرح سے چھپایا گیا تھا۔ وہ دل ہی دل میں بیگم کی چالاکی پر جل کر رہ گئے۔ پھر انہوں نے نہایت احتیاط سے وہ پیالہ باہر نکالا۔ فرج کا دروازہ بند کیا اور اس سے پہلے کہ واپس پلٹتے، اچانک پیچھے سے ایک مردانہ بازو ان کی گردن کے گرد حمائل ہو گیا۔ اس ناگہانی افتاد پر وہ اچھل پڑے۔ پیالہ ان کے ہاتھوں سے پھسلنے ہی لگا تھا کہ آنے والے نے اپنے دوسرے ہاتھ سے فوراً اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اب وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے سامنے حامد کو دیکھ رہے تھے۔ پیارے بابا جان! اماں جان کو یہی دھڑکا لگا تھا کہ آپ آج رات اس رس ملائی کے پیالے پر ضرور شب خون ماریں گے۔ اس لیے وہ سونے سے پہلے مجھے چوکس رہنے کا کہہ گئی تھیں۔ اور ابھی جب آپ فرج کی جانب بڑھ رہے تھے تو میں کمرے کی کھڑکی سے یہ نظارہ دیکھ رہا تھا۔” وہ فخر سے بتا رہا تھا، مگر وہ جل کر رہ گئے۔ ارے تمہاری ماں اکیلی کیا کم تھی، جو تم بھی اس کے ساتھ میری چوکیداری میں شامل ہو گئے ہو؟ منہ کا ذائقہ خراب ہو رہا تھا، اس لیے تھوڑی سی رس ملائی کھانا چاہ رہا تھا۔ وہ پیالے کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ کھائی تو تھی آپ نے شام کو سب کے ساتھ، پیالی بھر کر! حامد نے انہیں یاد دلایا۔ اتنی چھوٹی چھوٹی سی تو پیالیاں رکھی ہوتی ہیں تمہاری ماں نے! بمشکل چار چمچ کھائے ہوں گے۔ وہ بھڑک اٹھے۔ آپ کے لیے وہ بھی کافی ہے۔ ڈاکٹر نے تو اس سے بھی منع کر رکھا ہے۔ اتنی مشکل سے تو شوگر کنٹرول ہوئی ہے آپ کی!” حامد نے ذرا نرمی سے سمجھانا چاہا۔ ہاں، اب تو شوگر کنٹرول ہی ہے، پھر تھوڑی سی کھا لینے میں کیا حرج ہے؟” انہوں نے پیالہ حامد کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی، مگر وہ پلک جھپکتے ہی مزید پیچھے ہٹ گیا۔ بابا جان! آپ باز آنے والے نہیں لگتے۔ اب میں پکا انتظام کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی چابی برآمد کی، پھر پیالے کو فرج میں رکھا، چابی دروازے میں گھمائی اور ‘ٹک’ کی آواز کے ساتھ فرج لاک ہو گیا۔ سوری بابا جان! احتیاط بہت ضروری ہے۔ دل کے مریض ہیں آپ، پرہیز کیا کریں۔” یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل دیا اور وہ برآمدے میں کھڑے کلستے رہ گئے۔ ارے، دل کا مریض ہوں تو کیا ہوا، کیا خودکشی کر لوں؟ حد ہے بھئی! اپنی کمائی کی، اپنے ہی گھر سے کوئی اچھی چیز نہیں کھا سکتا ہوں! چور بن کر رہ گیا ہوں! وہ کچھ دیر تک بڑبڑاتے رہے، پھر تھک ہار کر پاؤں گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چل دیے۔

میاں بشیر صاحب ایک خوش باش، خوش لہجہ، خوش گفتار اور سب سے بڑھ کر خوش خوراک شخص واقع ہوئے تھے۔ چٹ پٹی اور مرغن غذاؤں کے بے حد دیوانے تھے۔ شومئی قسمت، بیگم بھی پکانے میں بہت ہنر مند تھیں۔ میاں کے چٹورے پن کی تسکین کے لیے کھانے پکانے کے ایک دو کورسز مزید کر کے اپنی صلاحیتوں کو چار چاند لگا لیے تھے۔ میاں بشیر صاحب کا حلقۂ احباب بھی خاصا وسیع تھا۔ پھر وہ کچھ ہلے گلے کے شوقین بھی بہت تھے۔ آئے روز گھر میں دعوتیں ہوتیں، کھلایا پلایا جاتا۔ بیگم بشیر بھی خوش دلی سے کچن میں جتی رہتیں۔ انہیں بڑا ناز تھا کہ وہ معدے کے راستے ہی سہی، مگر میاں کے دل میں براجمان تو ہیں! مگر سدا دن ایک جیسے نہیں رہتے۔ ہر چیز میں توازن ضروری ہوتا ہے۔ میاں بشیر صاحب کی کھانے پینے میں حد درجہ بے اعتدالی کا نتیجہ شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کی صورت میں نکلا۔ ایک رات سینے میں زور کا درد اٹھا تو انہیں ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے انجائنا کی تشخیص کی۔ ڈھیر ساری ادویات کے ساتھ بیگم صاحبہ کو ایک لمبا لیکچر بھی دیا کہ یہ سب کھانے پینے میں بے احتیاطی کا نتیجہ ہے۔ ساتھ ہی ان کے لیے سادہ خوراک کا چارٹ بنا کر دیا گیا۔ بیگم صاحبہ کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ حالانکہ وہ سب کچھ ان کی فرمائش پر ہی کرتی تھیں، مگر پھر بھی وہ خود کو مجرم محسوس کرنے لگیں۔ انہوں نے گھر آتے ہی کچن سے تمام بازاری مسالوں کے ڈبے غائب کر دیے، کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کو الماری کے سب سے نچلے خانے میں دفن کیا، اور دیگر میٹھی اشیاء کام والی کے حوالے کر دیں۔ روٹین میں ہنگامی تبدیلیاں کیں۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھیں کہ سالوں سے بھنی ہوئی مرغن غذاؤں کے عادی شخص کو سادہ خوراک پر لانا کتنا دشوار ہے۔ وہ ان کے لیے پرہیزی کھانے تیار کرتیں، جو چولہے پر دھرا رہ جاتا، اور وہ باقی اہل خانہ کے لیے بنائے گئے کھانے سے شوق سے لطف اندوز ہو لیتے۔ وہ نمکو کے پیکٹ اور ڈرائی فروٹ کا جار چھپا کر رکھتیں، مگر کسی نہ کسی طرح وہ غائب ہو جاتے، اور اگر کچھ بچتا بھی تو آدھے سے بھی کم۔ وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر کہیں نہ کہیں سے کولڈ ڈرنک نکال کر پی جاتے۔ اگر بیگم سختی کرتیں تو خوب جھگڑا کرتے، بچوں کی طرح روٹھ جاتے۔ ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ ان کے بھتیجے کی شادی تھی۔ انہوں نے نئے جوڑے کی دعوت کی تھی۔ بیگم بشیر گوشت کا پتیلا چولہے پر چڑھا کر خود قریبی مارکیٹ سے ان کے لیے کوئی تحفہ خریدنے چلی گئیں۔ میاں بشیر صاحب پانی پینے کچن میں گئے تو سوندھی خوشبو سے بے قرار ہو گئے۔ پتیلے کا ڈھکن ہٹایا تو دیکھا کہ نمکین گوشت دھیمی آنچ پر پک رہا تھا۔ ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔ فوراً ایک بوٹی نکال کر چکھی۔ بہت مزا آیا! اب وہ چمچہ چلاتے، ایک بوٹی نکالتے، کچھ دیر چٹکی میں پکڑ کر ہوا میں لہراتے، اور پھر منہ میں ڈال لیتے۔ یوں کرتے کرتے جب پتیلے میں بوٹیوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی اور نقصِ امن کا خطرہ نظر آنے لگا، تو انہوں نے فوراً فریزر کھول کر گوشت کا ایک اور پیکٹ نکالا اور بغیر سوچے سمجھے سیدھا پتیلے میں ڈال دیا۔ بیگم خاصی دیر سے واپس آئیں۔ انہوں نے جلدی میں زیادہ دھیان نہ دیا اور ویسے ہی پلاؤ تیار کر لیا۔ اب کھانے کی میز پر مہمانوں کے سامنے انہیں بہت شرمندگی ہوئی، کیونکہ پلاؤ میں کچھ بوٹیاں تو زیادہ تلی ہوئی تھیں، جبکہ باقی سارا گوشت کچا تھا۔ اس وقت تو انہیں سمجھ نہیں آیا کہ ماجرا کیا ہے، مگر مہمانوں کے جانے کے بعد جب انہوں نے فریزر کھولا تو گوشت کا ایک اضافی پیکٹ غائب تھا۔ وہ فوراً سب کچھ سمجھ گئیں۔ پھر جو گھر میں گھمسان کی جنگ ہوئی، وہ ہمسایوں کو بھی کئی دن تک یاد رہی!

ان کے دونوں بیٹے بھی ماں باپ کی ایسی جھڑپوں کے عادی ہو چکے تھے۔ لاکھ ان دونوں کو اپنے باپ سے پیار تھا مگر ساتھ وہ اپنی ماں کا ہی دیتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں وہ جو کچھ کرتی تھیں، ان کی بہتری کے لیے کرتی تھیں۔ پھر انسان کی اپنی جان لذت کام و دہن سے زیادہ پیاری تو نہیں ہوتی

ایسے ہی کھٹے میٹھے دنوں میں حامد نے اپنی تعلیم مکمل کر لی۔ جوں ہی اسے ایک کمپنی میں نوکری ملی، تو ساری مشرقی ماؤں کی طرح بیگم بشیر کے دل میں بھی اس کی شادی کا ارمان جاگ اٹھا۔ اب وہ دن رات حامد کی دلہن لاؤں گی کا راگ الاپنے لگیں۔ وہ اکثر بے زار ہو کر کہتا، اماں! آپ دلہن کا قصہ تو رہنے دیں۔ آپ اور ابا کی اتنی لڑائی ہوتی ہے کہ اہلِ محلہ کے ساتھ ساتھ آنے والی بھی لطف اندوز ہوا کرے گی۔ بیٹے کے انداز پر وہ تڑپ جاتیں، ارے! تم کیوں فکر کرتے ہو؟ بہو آئے گی تو کچھ تو حیا کریں گے ہی۔ ہو سکتا ہے، کچھ سدھر ہی جائیں! پھر وہ ہر رشتہ کرانے والی سے اصرار کرتیں، بس چاند سی بہو ڈھونڈ دو! بہو چاندی ہو یا سورج کی، بس کھانا چھپانے والی نہ ہو! اگر وہ آس پاس موجود ہوتے تو ضرور گل افشانی کرتے۔ بیگم صاحبہ فقط طنزیہ نظروں سے گھور کر رہ جاتیں۔ پھر خدا خدا کرکے حامد کی شادی طے پا گئی۔ دونوں میاں بیوی نے خوب دل کے ارمان پورے کیے۔ وسیع پیمانے پر تقریب کا انتظام کیا گیا، خاندان بھر کو مدعو کیا گیا، انواع و اقسام کے پکوان تیار کروائے گئے۔ مہمانوں کی آؤ بھگت کے ساتھ ساتھ میاں بشیر صاحب کو خود بھی کھانے پینے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہر ڈش کے ساتھ خوب انصاف کیا۔ بیگم صاحبہ دور سے دیکھ رہی تھیں اور اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہی تھیں، مگر وہ بھی کیا کرتیں؟ بھری برادری کے سامنے ان کا ہاتھ روکنا ممکن نہیں تھا۔ پھر وہی ہوا جس کا تمام اہلِ خانہ کو ڈر تھا۔ شادی کے چوتھے روز ہی انہیں دوسرا بڑا ہارٹ اٹیک ہوا۔ ہفتہ بھر وہ آئی سی یو میں پڑے رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کے دل کے چاروں والو شدید متاثر ہوئے تھے، اور ان کا بچ جانا ایک معجزہ تھا۔ ہسپتال سے فارغ ہو کر جب گھر آئے تو شدید نقاہت محسوس کر رہے تھے۔ شاید کچھ شرمندہ بھی تھے۔ بیگم صاحبہ ملامت بھری نظروں سے دیکھتیں تو نظریں چرا لیتے۔ وہ دلیہ، کھچڑی جو بھی کھلاتیں، چپ چاپ بغیر کسی احتجاج کے کھا لیتے۔ موت کو قریب سے دیکھ آئے تھے، اس لیے زندگی اور صحت کی قدر جان گئے تھے۔ وہ عجیب پژمردگی کا شکار رہنے لگے۔ پہلے والی شوخی، شرارت اور شگفتہ مزاجی مفقود تھی۔ ایک دن بیگم صاحبہ کسی عزیز کی فوتگی پر جانے لگیں تو انہیں پرہیزی کھانا کھا کر دوا لینے کی تاکید کرتے ہوئے روانہ ہوئیں۔ انہوں نے کچن میں جا کر دیکھا۔ ایک پتیلی میں مونگ کی بد رنگ دال اور دوسری میں پھیکا دلیہ ڈھکا تھا۔ بھوک تو پہلے ہی نہیں تھی، یہ چیزیں دیکھ کر تو بالکل ہی ختم ہو گئی۔ اتنے میں کچن کے دروازے پر آہٹ ہوئی۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا تو نئی نویلی بہو کھڑی تھی۔ آداب، ابا جان! آپ کو کچھ چاہیے تھا؟ مجھے بتائیں، میں نکال دیتی ہوں۔” وہ دھیرے سے بولی۔ شادی کے فوراً بعد وہ بیمار ہو کر ہسپتال جا پہنچے تھے، اس لیے بہو سے ٹھیک طرح تعارف بھی نہیں ہو سکا تھا۔ وہ کچھ جھجک سے گئے۔ ارے نہیں بٹیا! بھوک نہیں ہے۔ وہ ان کے تاثرات سے سمجھ گئی کہ وہ پتیلیوں میں موجود کھانا کھانا نہیں چاہ رہے، اس لیے فوراً بولی، ابا جان! آپ اپنے کمرے میں جائیں، میں آپ کے لیے کچھ اور لاتی ہوں ابھی انہیں کمرے میں آئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ بہو ایک چھوٹی سی ٹرے تھامے اندر داخل ہوئی۔ ٹرے میں ایک کپ چائے اور ایک چھوٹی پلیٹ میں کیک کے چند ٹکڑے نفاست سے رکھے تھے۔ ارے بٹیا! میں یہ بازاری کیک کہاں کھا سکتا ہوں؟ بیکری کی چیزیں بھی میرے لیے منع ہیں۔ وہ کیک کے ٹکڑوں کو حسرت سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ارے نہیں ابا جان! یہ بیکری کا کیک نہیں ہے۔ میں نے رات کو خود بیک کیا تھا، آپ کے لیے۔ بغیر چکنائی اور میٹھے کے، بس تھوڑا سا شہد شامل کیا ہے۔ ارے واہ! ان کا اشتیاق بڑھ گیا۔ فوراً ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھا۔ اگرچہ میٹھا برائے نام تھا، مگر ذائقہ اور خستگی لاجواب تھی۔ دراصل میرے والد صاحب بھی آپ کی طرح کھانے پینے کے بہت شوقین تھے۔ بہو کی آنکھوں میں نمی سی چمکنے لگی۔ (بہو کے والد حیات نہیں تھے)۔ مگر وہ بھی چونکہ دل کے مریض تھے، اس لیے سب کچھ نہیں کھا سکتے تھے۔ جب میں گریجویشن کے بعد فارغ تھی تو اماں جان نے مجھے سلائی کڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ کوکنگ کورسز بھی کروائے تھے۔ وہ ہولے ہولے بول رہی تھی اور وہ نہایت انہماک سے بہو کی باتیں سن رہے تھے۔ اور پھر میں نے ان کی خاطر ایسے کھانے بنانے کی تربیت بھی حاصل کی جو شوگر اور دل کے مریضوں کے لیے بھی محفوظ ہوں، بغیر چکنائی کے اور قدرتی مٹھاس کے ساتھ۔اچھا بٹیا! کیا کیا بنا لیتی ہو؟ وہ دبے دبے جوش سے پوچھنے لگے۔ بغیر چکنائی کے ہلکے مسالوں کی بریانی، سبزی کباب جو فرائی نہیں کیے جاتے بلکہ اسٹیم کیے جاتے ہیں، مختلف طرح کے بسکٹ جن میں تھوڑا سا شہد شامل ہوتا ہے۔ ابا جان! میں آپ کے لیے بھی تیار کر دیا کروں گی۔ آپ انہیں محدود مقدار میں آسانی سے لے سکتے ہیں۔ وہ فخریہ بتا رہی تھی۔ آج انہیں احساس ہو رہا تھا کہ وہ بیٹی جیسی کتنی بڑی رحمت سے محروم تھے۔ واقعی بیٹیاں کتنی حساس ہوتی ہیں، کتنی فکر کرنے والی۔۔۔ والدین کی خوشی کی خاطر کوئی نہ کوئی درمیانی راہ نکال ہی لیتی ہیں۔ کتنے خلوص سے وہ ان کے لیے کیک لے آئی تھی۔ اگر وہ بد مزہ دال اور دلیہ بھی لے آتی، تو وہ خوشی خوشی نوش فرما لیتے۔ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ اپنے رب کے حضور شکر گزاری کے آنسو تھے، جس نے انہیں بہو کی صورت میں بیٹی دے دی تھی۔ انہوں نے اپنا ہاتھ پیار سے اس کے سر پر پھیرا اور پھر وہ دونوں بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکرا دیے۔

·
Added a post

دروازے پر ہوتی مسلسل دستک کی آواز سن کر راحم نے آنکھیں کھولیں۔ اس نے تھوڑا سا اوپر ہو کر تکیے کے سہارے ٹیک لگا کر سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر دیکھا۔ صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ کون ہے ؟ راحم نے اکتائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ چھوٹے صاحب ! آپ کو نیچے بڑے صاحب بلا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ آ کر ناشتہ کر لیں۔ ملازم کرم دین نے کچھ اونچی آواز میں پیغام پہنچایا۔ او کے ! ان سے کہو میں آرہا ہوں ۔ راحم نے اٹھتے ہوئے کہا۔ پندرہ منٹ بعد وہ ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھا۔ اس کی ممی شہر بانو گہری سوچ میں غرق کافی کا کپ تھامے بیٹھی تھیں۔ کیا بات ہے شہر بانو ! کیا سوچ رہی ہو ؟

شہر بانو نے کافی کا مگ ٹیبل پر رکھا اور راحم کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔ آپ کو پتا ہے راحم شادی کرنا چاہتا ہے ۔ ہاں ! وہ مجھے بتا چکا ہے۔ تمہیں کوئی اعتراض ہے ؟ راحم کے ڈیڈ شاہنواز نے پوچھا۔ دم اعتراض تو نہیں مگر میرے خیال میں شادی اپنے اسٹینڈرڈ کے لوگوں میں کرنی چاہئے۔ میں نے یہ بات اسے سمجھانے کی کوشش کی ہے، مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ اس سے پہلے کہ شاہنواز کچھ کہتے ، راحم بول اٹھا۔ ڈیڈ ! اگر میں نے اپنے لئے مڈل کلاس کی لڑکی کو پسند کیا ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔ محی ! نائمہ کو میری کلاس فیلو ہونے کے ناتے اچھی طرح جانتی ہیں، انہیں وہ پسند بھی ہے۔ اعتراض انہیں اس بات پر ہے کہ وہ لوگ ہمارے اسٹیٹس کے نہیں ہیں۔ شاہنواز رئیسانی نے بیٹے کی بات سننے کے بعد شہر بانو سے کہا۔ شہر بانو ! ہمیں بیٹے کی خوشی میں خوش ہونا چاہئے۔ مذہب بھی پسند کی شادی کا اختیار دیتا ہے۔ راحم بیٹا ! تمہاری شادی نائمہ سے ہو گی۔ فی الحال تم اسلام آباد جانے کی تیاری کرو، اگلے ہفتے تمہیں وہاں میٹنگ میں موجود ہونا ہے۔ او کے ڈیڈ ! راحم مگ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ آپ نے اس لڑکی کو دیکھا ہے جسے راحم نے پسند کیا ہے ؟ شہر بانو نے راحم کے جانے کے بعد پوچھا۔ ملا تو نہیں ہوں۔ راحم نے اس کی تصویر دکھائی تھی، پیاری ہے۔ میری بھیجی اصفا سے بھی زیادہ…؟ شہر بانو ! تم اچھی طرح جانتی ہو کہ اصفا بے حد حسین ہے۔ وہ لڑکی اس جیسی حسین نہیں مگر ہمارے بیٹے کو پسند ہے، اس ناتے ہمیں اسے خوشی سے قبول کر لینا چاہئے۔ شوہر کی بات سن کر شہر بانو نے تائید میں سر ہلا دیا۔

راحم اپنے دوست عمیر کے ساتھ اس کے گھر پر موجود تھا۔ کیا بات ہے راحم ! تم کچھ پریشان سے لگ رہے ہو ؟ کوئی خاص بات نہیں۔ میں نے ممی اور ڈیڈ کو اپنی پسند سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہیں بتادیا ہے کہ میں نائمہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ممی، نائمہ کو بہو کی صورت میں قبول کرنے کے لئے دل سے راضی نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں شادی اپنے برابر کے لوگوں میں کرنی چاہئے۔ میری خوشی کی خاطر وہ راضی تو ہو گئی ہیں، مگر میں جانتا ہوں ان کا دل اصفا کی طرف مائل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ میں اصفا سے شادی کر کے بہت اوپر جا سکتا ہوں۔ تم ڈبل مائنڈڈ کیوں ہو رہے ہو ؟ نائمہ سے تمہاری اچھی انڈراسٹینڈنگ ہے۔ میرے خیال میں تم نے درست فیصلہ کیا ہے۔ یہ بتائو تم اسٹڈی کیلئے کب باہر جا رہے ہو ؟ فی الحال تو میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا ہے ۔ ڈیڈ کی خواہش تھی کہ میں بزنس میں ان کا ہاتھ بٹائوں۔ میں نے ان کی خواہش پر آفس میں بیٹھنا شروع کر دیا ہے۔ بہت خوش نصیب ہو تم ! اچھے کامیاب بزنس مین کے بیٹے ہو ، تمہارے ڈیڈ نے بڑی جدوجہد سے اپنا مقام بنایا ہے۔ تمہاری بات اپنی جگہ درست ہے مگر عمیر ! مجھے کبھی کبھی اندر سے بہت اکیلے پن کا احساس ہوتا ہے ۔ ممی پھر بھی مجھے وقت دیتی ہیں، مگر ڈیڈ کے ہوتے ہوئے بھی مجھے یوں لگتا ہے کہ میں ان کے پیار سے محروم ہوں۔ راحم کی بات سن کر عمیر فوراً بولا۔ میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ تمہارے ڈیڈ کی مصروفیت ہے۔ تمہاری شکایت دور ہو جائے گی، اب تو آفس میں تم ان کے ساتھ ہی ہوتے ہو۔ لو سوپ پیو، ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ عمیر کے کہنے پر راحم نے پیالہ اٹھایا اور سوپ اپنے حلق میں اتار نے لگا۔ کل صبح کی فلائٹ سے اسے اسلام آباد جانا تھا۔ اگلے دن وہ بزنس میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد میں موجود تھا۔ رات نو بجے وہ وہاں کے ایک ریسٹورنٹ میں ڈنر کر رہا تھا۔ اس کی نظر کائونٹر پر بیٹھے ایک شخص پر پڑی۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ راحم اسے دیکھتارہ گیا۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ اٹھا اور کائونٹر پر موجود شخص کے پاس پہنچ گیا۔ مجھے راحم کہتے ہیں۔ اس نے اپنا تعارف کرایا۔ تم کیا دوسرے شہر سے آئے ہو ؟ اس شخص نے پوچھا۔ جی ! میں آپ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ آپ بالکل میرے ہم شکل ہیں۔ میرے والد کی شکل مجھ سے نہیں ملتی جبکہ آپ کو دیکھ کر یوں لگ رہا ہے کہ آج سے تیس برس بعد میں آپ جیسا ہوں گا۔ آپ کا نام کیا ہے ؟ مجھے یاسر فاروق کہتے ہیں۔ شام میں یہاں اکائونٹ کا کام کرتا ہوں، دن میں ایک اسٹیٹ ایجنسی میں ہوتا ہوں ۔ یاسر فاروق بڑے غور سے راحم کو دیکھ رہا تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ میں آپ سے دوستی کا خواہشمند ہوں تو آپ کا کیا جواب ہو گا ؟ دراصل مجھے بڑی عمر کے لوگ اٹریکٹ کرتے ہیں۔ راحم کی پیشکش سن کر یا سر فاروق کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ مجھے تمہاری دوستی پر کوئی اعتراض نہیں۔ تم جاتے ہوئے اپنا فون نمبر دے جانا، ہم کل صبح میں ملتے ہیں۔ او کے … راحم واپس اپنی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر اس نے بل ادا کیا اور جاتے ہوئے یا سر فاروق کو اپنا موبائل نمبر دے دیا۔ اگلے دن صبح وہ ناشتہ کرنے میں مصروف تھا کہ یا سر فاروق کی کال آگئی۔ میں ناشتے سے فارغ ہو کر آپ کی طرف آتا ہوں۔ راحم نے موبائل آف کرتے ہوئے کہا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ یاسر فاروق سے ملنے اس ریسٹورنٹ میں موجود تھا جہاں کل رات اس نے ڈنر کیا تھا۔ دو تمہیں دیکھ کر اپنے پن کا احساس ہوتا ہے ۔ راحم ! تم کہاں کے رہائشی ہو ؟ یاسر فاروق نے رسمی گفتگو کے بعد پوچھا۔ تعلیم بیٹار احم ! تمہیں دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ تم اتنے دولت مند ہو۔ انکساری اور خلوص تم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ میری پیدائش چکوال کی ہے ، میٹرک کرنے کے بعد میں یہاں آگیا تھا۔ انٹر تک پرائیویٹ تعلیم حاصل کی۔ میرے حالات کبھی بہتر نہیں رہے، ہمیشہ فکر معاش میں مبتلا رہا۔ پہلے میری بیوی فریدہ بھی نوکری کرتی تھی ، وہ پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی تھی۔ میری ماں کو فالج کا عارضہ ہوا تو فریدہ نے نوکری چھوڑ دی۔ میری ماں کی مسلسل دیکھ بھال کے لئے اس کا گھر پر رہنا ضروری ہو گیا تھا۔ جوانی میں ، میں اپنی تعلیم جاری رکھتا اور بہتر مستقبل کی جد وجہد کرتا تو آج میرا مستقبل یوں غیر محفوظ نہ ہوتا۔ اللہ نے اگر مجھے بیٹادیا ہوتا تو وہ آج میرا سہارا ہوتا۔ یا سر فاروق میری پیدائش اسی شہر کی ہے۔ مجھے اسلام آباد بہت پسند ہے۔ میرے والد بہت بڑے بزنس مین ہیں۔ ممی پچھلے دس سالوں سے سوشل ورک کر رہی ہیں۔ آپ بھی تو اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔ ریسٹورنٹ میں آنے والے لوگوں سے عام طور سے دوستی نہیں کرتا تھا۔ یہ راحم کی شخصیت کا اثر تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنی زندگی کا ہر ورق اس کے سامنے الٹ دے۔ دو تم یہاں کتنے دن قیام کرو گے ؟ یا سر فاروق نے پوچھا۔ دو مجھے یہاں تین دن اور قیام کرنا ہے۔ راحم یہ کہہ کر یا سر فاروق کو اپنے بزنس کے متعلق بتانے لگا۔ ایک گھنٹے بعد وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو۔ یاسر فاروق نے راحم کے اصرار کے باوجود کافی کابل خود ادا کیا۔ ویٹر نے رقم اٹھاتے ہوئے یا سر فاروق کی طرف دیکھ کر کہا۔ یہ لڑکا شکل وصورت کے اعتبار سے آپ کا بیٹا لگتا ہے۔ ویٹر کا تبصرہ سن کر ایک لمحے میں یاسر فاروق پچیس سال پیچھے چلا گیا، جب اس کے گھر میں تیسری اولاد کی پیدائش ہونے والی تھی۔ پھر یا سر فاروق کی خواہش کے مطابق بیٹا پیدا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب ! کیا میں اپنے بیٹے کو دیکھ سکتا ہوں ؟ یا سر فاروق نے خوشی سے سرشار لہجے میں ڈاکٹر سے پوچھا۔ دو نہیں ! ابھی آپ اس سے نہیں مل سکتے۔ بچے کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے ، اسے سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن آپ ہر بات کے لئے تیار رہیں۔ ہم ابھی آپ کی مسز کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ ڈاکٹر اتنا بتا کر آپریشن تھیٹر میں چلی گئی۔ پھر وہ لڑکا جس کا نام ان دونوں میاں، بیوی نے شاہ زیب طے کیا تھا، کچھ دیر بعد موت کے منہ میں چلا گیا۔ یاسر فاروق نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور اپنی پوری توجہ اپنی دونوں بیٹیوں پر مرکوز کر دی۔ اپنے بیٹے کی موت کے غم سے دونوں میاں ، بیوی ابھی نہیں سنبھلے تھے کہ بیٹے کی ولادت کے ایک سال بعد ان کی بڑی بیٹی جو پیدائشی طور پر دل کی بیماری میں مبتلا تھی، اس کی موت واقع ہو گئی۔ ایک کے بعد دوسرے صدمے نے یا سر فاروق کو نڈھال کر دیا تھا۔ اس نے اپنی پوری توجہ کا مر کز اب اپنی پانچ سالہ بیٹی ماریہ کو بنا لیا تھا۔ راحم کو رخصت کر کے وہ موٹر سائیکل پر گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا دماغ الجھا ہوا تھا۔ راحم کے ہننے کا انداز ، آنکھیں، کشادہ پیشانی حتی کہ دانت بالکل اس کی طرح کے تھے۔ راحم کے دانتوں کی نچلی قطار میں درمیان کے دانت ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے تھے۔ یہ دہرے دانت یا سر فاروق کے خاندان کی شناخت تھے۔ اس کے خاندان میں کسی فرد کے دانت ایسے ضرور ہوتے تھے۔ وہ راحم کو دیکھ کر شک میں مبتلا ہو گیا تھا۔ کیا ڈا کٹر سنجیدہ نے بچے کے بارے میں غلط بیانی کی تھی؟ اس نے اس کے بیٹے کی موت کی اطلاع دے کر کسی اور کے بچے کی لاش اس کے حوالے کر کے اس کا بیٹا کروڑ پتی بزنس مین کے حوالے کر دیا تھا؟ یہ حقیقت تھی یا جھوٹ ! اس کا پتا چلا نا اب اس کا کام تھا۔ آئے دن اخبارات میں اسپتال سے بچوں کی گمشدگی کی خبریں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ ان کاموں میں اسپتال کا عملہ ملوث ہوتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو اور اس کا بیٹا کسی اور کے حوالے کر دیا ہو۔ دولت سے بہت کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ گر یہ سچ ہے تو میرے ساتھ یہ دھوکا کیوں ہوا؟ یا سر فاروق نے اونچی آواز میں خود کلامی کی۔ اس وقت وہ اپنے گھر کے باہر موٹر سائیکل پر بیٹھا سوچ رہا تھا۔ اس وقت فریدہ نے گیٹ کھول کر جھانکا۔ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو ؟ گھر میں آنے کا ارادہ نہیں ہے کیا …؟ آرہا ہوں۔ مجھے سکون تو لینے دو۔ وہ موٹر سائیکل کو لاک کر کے گھر میں داخل ہوا۔ وہ فریدہ کے سامنے اپنے خدشوں اور شبہات کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ پچیس سال قبل بیٹے اور پھر بیٹی کو کھو دینے کا غم آج بھی موجود تھا۔ وہ با وجود کوشش کے انہیں بھلا نہیں پائی تھی۔ امی کو ناشتہ کرادیا تھا؟ ہاں ! تم اسٹیٹ ایجنسی جانے سے پہلے ان سے مل لینا۔ یا سر فاروق صحن سے ملحق ماں کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ ان کے بستر کے قریب کرسی کھینچتے ہوئے اس نے خوش خلقی سے خیریت دریافت کی۔ امی ! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ امی کے لرزیدہ ہونٹ کھلے ۔ انہوں نے مسکرانے کی کوشش کی۔ یاسر فاروق نے ان کے لرزتے ہوئے ہاتھ کو تھام کر بوسہ دیا۔ کچھ دیر امی کے پاس وقت گزار کر وہ اسٹیٹ ایجنسی کی طرف روانہ ہو گیا۔

راحم کی روانگی سے پہلے یا سر نے اس سے ملاقات کی۔ باتوں کے دوران اس نے راحم سے اس کے شہر کا پتا اور اس کے والد کا نام ، بزنس کی دیگر تفصیلات معلوم کر لیں۔ تیسرے دن یا سر فاروق اپنی پرانی قیام گاہ پر پہنچا۔ پرانی طرز کی اس بلڈنگ میں ان کا فلیٹ تھا۔ پچیس سال قبل یہاں وہ اور فریدہ، بیٹے کا مردہ جسم لئے اسپتال سے لوٹے تھے۔ یہاں اس کا ایک پرانا دوست مدثر رہتا تھا۔ مدثر کا تعلق پولیس کے محکمے سے تھا۔ بد عنوانی اور افسران سے بد تمیزی کرنے کی پاداش میں اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ گئے تھے۔ یا سر فاروق جب مدثر کے اپارٹمنٹ میں پہنچا تو وہ داخلی دروازے کے باہر کھڑا تھا۔ مدثر نے حیرت سے اسے دیکھا۔ کیا بات ہے تم اچانک آئے ہو، خیریت تو ہے ؟ دو تم کیا کہیں جارہے تھے ؟ یاسر فاروق نے اسے باہر کھڑا دیکھ کر پوچھا۔ ارادہ تو تھا کہیں جانے کا، گھر میں بور ہو رہا تھا۔ میری بیوی اپنی بہن کے گھر گئی ہوئی ہے۔ تم اندر آئو، میری بوریت دور ہو جائے گی۔ مدثر ا سے ساتھ لئے ڈرائنگ روم میں چلا آیا۔ تم خاصے موٹے اور بے ڈول ہو گئے ہو۔ مدثر نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ در صبح کی واک جو چھوڑ دی۔ پیر کی ہڈی میں تکلیف ہو گئی تھی سو واک ترک کرنا پڑی۔اب خاصا افاقہ ہے۔ سوچ رہا ہوں دوبارہ واک شروع کر دوں۔ مدثر ! مجھے ایک ضروری بات تم سے کرنی تھی۔ میرے بیٹے کی موت واقع نہیں ہوئی تھی۔ تم میری اس بات پر یقین نہیں کرو گے مگر میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ میں چند روز پہلے جس ہمشکل لڑکے سے ملا ہوں، وہ میرا بیٹا ہے۔ اچھا ! کیا اس لڑکے کی عمر بھی تمہارے بیٹے کی عمر جتنی ہے ؟ مدثر نے اس کی بات میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ وہ خود بے اولاد تھا مگر بچوں سے اسے بڑی انسیت تھی۔ اس لڑکے کی عمر اتنی ہی ہے جتنی اب میرے بیٹے کی ہونی چاہئے ، یعنی پچیس سال ! اس کی مجھ سے مشابہت کو ریسٹورنٹ میں میرے ساتھ کام کرنے والے اور لوگوں نے بھی محسوس کیا ہے ۔اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے دیکھ کر مجھے ایک عجیب احساس یگانگت محسوس ہوا۔ پہلی نظر میں جب میں نے اسے دیکھا، میرے جسم و جاں میں ایک انسیت کی جاگی تھی۔ میں تمہیں کیا بتائوں، وہ کیسا احساس تھا۔ مد ثر اس کی بات ختم ہوتے ہی بولا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے یا سر ! تمہارا بیٹا مر چکا ہے ، اس کی لاش کو تم نے خود دفن کیا ہے۔ وہ لاش جو مجھے دی گئی تھی ، وہ کسی اور کے بچے کی بھی ہو سکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر نے میرے بیٹے کو کسی اور کے حوالے کر دیا۔ یقینا اس نے دولت کے لالچ میں ایسا کیا ہو گا۔ پھر تم ڈاکٹر کو تلاش کر کے اس سے حقیقت اگلوانے کی کوشش کرو اور یوں ظاہر کرو کہ تم حقیقت جاننے کے بعد اس کے پاس آئے ہو۔ اگر وہ اپنی زبان نہیں کھولے گی تو پھر کوئی اور حربہ آزمائیں گے ، فی الحال تم اس سے اکیلے ملو۔ د میں ابھی جا کر اس کے کلینک کے بارے میں معلومات کرتا ہوں۔ وہ کس وقت وہاں ہوتی ہے۔ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ بیٹھو تو سہی، چائے تو پی لیتے۔ مدثر نے کہا۔ فی الحال مجھے اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی جلدی ہے۔ میں سخت اضطرابی کیفیت میں ہوں۔ یا سر فاروق یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آیا۔

کسی زمانے میں ڈاکٹر سنجیدہ کا چھوٹا سا اسپتال تھا، جسے اب اس کی بیٹی نے سنبھال لیا تھا۔ ڈاکٹر سنجیدہ وہاں شام میں ایک گھنٹے کے لئے آتی تھی۔ ڈاکٹر سنجیدہ سے ملنے یاسر فاروق اس کے کمرے میں پہنچا تو اس نے اس کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جی فرمائیے ؟ اس کی آنکھوں میں یاسر کے لئے شناسائی نہیں تھی۔ جو ریوالور یا سر نے مدثر سے مستعار لیا تھا، جیب میں اس کا بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔ پچیس سال پہلے آپ کے ہاتھوں میرے بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔ بیٹے کے پیدا ہونے کے بعد آپ نے مجھے بتایا تھا کہ اسے سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے پھر کچھ دیر بعد مجھے اس کی موت کی اطلاع دی گئی تھی۔ اب پچیس سال بعد میری ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی جو مجھ سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس بات کو میرے علاوہ اور لوگوں نے بھی نوٹ کیا ہے۔ لڑکے کا کہنا ہے اس کے والدین نے اسے گود لیا ہے۔ آپ کیا کہتی ہیں ڈاکٹر …؟ یا سر فاروق نے آخری جملہ کہتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیا۔ یہ آپ کسی قسم کی احمقانہ بات کر رہے ہیں ؟ یہاں سے فوراً چلے جائیں۔ یا سر فاروق نے کرسی سے اٹھ کر دروازہ لاک کر دیا۔ اگلے لمحے اس نے ڈاکٹر سنجیدہ کے ہاتھ سے فون چھینتے ہوئے جیب سے ریوالور نکال لیا۔ ریوالور دیکھ کر ڈاکٹر سنجیدہ کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ آپ کیا چاہتے ہو ؟ اس کے منہ سے بمشکل نکلا۔ د میں صرف سچ سننا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر سنجیدہ چند منٹ خاموش رہی، جیسے بولنے سے پہلے سوچ رہی ہو۔ میں آپ کو حقیقت بتانے کو تیار ہوں۔ وہ شاہنواز رئیسانی تھا۔ اس نے مجھے اتنی بڑی رقم کی پیشکش کی تھی کہ میں لالچ میں آگئی۔ ان کے ہاں اولاد ہوتی تو تھی مگر زندہ نہیں رہتی تھی۔ شاہنواز کی بیوی سخت ذہنی دبائو کا شکار رہنے لگی تھی۔ شاہنواز کو اپنی بیوی کی بڑی فکر تھی۔اس نے بیوی کی زندگی بچانے کے لئے مجھ سے یہ کام کروایا تھا۔ جس دن آپ کا بیٹا پیدا ہوا تھا، اس کے کچھ دیر بعد ہی شاہنواز کی بیوی نے مردہ بچے کو جنم دیا تھا۔ میں نے اس مردہ بچے کو تمہارے حوالے کر دیا تھا۔ میں اپنی اس حرکت پر شرمندہ ہوں۔ میں نے واقعی بہت بڑی غلطی کی ، بہت بڑا جرم کیا۔ یا سر فاروق کچھ دیر سوچتا رہا، پھر اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔ مجھے نہیں معلوم، میں آپ کے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ بہت ممکن ہے میں آپ کو پولیس کے حوالے کردوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ریوالور واپس ج میں رکھ لیا۔ مجھے سب سے پہلے شاہنواز رئیسانی سے ملنا ہو گا۔ جیب یا سر فاروق کے جارحانہ تیور دیکھتے ہوئے ڈاکہ تیور دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سنجیدہ بولی۔ آپ یہ کیوں آپ یہ کیوں نہیں سمجھ لیتے کہ آپ کا بیٹا زندہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی تو آپ اسے مردہ سمجھتے رہے ہیں۔ آپ اپنی زبان بند رکھنے کی کیا قیمت لیں گے ؟ عورت ہونے کے ناتے میں آپ پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ میرا بیٹا زندہ ہے ، میں اسے مردہ کیسے مان لوں ۔ آپ اپنی آفر اپنے پاس رکھیں۔ یاسر فاروق دروازے کا لاک کھول کر غصے میں تنتناتا ہوا باہر نکل گیا۔

کئی دن تک یاسر فاروق اس ادھیڑ بن میں رہا کہ اسے کیا کرنا چاہئے ۔ جتنا وہ سوچتا، اتنا خود کو پریشان پاتا۔ اس کی حالت جیل میں قید اس قیدی کی سی تھی جسے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آرہا ہو۔ وہ فریدہ کو کچھ نہیں بتا سکتا تھا۔ وہ ہنگامہ کھڑا کر دیتی۔ نہ ہی وہ راحم کے پاس جا کر یہ کہہ سکتا تھا کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ یہ علم ہو جانے کے بعد کہ یاسر فاروق اس کا حقیقی باپ ہے، راحم کی پر سکون زندگی میں طوفان برپا ہو سکتا تھا۔ راحم جذبات میں آکر کچھ بھی کر سکتا تھا۔ وہ اگر اس کے شہر جا کر شاہنواز سے ملتا تو وہ اس کے لئے خطر ناک بھی ہو سکتا تھا۔ راحم کو وہ گزشتہ پچیس برس سے اپنے بیٹے کی طرح رکھے ہوئے ہے۔ اس کے پاس بے پناہ دولت ہے، جس کے بل پر وہ بہت کچھ کر سکتا ہے۔ یا سر فاروق خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔ وہ عدالت کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ نہ ہی اپنے بیٹے سے دستبردار ہونے کو تیار تھا۔ یاسر فاروق کو پورا یقین تھا کہ ڈاکٹر سنجیدہ نے شاہنواز کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا ہو گا اور نہ شاہنواز نے حالات سے مقابلے کی تدبیریں شروع کر دی ہوں گی، تاکہ اس کی پر سکون زندگی میں آنے والے کسی بھی خطرے کا سد باب قبل از وقت ہو جائے۔ یا سر فاروق سوچوں میں گم بستر پر لیٹا تھا کہ فریدہ خاموشی سے اندر چلی آئی۔ اس کے کمرے میں آنے کی اسے خبر نہ ہوئی۔ د میں کئی دنوں سے محسوس کر رہی ہوں تم کچھ پریشان سے رہنے لگے ہو۔ فریدہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔ کچھ دنوں سے بیٹے کی کمی کا احساس شدت سے ہو رہا ہے۔ دو میں سمجھ سکتی ہوں۔ میں خود آج تک اپنے بچوں کو نہیں بھلا پائی۔ فریدہ نے ایک سرد آہ بھری۔ بہت دنوں سے ماریہ نہیں آئی۔ میرا اس سے ملنے کو دل چاہ رہا تھا۔ یاسر فاروق کے استفسار پر فریدہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ میں جانتی ہوں اس لئے میں نے اسے شام میں بلایا ہے۔ آج وہ ڈنر ہمارے ساتھ کرے گی۔ ٹھیک ہے ، میں شام میں گھر پر ہی رہوں گا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے گھڑی پر نظر ڈالی ۔ میں ایجنسی میں جارہا ہوں، کوئی چیز منگوانی ہے تو بتا دو۔ فریدہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ یا سر فاروق نے کپڑے تبدیل کئے اور گھر سے روانہ ہوا۔ اسٹیٹ ایجنسی پہنچ کر اسے ایک گھنٹہ ہوا تھا کہ فون کی بیل بجی۔ مسٹر یا سر ! ایک اجنبی آواز ابھری۔ میں شاہنواز رئیسانی بول رہا ہوں۔ کیا تم مجھ سے باہر آکر ملاقات کر سکتے ہو ؟ میری کار ایجنسی کے باہر موجود ہے۔ آپ اندر کیوں نہیں آجاتے ؟ اچھا ہے ہم لوگ اکٹھے نہ دیکھے جائیں۔ یہ ہم لوگوں کے ساتھ ساتھ راحم کے حق میں بھی بہتر ہے۔ بات بالکل واضح ہو گئی تھی۔ شاہنواز کو ساری باتوں کا علم ہو چکا ہے ۔ یا سر فاروق نے سوچا۔ یہ شخص جو تجارت کے مسائل حل کرنے کا ماہر مانا جاتا ہے ، یقینا کوئی ایسی راہ نکالے گا جس سے اس کا دکھ کم ہو سکے۔ او کے ! میں آتا ہوں۔ ایجنسی سے کچھ فاصلے پر شاہنواز کی قیمتی کار کھڑی تھی۔ شاہنواز نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا۔ کار کا پچھلا دروازہ کھلا ، یاسر فاروق بیٹھ گیا۔ شاہنواز رئیسانی گرے رنگ کے قیمتی سوٹ میں ملبوس تھا۔ اس کا چہرہ سرخ و سفید تھا۔ تمہارے آنے کا شکریہ ! شاہنواز بولا ۔ کار آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔ آپ مطلب کی بات کریں۔ واقعے کی حقیقت جاننے کے بعد میری کیفیت کو آپ نہیں سمجھ سکتے ۔ دو غلطی میری ہے، مجھے راحم کو یہاں نہیں بھیجنا چاہئے تھا۔ یہ بات میرے وہم و گمان میں نہیں تھی کہ یہاں اس کی تم سے ملاقات ہو جائے گی اور تم اس سے اپنی مشابہت کی بنا پر اسے شناخت کر لو گے اور ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر بیچ اگلوالو گے۔ میں تمہاری ہمت اور ذہانت کی داد دیتا ہوں۔ تم نے جو تیر چلایا، وہ نشانے پر لگا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں خود پر کتنا قابورکھتا، اگر میں تمہاری جگہ ہوتا۔ ہم وقت کو پیچھے نہیں لے جاسکتے ، میں تمہارے نو مولود بیٹے کو تمہیں نہیں دے سکتا کیو نکہ اب وہ ایک جوان لڑکا ہے اور مجھے اور میری بیوی کو ماں ، باپ سمجھتا ہے۔ ہم میاں، بیوی اسے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں، وہ بھی ہمیں دل و جان سے چاہتا ہے۔ بہتر ہے تم مجھے کار سے اتر جانے دو۔ یا سر فاروق بیزاری سے بولا۔ دو نہیں ! میری بات غور سے سنو۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ اس بریف کیس میں بہت بڑی رقم موجود ہے، ایک کروڑ روپے …! بہت ممکن ہے میری پیشکش سے تمہیں تکلیف پہنچ رہی ہو لیکن بتائو میں تمہیں پہنچنے والے نقصان کی اور کس طرح تلافی کروں ؟ یقین کرو یہ آج کی بڑی حقیقت ہے۔ بے شمار لوگ اسی تمنا میں مر جاتے ہیں کہ ان کے پاس دولت کی فراوانی ہو کہ زندگی کو زندگی کی طرح گزار سکیں۔ دو تم نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے دو طریقے ہو سکتے ہیں ؟ یاسر فاروق نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے پوچھا۔ شاہنواز کے چہرے سے تردد جھلک رہا تھا۔ تم مجھ سے تعاون سے انکار کرتے ہو تو مجھے لازماً اپنی عزت و وقار ، اپنے گھر کی خوشیوں کی خاطر کوئی انتہائی قدم اٹھا نا پڑے گا اور میں ایسا نہیں چاہتا۔ یاسر فاروق خاموش رہا۔ شاہنواز نے نوٹوں سے بھرا بریف کیس کھول کر اس کے سامنے کر دیا۔ یا سر فاروق کے پاس سوچنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ اپنی بیمار ماں کے لیے پرائیویٹ نرس کا انتظام ، اپنا کاروبار اور ذاتی گھر ! وہ اپنی تشنہ آرزوئوں کی تکمیل کر سکتا تھا جن کے منصوبے وہ زندگی بھر بناتا رہا تھا۔ یاسر فاروق کے دل میں ایک کشمکش جاری تھی۔ دو مجھے تمہاری اندرونی کیفیت کا اندازہ ہے۔ راحم کو دیکھ کر تم پر کیا گزر رہی ہو گی، بے شک وہ تمہارا بیٹا ہے لیکن جس شخص کو وہ باپ مانتا ہے، وہ میں ہوں۔ وہ مجھ سے شدید محبت کرتا ہے۔ اگر کچھ غلط ہو گیا تو اس کی زندگی جہنم بن جائے گی۔ عدالت کے چکر ، میڈیا میں تشہیر … ! بہت سی باتیں جن سے اس کی زندگی تلخ ہو جائے گی۔ اور تمہاری زندگی …! کم از کم تم جہاں رہتے ہو ، اسی شہر کی جیل میں تمہیں رہنا پڑے گا۔ یاسر فاروق نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ یہ بات آج سے بیس بائیس سال پہلے ممکن تھی ، اب ایسا نہیں ہو گا۔ مجھ میں اتنی قوت اور میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں قانون کو خرید سکتا ہوں۔ اس کے برعکس تم کسی حادثے میں اپنی جان گنوا سکتے ہو۔ دو تم مجھے ڈرا رہے ہو ، میں موت سے ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ دو بہتر ہے تم اس معاملے پر چپ سادھ لو۔ میری بیوی کے لئے یہ انکشاف جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ میں اپنی بیوی کو کوئی دکھ دینا نہیں چاہتا۔ آج میں جس مقام پر ہوں، میری کامیابی کے پیچھے میری بیوی کا ہاتھ ہے۔ میں چاہتا تو دوسری شادی کر کے اولاد کی خواہش پوری کر سکتا تھا، مگر میں اپنی بیوی کو دکھ دینا نہیں چاہتا۔ تم ابھی جذباتی ہو رہے ہو ، ٹھنڈے دل سے سوچنا۔ تم راحم کا ذہنی سکون تباہ کرنے کے درپے ہو۔ میرا نہیں تو کم از کم اس کے سکون کا خیال کر لو۔ یہ کہتے ہوئے شاہنواز نے رقم سے بھرا بریف کیس آہستہ سے تھپتھپایا۔ اسے رکھ لو، تم اپنے بہت سے خوابوں کی تعبیر پا سکو گے۔ یاسر فاروق نے بریف کیس اس سے لے لیا۔ شاہنواز کی کار واپس اسٹیٹ ایجنسی کی طرف چلی۔ ایجنسی سے کچھ فاصلے پر یا سر فاروق بریف کیس اٹھائے کار سے اترتے ہوئے بولا ۔ ایک بات اچھی طرح سے سن لو۔ اس راز میں میرے علاوہ میرا ایک بااثر دوست بھی شریک ہے۔ میرے ساتھ تم نے کوئی غلط حرکت کی تو وہ پوری کہانی پولیس تک پہنچا دے گا۔ کیا میں تمہارے اس بااثر دوست کا نام پوچھ سکتا ہوں۔ دو تم نے مجھے کیا بے وقوف سمجھا ہے۔ اس کا نام بتانے کا مطلب یہ ہو گا کہ میں اپنے پائوں پر کلہاڑی مار دوں۔ جائو بہتر یہی ہے کہ ہماری آئندہ ملاقات نہ ہو ۔ شاہنواز نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور کار آگے بڑھ گئی۔ یا سر فاروق بریف کیس ہاتھ میں لئے سوچ رہا تھا کہ اسے رقم کو بینک میں جمع کروانا چاہئے یا گھر لے جانا چاہئے ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے ٹیکسی پکڑی اور گھر روانہ ہوا۔ اپنے پاس اتنی بڑی رقم کی موجودگی سے اسے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ راستے بھر وہ متوقع ڈاکو کی موجودگی سے خوف زدہ رہا۔ گھر پہنچا تو فریدہ نے اس کے ہاتھ میں بریف کیس دیکھ کر استفسار کیا۔ اس میں کیا ہے ؟ اس میں کسی کے مکان کے کاغذات ہیں۔ اگر سودا ہو گیا تو خاصی بڑی رقم ہاتھ آئے گی۔ دم بھی کچھ دیر پہلے تمہارے دوست مدثر کا فون آیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ تمہارا موبائل بند ہے۔ آج تم جلدی آگئے؟ خیریت تو ہے؟ ہاں ! خیریت ہے۔ میں مدثر کو فون کر لیتا ہوں۔ یاسر فاروق فوراً مد ثر کا نمبر ملا کر بولا۔ خیر تو ہے تم مجھے فون کر رہے تھے ؟ ہاں ! میں نے یہ پوچھنے کے لئے فون کیا تھا کہ تم نے جو انکشاف کیا تھا، اس کے بعد تمہارا کیا ارادہ ہے۔ تم شاہنواز کے خلاف کیس دائر کرو گے ؟ د سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں۔ وہ آج آیا تھا۔ میں تمہارے پاس آکر تمہیں تفصیل بتاتا ہوں۔ د مجھے بھی تمہیں ایک بات بتانی تھی۔ میں آج ڈاکٹر سنجیدہ کے کلینک گیا تھا۔ میں نے اسے پولیس کا پرانا کارڈ دکھایا۔ اسے کیا معلوم کہ اب یہ کار ڈکار آمد نہیں ہے۔ میں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ وہ تم سے تعاون کرے۔ مدثر ! میں نہیں سمجھتا کہ تم نے کوئی عقلمندی کا کام کیا ہے۔ میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا !‘ مدثر کے لہجے میں حیرانی تھی۔ دو میں تمہارے پاس آرہا ہوں، باقی باتیں وہیں ہوں گی۔ یا سر فاروق نے موبائل آف کر دیا۔ فریدہ بولی۔ یہ مدثر کے ساتھ کیا کھچڑی پک رہی ہے ؟ اس سے دوستی اچھی نہیں ہے۔ مجھے پتا ہے ۔ کچھ کام ہے تب ہی اس کے پاس جارہا ہوں، ورنہ مجھے بھلا کہاں فرصت ہے۔

یاسر فاروق جیسے ہی مدثر کی بلڈنگ کے پاس پہنچا تو گیٹ کے باہر لوگوں کا جمگھٹا لگادیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ لوگوں کی زبانی اسے پتا چلا کہ مدثر کچھ دیر پہلے سامان لینے کی غرض سے نکلا تھا کہ تیز رفتار ٹرک کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا۔ یا سر فاروق یہ سنتے ہی اسپتال روانہ ہو گیا۔ اسپتال پہنچنے تک یا سر فاروق کا ذہن الجھا رہا۔ پورے راستے وہ سوچتا رہا کہ اگر مد ثر اس کے معاملے میں نہ پڑتا تو آج زندہ ہوتا۔ مدثر کی لاش ضروری کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی تھی۔ اس کی تدفین تک یا سر فاروق اس کے اپارٹمنٹ میں رہا۔ گھر پہنچتے ہوئے وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اسے اگلا قدم کیا اٹھانا ہے۔ اس کے پاس مدثر کاریوالور موجود تھا۔ وہ شاہنواز کو ختم کر دینا چاہتا تھا۔ وہ مدثر کی موت کا ذمہ دار شاہنواز کو سمجھ رہا تھا۔ گھر جاتے ہی وہ بستر پر لیٹ کر تھکن اتارتے ہوئے سوچنے لگا کہ اگلا قدم کیا اٹھانا ہے۔ فریدہ اس کے لئے کھانا لے کر آگئی ۔ کل سے تم مدثر کے گھر پر تھے ، کھانا کھالو، تھکن سے تم نڈھال نظر آرہے ہو۔ یا سر فاروق اٹھ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑا سا کھانا کھا کر اس نے ٹرے ایک طرف سر کا دی اور الماری سے بریف کیس نکال کر فریدہ کے حوالے کر دیا۔ یہ رقم بینک میں جمع کرا دینا۔ فریدہ نے بریف کیس کھول کر اس پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور بولی۔ تم تو کہہ رہے تھے اس میں کسی مکان کے کا غذات ہیں، یہ تو خاصی بڑی رقم ہے۔ پورے ایک کروڑ ہیں ۔ یہ رقم ہماری ہے۔ اب تم ایک دولت مند آدمی کی بیوی ہو۔ یاسر فاروق نے گمبھیر آواز میں کہا۔ یہ رقم تمہیں کہاں سے ملی ؟ فریدہ نے سنجید گی سے پوچھا۔ د میں نے بہت پہلے ایک پلاٹ خریدا تھا۔ اس کا ذکر میں نے تم سے نہیں کیا۔ اس کی قیمت پندرہ سالوں میں کافی بڑھ گئی ہے۔ میں نے وہ بیچ دیا ہے ۔ مجھے تمہاری اس بات پر یقین نہیں آرہا ہے۔ دیقین نہیں آرہا تو مت کرو۔ تم اس معاملے میں مجھ سے بحث نہیں کرو گی ۔ مدثر کی موت سے میں سخت اپ سیٹ ہوں، اوپر سے تم مجھے سکون نہیں لینے دے رہی ہو۔ ٹھیک ہے ، آپ آرام کریں۔ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔ فریدہ کے کمرے سے جانے کے بعد یاسر فاروق لیٹ گیا۔ اس کا ذہن مدثر کی ناگہانی موت میں الجھا ہوا تھا۔ میں نے بڑی غلطی کی جو مدثر کو اپنے راز میں شامل کر لیا، پھر اس سے بڑی ایک اور غلطی کی کہ شاہنواز کے سامنے انکشاف کر دیا کہ میرا ایک ساتھی بھی ہے جو ان تمام باتوں سے آگاہ ہے۔ مدثر نے بہت بڑی بے وقوفی کی کہ اپنے طور پر دوڑا ہوا ڈاکٹر کے پاس چلا گیا اور اپنی شناخت کروادی۔ یا سر فاروق نے کروٹ لی اور سوچنے لگا کہ اگر وہ کچھ نہیں کرے اور اس معاملے میں چپ سادھ لے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شاہنواز اسے زندہ چھوڑ دے گا۔ مدثر کی موت کے بعد اب شاہنواز کی راہ میں صرف ایک شخص کھڑا ہے جو اسے مجرم ثابت کر سکتا ہے۔ پولیس نے مدثر کے ایکسیڈنٹ کو حادثہ قرار دیا تھا۔ ٹرک ڈرائیور گرفتار ہو گیا تھا اور اس نے اپنا جرم قبول کر لیا تھا، مگر یا سر فاروق کو یہ سب شاہنواز کا منصوبہ لگ رہا تھا۔ اس نے اسی وقت شاہنواز کا فون نمبر ملایا۔ کافی دیر بیل جانے کے بعد شاہنواز نے فون اٹھا لیا۔ ہیلو! میں یا سر بات کر رہا ہوں۔ دو تم نے مجھے فون کرنے کی زحمت کیوں گوارا کی۔ کہو کیا مزیدر تم چاہئے؟ شاہنواز کے لہجے میں سخت ناگواری تھی۔ تم نے مدثر کو مروا کر اچھا نہیں کیا۔ میں تمہیں ہر گز معاف نہیں کروں گا۔ دو کون مدثر…؟ تم سراسر مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔ شاہنواز غصے میں چلایا۔ انجان بننے کی ضرورت نہیں۔ مدثر میرا دوست تھا جو میرے علاوہ راحم کی اصلیت جانتا تھا۔ تم نے …! شٹ اپ ! بکواس بند کرو، تم بلا وجہ مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں راحم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے تمہارے دوست کو قتل نہیں کیا ۔ شاہنواز اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ راحم کون سا تمہاری حقیقی اولاد ہے جو میں تمہاری بات پر یقین کر لوں۔ حقیقی اولاد نہ سہی مگر میں اور میری بیوی اسے اپنی سگی اولاد سمجھتے ہیں۔ تم ہوا میں تیر چلا رہے ہو۔ میرے اور تمہارے درمیان آئندہ کوئی گفتگو نہیں ہو گی۔ تم میرا اور میرے گھر کا سکون برباد کرنا چاہتے ہو۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ تم میرے ہی نہیں میرے دوست کے بھی مجرم ہو۔ تم مجھ پر قتل کا جھوٹا الزام لگارہے ہو۔ میرے اور تمہارے درمیان معاملات طے پانے کے بعد مجھے کسی کو مروانے کی کیا ضرورت تھی۔ تم جذباتی ہو کر سوچ رہے ہو۔ ہوش سے کام لو، کیوں اپنا اور میر اذہنی سکون تباہ کر رہے ہو ؟ شاہنواز نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ دو تم اپنی صفائی میں جو چاہے کہہ لو، میں وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا۔ شاہنواز نے فون کاٹ دیا۔ یا سر فاروق دوبارہ لیٹتے ہوئے بڑ بڑایا۔ میں نے جو سوچا ہے ، وہی کرنا چاہئے ۔ بہترین دفاع حملے میں پہل کرنا ہے ۔ سوچتے سوچتے یا سر فاروق کی آنکھ لگ گئی۔ وہ دن اس نے بڑی مشکل سے گزارہ۔ رات میں اس نے فریدہ کو بتایا کہ وہ اسٹیٹ ایجنسی کے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جارہا ہے اور صبح ہی روانہ ہو جائے گا۔ تم ؟ کب تک واپس آئو گے ؟ فریدہ نے پوچھا۔ دم بھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ زمین کے سودے کے سلسلے میں جارہا ہوں۔ کام ہوتے ہی لوٹ آئوں گا۔ فریدہ نے اس کی بات سمجھتے ہوئے سر ہلا دیا۔ اگلے دن صبح چار بجے یا سر فاروق نے بستر چھوڑ دیا۔ غسل کرنے اور تیار ہونے کے بعد وہ اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس کے لئے یہ شہر ا جنبی نہیں تھا۔ راحم کا دیا ہوا پتا اس کے پاس موجود تھا۔ تھوڑی سی دشواری کے بعد وہ شاہنواز کی کو ٹھی کے باہر موجود تھا۔ اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو بل ادا کیا اور کو بھی کے نزدیک موجود درختوں کے پاس کھڑا ہو گیا۔ کو ٹھی کے آہنی گیٹ کے پاس گھنے درخت تھے ۔ گیٹ کے سامنے شاہنواز کی کار کھڑی تھی جسے وہ دیکھتے ہی پہچان گیا تھا۔ شاہنواز ایسے درخت کی آڑ میں کھڑا تھا جہاں سے وہ کوٹھی کے گیٹ پر نظر رکھ سکتا تھا۔ یاسر فاروق باہر کھڑا شاہنواز کا انتظار کرنے لگا۔ نو بجے کے بعد کو تھی کے داخلی گیٹ سے ڈرائیور نکلا، اس نے کار کی ڈرائیونگ نشست کا دروازہ کھولا۔ کار صاف کرنے والا کپڑا کار کے اندر سے نکالا اور چمچماتی کار مزید صاف کرنے لگا۔ یا سر فاروق اسی وقت کا منتظر تھا۔ اس نے اپنی جیب میں موجود ریوالور پر ہاتھ پھیرا ۔ کار پر کپڑا پھیرنے کے بعد ڈرائیور نے اپنی دستی گھڑی پر نظر ڈالی۔ ہر چیز بالکل تیار تھی۔ ڈرائیور چاق و چوبند کھڑا تھا، جیسے کسی بھی لمحے اسے اپنے مالک کی آمد متوقع ہو۔ چند سیکنڈ بعد گیٹ کھلا۔ یاسر فاروق نے دیکھا اس سے کچھ فاصلے پر شاہنواز کھڑا ہے۔ شاہنواز سفید سوٹ میں ملبوس تھا۔ اس کی شخصیت اس کی شان و شوکت کو ظاہر کر رہی تھی۔ یا سر فاروق بے تحاشاد وڑتا ہوا اس کے نزدیک پہنچ گیا۔ شاہنواز نے اپنی جانب یا سر فاروق کو آتا ہوا اور اس کے ہاتھ میں درباریوالور د یکھا تو کسی قدر بد حواس ہوا۔ یاسر فاروق نے اسے نشانے پر لے لیا۔ ایک منٹ ذرا میری بات سنو ۔ شاہنواز نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔ اس لمحے گیٹ پر موجود گارڈ نے گن تان لی۔ یاسر فاروق پریشان ہوا کیونکہ شاہنواز اس کے ریوالور کی زد میں تھا۔ گارڈ اس پر فائر کرنے کی حماقت نہیں کر سکتا تھا۔ عین اسی وقت کھلے گیٹ سے راحم باہر نکلا، اس کی نگاہ یا سر فاروق اور اس کے ہاتھ میں پکڑے ریوالور پر گئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ اس کی اور یاسر فاروق کی آنکھیں ایک دوسرے سے ملیں۔ راحم کے چہرے کے رنگ تیزی سے بدلنے لگے ۔ وہ اسے یہاں دیکھ کر حیران ہوا، لیکن کسی قیامت کے احساس سے خوف زدہ ہو گیا اور کچھ سمجھنے کی کوشش میں پلکیں جھپکانے لگا۔ یا سر فاروق نے اسے ڈوبی ڈوبی نظروں سے دیکھا۔ گارڈ کے ریوالور نے یکے بعد دیگرے دو گولیاں انگلیں۔ دونوں گولیاں یا سر فاروق کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔اس کے ہاتھوں میں ابھی طاقت تھی۔ شاہنواز اس کے نشانے پر تھا۔ راحم اس کے قریب آ گیا تھا۔ یاسر فاروق کی نگاہیں ان دونوں کے وجود سے ٹکرائیں۔ اس نے لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے ریوالور کا رخ زمین کی جانب کر دیا۔ ڈیڈ ! یہ شخص آپ کو کیوں مارنا چاہتا تھا۔ میں اس شخص کو جانتا ہوں۔ یہ اسلام آباد کو جانتا ہوں۔ یہ اسلام آباد کے ایک ریسٹورنٹ میں کام کرتا ہے۔ گارڈ وحشت کے عالم میں یا سر فاروق پر جھکا اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یا سر فاروق کے پاس چند لمحے رہ گئے تھے۔ اس کی بینائی تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ وہ ابدی نیند کی وادیوں میں جارہا تھا۔ یا سر فاروق مرنے سے پہلے مطمئن تھا۔ اس نے آخری لمحے میں ایک صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اسے اسپتال لے چلیں ؟ راحم بولا۔ یہ تو مر چکا ہے۔ ڈرائیور نے نبض ٹولنے کے بعد کہا۔ انسان بھی بھی عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ سمجھ میں نہ آنے والی ! شاہنواز بڑ بڑایا۔ ارد ارد گرد لوگ جمع ہونے لگے کچھ تھے۔ شاہنواز نے راحم کا بازو پکڑ کر کہا۔ آئو اندر چلیں، پولیس کو اس واقعے کی اطلاع کرنی ہے۔ راحم نے ایک نظر یا سر فاروق کے مردہ چہرے پر ڈالی اور شاہنواز کے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گیا۔

·
Added a post

السلام علیکم آپی!

وعلیکم السلام کیسی ہو عریبیہ جیتی رہو خوش رہو گھر میں سب خیریت ہے۔ میاں بچے سب کیسے ہیں ۔ ہاں آپی! سب خیریت ہے۔ بھائی آئے تھے آج اچھا، نوید بھائی آئے تھے۔ ہاں یہیں قریب ، دکان کے کام سے آئے تھے بس تھوڑی دیر ہی بیٹھے جلدی میں تھے۔ دوسوٹ دے کر گئے ہیں کہہ رہے تھے ایک تمہارا ہے اور ایک حمیرا کا ہے، رمضان میں سلوا کر پہن لینا تمہاری بھابھی کل ہی لائی تھیں۔آپی! میں تو اتنا خوش ہوئی بھائی کا شکریہ ادا کیا لیکن ابھی کپڑوں کی تھیلی کھولی تو دل جل کر کباب ہو گیا۔ کیوں؟ بھئی ایسا کیا ہو گیا جو تم نے دل پرلے لیا۔ آپی خود تو بھا بھی ہمیشہ ایک سے ایک کپڑے پہنتی ہیں۔ برانڈز کے اور میرا اور تمہارا سوٹ اتنا عام سا ہے۔ بس رنگ کا فرق ہے پرنٹ ایک ہی ہے۔ لگتا ہے جمعہ بازار سے لیا ہے کپڑا بھی کچھ خاص نہیں ہے۔ اتنا دل برا ہو رہاے کہ دل چاہ رہا ہے کہ بھابھی کو فون کر کےخوب سناؤں کہ خود ایسا پہنتی ہیں جو ہمیں یہ دیا ہے۔ عربیبہ! یہ غلطی نہ کرنا بھائی سے بنا کر رکھنی ہے تو بھا بھی ہے نہ بگاڑو۔یہ خوب کہی تم نے، ہاں، غلطی ہے، غلطی ہی کرو گی۔ دروازے کھلے رکھو۔کیا مطلب آیا؟ارے، آج ایسا ہے، کل اچھا بھی دیں گی۔ یہ تو میکے کا مان ہوتا ہے، آج ایسا دیا ہے، کل اچھا بھی دے گا۔اس مہنگائی کے دور میں بھائی، بھاوج نے ہمارا خیال کیا، ہمارے بارے میں سوچا، کیا یہ بہت بڑی بات نہیں ہے؟ پہنچا کر بھی گیا ہے۔آپی! سوٹ دینے کا خیال آ ہی گیا تھا تو اچھا دے دیتے۔کیسی باتیں کر رہی ہو، عریبہ! رشتے چیزوں کی کوالٹی سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔خوشی سے رکھو اور بھابھی کو فون کر کے شکریہ ادا کرو۔ بھابھی کو ہلکا سا بھی شبہ نہ ہو کہ تمہیں ان کا دیا ہوا سوٹ پسند نہیں آیا۔ابھی اول تو نہیں چاہ رہا، لیکن تم کہہ رہی ہو تو کر لوں گی۔ہاں ضرور کرنا، اور میں بھی فون کروں گی بھابھی کو۔حمیرا نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔

رمضان سے پہلے حمیرا نے اپنا اور عریبہ، دونوں کا سوٹ درزی سے سلوایا۔ عریبہ تو بالکل تیار نہ تھی۔آپی! بیکار سلائی جائے گی، تمہیں تو پتا ہے، میں اتنے بڑے بڑے پرنٹ نہیں پہنتی۔بس بھائی کے ہاں روزہ کھولنے جائیں گے تو دونوں بہنیں یہی سوٹ پہن کر جائیں گی۔بعد میں بھلے نہ پہننا، کہہ دیا ہے میں نے، اب کچھ نہ سنوں! حمیرا نے ڈانٹ کر چھوٹی بہن کو خاموش کروا دیا۔

بھائی نے روزہ کھولنے کو بلایا تو عریبہ اور حمیرا کو اپنے سوٹ پہنے دیکھ کر بھاوج نے مسکرا کر کہا، تم لوگوں نے سلو ا کر پہن بھی لیے؟ارے بھابھی! آج ہی نئے پہن کر آپ کے گھر آئے ہیں۔ رمضان کا جمعہ بھی تھا، تو بس نماز بھی پڑھی نئے سوٹ میں۔حمیرا نے چہک کر جواب دیا۔میری دیورانی تو کہہ رہی تھی کہ، حمیرا بھابھی، آپ تو اتنے ڈارک کلر نہیں پہنتیں۔ میں نے تو کہہ دیا، میرےبھائی، بھاوج نے دیا ہے یہ، کلر تھا بھی نہیں میرے پاس۔عریبہ حمیرا اور بھاوج کی باتیں سن رہی تھی اور دل میں سوچ رہی تھی، آپی بھی ناں، اتنی بڑھا چڑھا کر تعریفیں کر رہی ہیں۔ اتنا بے کار سوٹ ہے، میں تو اپنا سوٹ ماسی کو دے دوں گی۔حمیرا کے گھورنے اور کہنی مارنے پر عریبہ نے بھی ہلکی پھلکی تعریف کر ہی دی سوٹ کی

ہفتے، مہینے، سال تو ایسے گزرنے لگے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا۔شعبان کی آخری تاریخیں چل رہی تھیں، رمضان کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ فون کی بیل ہوئی تو حمیرا نے فون اٹھایا۔ دیکھا تو عریبہ کی کال تھی۔السلام علیکم! وعلیکم السلام! خیریت؟ صبح صبح؟ ہاں آپی! بھائی آئے تھے آج کہہ رہے تھے شام میں دونوں بہنیں چکر لگا لو اور اپنے سوٹ بھی پسند ہے لے جاؤ تمہاری بھابھی نے لے کر رکھے ہیں۔میرا تو آپی! بالکل دل نہیں چاہ رہا۔ بھا بھی نے پچھلے سال کی طرح بے کا رسوٹ ہی لیے ہوں گے۔ تم چلی جانا اور لے آنا ۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں ! جیسا بھی سوٹ ہو بھائی بھاوج محبت سے دے رہے ہیں۔ یہی بہت ہے اور دونوں ساتھ جائیں ، تیار رہنا شام میں ۔ دونوں بہنیں چائے کے وقت پہنچیں گھر پر تھے۔ دوڑ کر سموسے اور جلیبیاں لے آئے بھاوج نے گرم گرم چائے بنائی ۔ چائے ، سموسے جلیبیاں خوب پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔ تینوں بہن بھائی نہیں بول رہے تھے۔حمیرا بول پڑی۔بھائی کتنے عرصے بعد ایسے بیٹھے ہیں۔ کاش وقت تھم جائے۔ ارے ! ان لوگوں کو سوٹ تو دکھاؤ۔ بھائی نے بھابھی کو مخاطب کیا۔ ہاں ابھی لائی کہہ کر بھا بھی کمرے میں چلی گئیں۔۔واپس آئیں تو ساتھ بڑا سا تھیلا تھا جس ڈھیر سارے سوٹ تھے ، پیکنگ کے ساتھ تھے سب برانڈ کے تھے ، بھابھی نے چار پائی پر الٹ دیے۔عربیبہ تو دیکھ کر حیرت سے دنگ رہ گئی -بھا بھی کی بتانے لگیں ۔ محلے میں ایک عورت کپڑے بیچتی ہے۔ کل آئی تھی تو تمہارے بھائی نے کہا، کپڑے چھوڑ جاؤ میری بہنیں پسند کر لیں پھرلےجانا ۔میں نے بھی اسی میں سے ایک سوٹ دیا ہے _پچھلے سال شہلا کے بھائی، شہلا کو سوٹ دے کر گئے تو میں نے شہلا کو اتنا خوش دیکھا۔ تو سوچا بہنوں کو بھائی کے تحفے کی کتنی خوشی ہوتی ہے۔ مجھے بھی اپنی بہنوں کو سوٹ دینے چاہئیں۔ پچھلے سال دکان کا کام بہت ہلکا چلا تو شہلا جتنے پیسے میں نے دیے تھے، قریبی مارکیٹ سے ہی تم دونوں کے سوٹ لے آئی تھی۔ اچھے تو نہیں تھے مگر تم دونوں کی خوشی دیکھ کر پچھلے سال ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ اس سال بہت اچھے سوٹ دوں گا۔ تم لوگ سلوا کر پہین کر بھی آئیں تو میرا دل بہت بڑا ہوا کہ میرے تحفے کی میری بہنوں کو اتنی قدر ہے۔ اچھے برانڈ کا سوٹ دوں تا کہ تم لوگ بھی کسی کو فخر سے بتا تو سکو کہ بھائی نے دیا ہے۔ اس سال نیت کی تو اللہ نے اسباب بھی بنائے دکان کا کام بھی اچھا چلا۔عریبہ تو رونے لگی۔ حمیرا کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ بھائی نے دونوں بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھا اور دونوں بہنوں کے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ بہہ گیا۔ دل صاف ہوئے تو دونوں بہنوں نے دل کی گہرائیوں سے بھائی کی لمبی عمر، میکے کا مان قائم رہنے اور روزی میں برکت کی ڈھیر ساری دعا دیں۔اتنی ساری دعائیں سن کر بھائی، بھاوج دونوں طمانیت سے مسکرا دیے۔دونوں بہنوں نے سوٹ پسند کیے بہت اچھے سوٹ تھے ، بھابھی نے بھی اپنا سوٹ دکھایا۔ جو انہوں نے پسند کیا تھا۔ دونوں بہنیں خوش خوش خدا حافظ کہہ کر گھر کی طرف روانہ ہوئیں۔راستے میں عربیبہ کہنے لگی۔ آپی ٹھیک کہتی ھیں ، دروازے کھلے رکھنے چاہئیں اگر پچھلے سال میں جذباتی ہو کر کچھ کہہ دیتی تو بھائی اور بھابھی کا دل کتنا برا ہوتا-

·
Added a post

نا جانے کیا ہوا ہمارے کچن کو! اس دفعہ جو سودا مہینے سے اوپر چلتا تھا، وہ کافی دن پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اقصیٰ نے فکر مند لہجے میں اسد سے کہا۔اسد، جو مہینے کے آخر میں زیادہ بل آنے کی وجہ سے پریشان بیٹھا تھا، اقصیٰ کی بات سن کر سر کو دونوں ہاتھوں میں گرا لیا، گویا مزید پریشانی کا اظہار خاموشی سے کرنے لگا اور ایسے ظاہر کرنے لگا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔یہ میری سمجھ میں نہیں آتا، اسد! ہر پریشانی کا حل خاموشی تو نہیں ہے۔ چلو، بجلی اور پانی کے بل تو آپ کہیں سے مانگ تانگ کے جمع کروا دیں گے، لیکن کچن کا انتظام تو مجھے دیکھنا ہوتا ہے۔ جو آخری سات دن ہیں، وہ کیسے گزریں گے جبکہ گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں بچا اور سارا سودا ختم ہو چکا ہے؟ اگر میں آپ سے کچھ لانے کو کہوں تو آپ کہتے ہیں، خرچ تو تمہیں دے دیا تھا!اسد جتنا خاموش طبیعت تھا، اقصیٰ اتنی ہی زیادہ بولنے والی تھی۔ اس نے اسد کی خاموشی کو ایک بھرپور تقریر میں بدل دیا، مگر اسد کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس کی نظریں ایک ہی نقطے پر جمی رہیں، جیسے وہ کسی گہری سوچ میں گم ہو۔ جب وہ بولا تو بس اتنا کہا:اقصیٰ! ایسا کرتے ہیں کہ اماں کو واپس لے آتے ہیں۔ اماں کے جانے کے بعد ہی ہمارے گھر میں اتنے مسائل ہونے لگے ہیں۔اماں کے آنے یا جانے سے مہنگائی زیادہ یا کم تو نہیں ہوتی! اقصیٰ نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے کہا۔لیکن اماں جب تک یہاں تھیں، میں یہی سودا لاتا تھا، اور اماں بچپن میں جانے سے پہلے وہ تھیلا اپنے پاس رکھواتی تھیں، نہ جانے اس پر کیا پڑھ کر پھونکتی تھیں کہ اس میں برکت ہو جاتی تھی!لیکن اماں ہمارے پاس رہیں بھی تو ان کو بس ہر وقت اپنے چھوٹے بیٹے اور بہو کی فکر لگی رہتی ہے۔ اگر غلطی سے بھی ایک مہینے سے اوپر ہمارے پاس رک جائیں تو رونے لگتی ہیں کہ مجھے عابد اور اسما کے پاس چھوڑ آؤ، میرا ان کے بغیر دل نہیں لگتا!ہاں تو تم بھی حد کرتی ہو! اماں اگر تم سے دین کی کوئی دو چار باتیں کر لیں، تو تمہیں اپنے کام یاد آ جاتے ہیں اور تم بہانے ڈھونڈنے لگتی ہو۔ ان کی بتائی ہوئی باتوں میں بھی نقص نکالتی رہتی ہو کہ اماں نے ایسے بتایا ہے جیسے ہم تو دین کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہ ہوں! اسد نے قدرے بلند آواز میں کہا۔ہاں، لیکن وہ بھی تو کبھی کبھی حد کرتی ہیں! اگر دین کی کوئی بات چھیڑ دیں، تو دو دو گھنٹے اسی ایک موضوع پر لگی رہتی ہیں۔ میں کہتی بھی ہوں کہ مجھے اس بارے میں معلوم ہے، مگر وہ پھر بھی اپنی بات پر ڈٹی رہتی ہیں کہ سن لو، کام آئے گا۔ اب میرے بھی تو سو کام ہوتے ہیں! بچے ہیں، ان کے کام کرنے ہوتے ہیں، باہر کے بھی آدھے سے زیادہ کام مجھے کرنے پڑتے ہیں!تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اسما بھابھی کو دنیا کا کوئی کام نہیں یا ان کے بچے نہیں ہیں؟ وہ بھی تو اماں کے پاس بیٹھتی ہیں اور انہی باتوں کو کتنی دلچسپی سے سنتی ہیں!ارے، اسما بھابھی کو تو آپ رہنے ہی دیں! وہ تو بہت ہی بورنگ عورت ہیں۔ انہیں تو بس کوئی باتیں کرنے والا مل جائے اور وہ سنتی رہیں! اقصیٰ نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔اچھا، رہنے دو! تم سے کون جیت سکتا ہے؟ چلو، ایک کپ چائے ہی دے دو، پھر کچھ سوچتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔ بلکہ میں جاتا ہوں، کسی سے کچھ پیسے ادھار مانگتا ہوں، تنخواہ آنے پر واپس کر دوں گا۔ اسد نے بات ختم کرتے ہوئے کہا

دوسرے دن جب اسد آیا تو اماں کو بھی ساتھ لے آیا۔السلام علیکم! اماں کیسی ہیں؟ کتنے دن ہو گئے، آپ نے چکر ہی نہیں لگایا۔ یہاں سے جاتے ہی آپ ہمیں تو بھول جاتی ہیں، اقصیٰ نے ساس کے گلے لگتے ہوئے شکوہ کیا۔نہیں بیٹا! ایسی کوئی بات نہیں، بس اب صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ گھٹنوں میں کافی درد رہتا ہے، اس لیے ادھر ادھر جانے سے کتراتی ہوں۔ کیا بات ہے؟ خاموشی بہت ہے، بچے ابھی اسکول سے واپس نہیں آئے؟ اماں نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔دو نہیں، بیس آنے والے ہوں گے۔ اچھا اقصیٰ، کھانا لگا دو، بہت بھوک لگی ہے۔ آج آفس میں بھی کچھ نہیں کھایا۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں، اسد نے اٹھتے ہوئے اقصیٰ کو آواز دی۔اقصیٰ نے کھانا لگا دیا۔ رات کی دال سے کھچڑی بنائی تھی اور بچوں کے لیے دو انڈے فرائی کر لیے۔ اسد، اگر بتا دیتے کہ آپ اماں کو بھی ساتھ لا رہے ہیں تو میں کوئی سبزی بھی لا کر بنا لیتی، اقصیٰ نے کھانا ساس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔کوئی بات نہیں، جو ہے، اللہ اس میں برکت ڈالے۔بچے بھی دس منٹ بعد اسکول سے آ گئے۔ دادو کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، بیگ ایک طرف رکھ کر دادو کے گلے لگ گئے اور ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ گئے۔دادو صدقے جائے، اماں نے بچوں کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ہاتھ دھونے کی ہدایت دی۔اٹھو بچوں، ہاتھ دھو کر آؤ اور دعا پڑھ کر کھانا شروع کرو۔میں تو ان کو روز بتاتی ہوں، لیکن بچے ہیں، پھر بھول جاتے ہیں اور یوں ہی کھانے پر بیٹھ جاتے ہیں، اقصیٰ نے ساس کو اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا۔اماں بھی کھانا کھا کر نماز کے لیے اٹھ گئیں۔ اسد اور اقصیٰ بھی تھوڑی دیر آرام کرنے چلے گئے۔ بچوں نے اپنے کارٹون لگا لیے اور دیکھتے دیکھتے سو گئے۔عصر کے وقت جب اماں اور اقصیٰ شام کی چائے اکٹھی پی رہی تھیں تو اقصیٰ نے اماں سے اپنی پریشانی ظاہر کی۔نہ جانے اماں، کیسی بے برکتی ہے گھر میں… اسد کی آمدنی بھی ٹھیک ہے، لیکن پھر بھی مہینے کے آخر میں حالات بہت خراب ہو جاتے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا۔ ہر ممکن طریقے سے بجٹ بنا کر دیکھ چکی ہوں، پھر بھی گزارا مشکل ہو جاتا ہے۔اماں نے سکون سے اپنی چائے ختم کی، اقصیٰ کی طرف پہلو بدل کر بیٹھ گئیں اور اپنی بات شروع کی، جو وہ پہلے ہی سوچ کر آئی تھیں کہ آج اقصیٰ کو سمجھاؤں گی، شاید کچھ اثر ہو جائے۔بیٹا، کل عابد کے گھر بھی یہی بات ہو رہی تھی کہ گھر کے حالات کیسے چل رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کیا کروں، جتنا کما کر لاتا ہوں، اس سے زیادہ خرچ ہو جاتا ہے۔بیٹا، ساس بھی ماں کی طرح ہوتی ہے، میں کیوں چاہوں گی کہ میرے بیٹے کے گھر میں کوئی تنگی ہو؟ میں نے جب بھی تمہیں سمجھانے کے لیے دین اور دنیا کی کوئی بات کی، تو تم نے اسے رد کر دیا کہ اماں، ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ حالانکہ نماز اور قرآن پڑھنے سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ راشن بھرتے وقت ذکرِ الٰہی کیا جائے تو جو راشن مہینے کا ہوتا ہے، وہ ڈیڑھ مہینہ چلتا ہے، ان شاء اللہ۔اچھا، تو اماں آپ یہ کرتی تھیں؟ اور واقعی ہمارا راشن کافی وقت نکال لیتا تھا، اقصیٰ نے جلدی سے بات ختم کی۔ابھی میری بات ختم نہیں ہوئی، بیٹا! اماں نے اسے مزید بولنے سے روکتے ہوئے کہا۔اگر تم خود صبح جلدی اٹھو، نماز اور قرآن کو اپنی زندگی میں شامل کر لو، تو تمہاری زندگی میں بھی برکت ہو جائے گی۔ اگر تم رات دیر تک موبائل دیکھو گی اور صبح دیر سے اٹھو گی، تو بچے بھی تمہیں دیکھ کر وہی روٹین اپنا لیں گے۔ صبح جلدی اٹھنے سے ہم کئی پریشانیوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں، شیطان ہماری زندگی اور ہمارے دماغ پر حاوی نہیں ہوتا، اماں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔اور اب اسد کو جگاؤ کہ مجھے عابد کے گھر چھوڑ آئے، میں مغرب کی نماز وہاں جا کر پڑھوں گی۔اماں، آپ آج آئی ہیں اور ابھی سے جانے کی باتیں کرنے لگیں؟ بچے بھی ناراض ہوں گے۔ دو تین دن تو رکیں، پھر اسد چھوڑ آئیں گے۔نہیں بیٹا، میرا اسما کے بغیر دل نہیں لگتا، اماں نے اپنے دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے کہا، اور اقصیٰ سمجھ گئی کہ اماں کا دل اسما کے بغیر کیوں نہیں لگتا۔

·
Added a post

کتنی بار گھڑی دیکھ چکی تھی مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت تھم کر رہ گیا ہو۔ جون کی شدید گرمی اور حبس میں گھر کے اندر سانس لینا مشکل لگ رہا تھا، تو باہر قبرستان میں مردوں کا کیا حال ہو رہا ہوگا؟میں خود کو گرمی سے بچانے کے لیے، اور کسی طرح وقت گزارنے کے لیے مختلف باتیں سوچ رہی تھی۔ بندہ قرآن شریف بھی کتنا پڑھے؟ اوپر سے زمین پر بیٹھ کر دانے گننا بھی کوئی آسان بات نہیں۔ آدھے ایک گھنٹے بعد ہی میرے گھٹنے دکھنے لگے، اور میں بے چین ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی اور چھوٹے سے کمرے کی دیوار سے لگی کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھی۔میں نے ایک بار پھر گھڑی پر نظر ڈالی۔ اف، ابھی تو صرف دو ہی گھنٹے ہوئے ہیں۔ یعنی فقط ایک گھنٹہ پہلے تو یہ لوگ جمعہ کی نماز کے بعد میت کو میت گاڑی میں سوار کر کے قبرستان لے گئے تھے۔میرے پاس تو ہر لمحے کی خبریں بذریعہ واٹس ایپ مسجد سے آتی جا رہی تھیں۔یہ بھی عجیب بات تھی کہ مردوں میں کتنے ہی ایسے تھے جو مجھے ہر لمحے سے آگاہ کرنے میں شاید ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے تھے، مگر شوہر صاحب پہلی بار اس طرح کی بے نیازی دکھا رہے تھے۔خیر، ابھی تک قبرستان پہنچنے کا پیغام نہیں آیا تھا۔کب قبرستان پہنچیں گے، کب دفن ہوں گے، تو بہ تو…میں نے اپنا سر جھٹک کر خود کو جھاڑا، اور میری ہمیشہ کی تنی ہوئی، لمبی صراحی دار گردن ذرا سی لچک گئی۔اللہ کا خوف کرو بی بی! کل تم کو بھی مرنا ہے۔ اور کیا اچھا لگے گا تم کو، اگر کوئی تمہاری میت کے گھر میں بیٹھ کر تمہاری پسندیدہ شخصیت کو اس بے رخی سے جھیلتا؟حد ہو گئی بھئی! میں نے ایک بار پھر خود کو جھاڑا،اور ویسے بھی، کہاں مرحومہ، اور کہاں میں! میرے تو سب زار و قطار روئیں گے، اور روتے ہی چلے جائیں گے۔ جب میں اس دنیا سے جاؤں گی، تو جیسے سارا سنسار اشکبار ہو جائے گا۔ ہر کوئی مجھے چاہتا ہے۔ اتنی پرکشش اور خوبصورت ہستی کے دنیا سے اٹھنے پر ایسا قیامت انگیز دردناک منظر ہی تو رونما ہوتا ہے جیسے فلموں یا ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے۔گردن کا تناؤ ایک بار پھر بھرپور ہو چکا تھا۔مگر بھئی، ابھی سے مرنے کے بارے میں کیوں سوچوں؟ میں نہ صرف صحت مند، جوان اور خوش شکل ہوں بلکہ پیسے والی بھی ہوں۔ میرے والدین بھی اونچے درجے کے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اکثر ہم یہ فیصلہ نہیں کر پاتے تھے کہ آیا ہم امیر ہیں یا متوسط۔خیر، بتانے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے مجھے بڑے لاڈ سے پالا تھا۔ اور میری شادی کرتے وقت انہوں نے بھرپور چھان بین کی تھی کہ ان کی انمول بیٹی کو کوئی جسمانی یا ذہنی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ اسی لیے میرے لیے نہ صرف امیر شوہر ڈھونڈا گیا، بلکہ رشتہ طے کرتے وقت یہ بھی دیکھا گیا کہ میرا شوہر شادی سے پہلے ہی میرے عشق میں گرفتار ہو جائے۔جس کے لیے شادی سے پہلے ہی میرے والدین نے شوہر صاحب کے والدین کو یہ باور کرا دیا تھا کہ میری خوشی سب سے اہم ہے۔شادی کے بعد شوہر صاحب کو قابو کرنے کے لیے مجھے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی، کیونکہ وہ پہلے سے ہی مجھ پر فریفتہ تھے — یا شاید میں ایسا ظاہر کرتی ہوں۔میں یہ بات بہت معمول کے انداز میں کہتی ہوں: ان کو میرا بہت خیال رہتا ہے، وہ میری ہر خواہش کو پورا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک میری خوشی سب سے اہم ہے۔حالانکہ بظاہر دیکھا جائے تو شوہر صاحب ایک اچھے انسان ہیں، جو خود سے جڑے ہر شخص کو اہمیت دیتے ہیں۔ مگر میں ان کی اس عادت کو بھی اپنے مقصد میں استعمال کرتی ہوں۔ کیونکہ ایسا کوئی اعلانیہ بیان اکثر ساتھ بیٹھی دوسری خواتین کی آنکھوں میں رشک کے آنسو لے آتا ہے، جو مجھے بہت اطمینان دیتا ہے۔کیونکہ مجھے اپنی قسمت پر ناز کرنا اچھا لگتا ہے۔قسمت تو نسل در نسل ہمارے گھر کی باندی رہی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ میری آنے والی نسلیں بھی میری ہی طرح قسمت کی دھنی ہوں گی۔مگر ایک بات کے علاوہ بھی میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھنے میں بالکل حق بجانب ہوں، اور وہ یہ کہ مجھے ملنے والا ہر انسان — عورت یا مرد، بڑا، چھوٹا، جوان یا بوڑھا — مجھ سے بے حد محبت کرتا ہے۔ جو لوگ محبت نہیں کرتے، وہ بھی مجھ سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔مجھے کبھی کسی سے توجہ یا محبت کی بھیک نہیں مانگنی پڑی؛ سب کچھ مجھے خودبخود، بطورِ حق، ملتا چلا آیا۔لہٰذا مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں کہ جب کسی کو ایسے سب کچھ یا آسانی سے نہ ملے، یا امید ہو مگر غریبی یا بھوک اُسے آ دبوچے، تو ان کے دلوں میں کیسے کیسے دکھ جنم لیتے ہیں۔ شاید وہ اپنے آپ کو بدقسمت سمجھنے لگتے ہوں۔مگر میرے خیال میں بدقسمتی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اور نہ ہی کوئی انسان واقعی بدقسمت ہوتا ہے۔میرا یقین ہے کہ اصل میں لوگ بدقسمت نہیں بلکہ بزدل ہوتے ہیں۔ وہ اپنی خوشی کے لیے فیصلے لینے کی ہمت نہیں رکھتے۔اور میں اس بات پر بھی ایمان رکھتی ہوں کہ جو لوگ خود کو کمزور، بدصورت، یا بدقسمت سمجھتے ہیں، وہ دراصل شدید احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔یہ لوگ خود کو حساس سمجھتے ہیں اور ہر وقت دوسروں کے رویوں کو پرکھتے رہتے ہیں۔انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ کسی کے ساتھ برا کریں گے، کسی کا حق ماریں گے، یا کسی پسندیدہ انسان کو ماں باپ کے فیصلوں کے خلاف لے جائیں گے، تو ان کے ساتھ بھی برا ہو گا — دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔یہ سوچ ان کے اعتماد، عزت نفس اور انا کو مٹا دیتی ہے۔ایسے لوگ زندگی کی خوشی، امن، محبت — یہاں تک کہ زندگی خود — سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔اپنے آپ پر ترس کھانا، ہر وقت خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنا، اور محفلوں میں کونے کھدروں میں چھپ کر بیٹھ جانا کہ کہیں ان کی معمولی شکل و صورت یا سادہ لباس لوگوں کے ذوقِ جمال کو مکدر نہ کر دے — یہ سب بےوقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ارے، یہ سب کیا تماشا ہے؟کیوں نہیں سچ کہتے کہ تمہارے پاس پیسے کی کمی ہے؟اس بات کو ماننے میں کیا حرج ہے کہ دنیا میں معیار صرف پیسہ طے کرتا ہے۔انسان خوبصورت، دلکش، یا محبوب اس لیے بنتا ہے کہ اس کے پاس دولت ہے۔جس چیز پر نظر ڈالو، وہ تمہاری۔ جس انداز سے زندگی گزارنی چاہو، وہی سب سے بہتر راہ۔یہ سب پہلے کمال نہیں، بلکہ سرمایہ ہے۔اخلاق، محبت، رواداری، وفاداری — یہ سب غریبوں کے کام ہیں۔پھر بھی ان کی قسمت میں محرومی لکھی ہوتی ہے۔میں بھی اگر ایسی ہی غریبی میں پیدا ہوتی، تو شاید یونہی خاموشی سے مر جاتی،جیسے وہ مرحومہ مر گئی۔میرے جسم میں ایک جھرجھری سی دوڑ گئی۔ ایک عجیب سی خلش نے دل میں سر اُٹھایا۔میرا دھیان مرحومہ کی طرف گیا ہی تھا کہ بریانی کی خوشبو نے سارا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا۔چاہے جیسے بھی حالات ہوں، نیند اور بھوک برحق ہیں — اور یہ بات ماننے میں کیا قیامت ہے؟میں نے شوہر صاحب کو محض ایک سوالیہ نگاہ سے دیکھا۔میری نگاہ کو یوں نظرانداز ہونے کی عادت نہ تھی، اور میں اس پر غور ہی کر رہی تھی کہ چند کزنز اور مرحومہ کے بھائیوں کے میسجز آ گئے۔شکر ہے، وہ لوگ قبرستان سے نکل چکے تھے۔کہا گیا کہ زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔اتنے میں اگر دیگوں کو اچھی طرح کپڑوں میں لپیٹ دیا جائے تو بریانی ٹھنڈی ہونے سے بچ جائے گی۔ویسے بھی، گرمی جتنی بھی ہو، کھانے میں بریانی گرم ہی اچھی لگتی ہے۔میں نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ سوگواران اور دیگر مہمان سب اپنی دھن میں مصروف تھے۔بظاہر تلاوت یا دعا میں مگن، مگر حقیقت میں بریانی کی خوشبو سب کی بھوک جگا چکی تھی۔شوہر صاحب نے میت کی اطلاع ملتے ہی شہر کے سب سے مہنگے پکوان گھر سے بریانی کا آرڈر دے دیا تھا۔اور بھئی، غریب کے جانے کا دکھ بھی کیا ہوتا ہے؟میں تو یہ سوچ کر مطمئن تھی کہ بے چاری کی مشکل آسان ہو گئی۔ویسے بھی، جسے دنیا میں سکون نہ ملا، اُسے آگے کہاں ملتا ہے؟مرحومہ شوہر صاحب کی دور کی رشتہ دار تھیں، اور وہ اُنہیں اور ان کے گھر والوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔پھر بھی، جس بردباری اور خاموشی سے شوہر صاحب نے مجھے شامل کیے بغیر یہ سارے انتظامات کیے، مجھے تھوڑا دھچکا لگا۔یوں لگا جیسے شوہر صاحب کوئی چوری کرتے پکڑے گئے ہوں۔حالانکہ میں ہمیشہ ایسے معاملات میں لا تعلق رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہوں،لیکن اگر شوہر صاحب مجھ سے مشورہ کر لیتے، تو میں بتا دیتی کہ غریبوں کی میت میں آنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔جو آتے بھی ہیں، وہ یا تو دفنانے کے بعد آتے ہیں یا جلدی آکر چپ چاپ رخصت ہو جاتے ہیں۔اب یہ تین چار دیگیں اور کتنے ہی کیک و مشروبات جو آئے ہیں، سب ضائع جائیں گے۔نہ کوئی بڑا فریج ہے، نہ فریزر، جہاں بچی ہوئی بریانی کو محفوظ کیا جا سکے۔خیر، دیگوں کو دیکھ کر مرحومہ کی بھابھیوں کے چہروں پر چھلکتی خوشی نے مجھے شوہر صاحب کے فیصلے پر ایک بار پھر مطمئن کر دیا۔انسان کا پیٹ تو کبھی بھرتا ہی نہیں۔یہ دنیا کا دستور ہی نہیں۔ ایک وقت کا کھایا نہیں کہ دوسرے وقت کی فکر لگ جاتی ہے۔مرحومہ کی بھابھیاں دنیا دار تھیں، جیسے ہر غریب ہوتا ہے۔مگر مرحومہ — وہ عجیب سی شخصیت کی مالک تھی۔ایسی بے اعتمادی، ایسے دکھ جیسے اسے زبردستی اس دنیا میں بھیجا گیا ہو۔شاید کچھ لوگ واقعی ایسے ہی دنیا میں بھیجے جاتے ہیں —مگر کچھ اس طرح زندگی گزارتے ہیں جیسے دنیا پر اپنے وجود کا احسان کر رہے ہوں۔عاجزی سے رہنا، بے وجہ گھر میں جھینپتے رہنا،دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا،اپنے جذبات کو راز رکھنا،ہنستے ہوئے بھی آنکھوں میں نمی لیے رہنا —یہ سب کچھ اس میں تھا۔اور محبت سے مل کر میں اکثر بے جان ہو جایا کرتی تھی۔نہ جانے کیسی کشش تھی اس میں۔اس کے لہجے کی نرمی، چال ڈھال کے وقار میں کوئی ایسی چیز تھی جو میرے وجود کو،میرے تمام تر اعتماد کے باوجود، ہلا کر رکھ دیتی تھی۔میں اکثر فیصلہ کرتی تھی کہ اب کی بار اگر شوہر صاحب اس کے گھر جانے کو کہیں گے تو میں صاف انکار کر دوں گی۔عجیب بدروح سی لگتی تھی وہ۔میں دل میں سوچتی، یہ جو دھواں دھواں سا ہالہ اس کے گرد نظر آتا ہے —وہ دراصل اس بے انتہا صبر اور برداشت کا حصار ہے جس نے اُسے گھیر رکھا ہے۔اور پھر یہ سب مجھے ہی کیوں نظر آتا تھا؟شاید وہ میرے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح آتی رہی ہو،اور مجھے صرف لفظوں پر توجہ دینی تھی۔مگر میں ڈر کے مارے کبھی توجہ نہ دے سکی۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے لوگ جادوگر ہوتے ہیں۔

یہ دل، دماغ، سب قابو میں کر لیتے ہیں۔قربانی مانگتے ہیں، اور وفاداری خریدتے ہیں۔مگر میں ایسا نہیں کر سکتی تھی۔میں تو ایک خوش نصیب اور خوش قسمت انسان تھی۔پھر بھی، جب کبھی شوہر صاحب نے اس کے گھر جانے کی بات کی،میں انکار نہ کر سکی۔ویسے بھی، جب رشتہ دار غریب ہوں،تو امیر رشتہ داروں کا فرض بنتا ہے کہ کم از کم تہواروں میں اُن سے ملنے جائیں۔اور ہم ہر تہوار پر بلا ناغہ اُس کے گھر جاتے تھے۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب اس کی ماں بھی زندہ تھیں، جو شوہر صاحب کی دور کی خالہ لگتی تھیں۔نا چاہتے ہوئے بھی، شاید کئی بار میں نے شوہر صاحب کو ٹوکا تھا:تنہا خالی ہاتھ تو ہم اپنے والدین سے بھی ملنے نہیں جاتے،تو اس کزن کے گھر اس طرح منہ اٹھا کر کیوں چل پڑتے ہیں؟کئی مہینوں میرے سوالات کے بعد شوہر صاحب نے ایک دن خاموشی توڑتے ہوئے بس اتنا کہا:کیوں کہ کچھ لوگوں کے لیے اللہ ہی کافی ہوتا ہے، اور اس سے ملنے کی یہی شرط ہے۔اور ضروری تو نہیں کہ ہر راز ہر انسان پر کھل ہی جائے۔ اگر کسی کے ماضی پر پردہ پڑا ہو تو بہت سوچ سمجھ کر ہی اسے اٹھانے کی جسارت کرنی چاہیے، کیونکہ کبھی کبھی لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا میں نے بھی اس معاملے میں ولید آغا کو کریدنے سے اجتناب برتا۔ یہی میری طرف سے عقل مندی کا اقدام تھا کہ میں نے شوہر صاحب کو اکیلے وہاں جانے نہ دیا، تاکہ حدود قائم رہیں۔پھر شوہر صاحب کی دور کی خالہ، یعنی اس کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ اور بقول شوہر صاحب، اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا غنی کر دیا کہ سال بھر میں ایک یا دو ملاقات کا بھی وقت نہ رہا۔ پھر بھی ایک پتھر تھا جو میرے سینے پر دھرا تھا۔ اکثر جب شوہر صاحب کسی اور طرف متوجہ ہوتے، تو میں ان کے چہرے کے تاثرات اور انداز پر غور کرتی۔ ہزار ہا شکوک و شبہات مجھے گھیر لیتے، اور میں بے چین ہو کر خود کو ان پر زبردستی متوجہ کرنے لگتی۔کچھ سال پہلے معلوم ہوا کہ اسے کینسر کا مرض لاحق ہوگیا ہے، مگر پھر بھی اس نے جاتے جاتے چار سال تو نکال ہی لیے۔ ان چار سالوں میں شاید تین یا چار بار ہی ملاقات ہوئی ہوگی، مگر اس کی موت پر ایسا محسوس ہوا جیسے دل پر رکھا صدیوں پرانا بوجھ ہٹ گیا ہو۔ ایک ایسی سرشاری، ایسی خوشی، جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا ہو۔ مجھے اکثر خیال آتا کہ اگر اس کی جگہ میں چلی جاتی، تو کیا وہ بھی ایسا ہی کچھ محسوس کرتی؟ شاید نہیں۔میں نے دروازے سے باہر جھانکا۔ مردوں کے لیے لگایا گیا خوبصورت ٹینٹ، زمین پر بچھا صاف ستھرا قالین، آرام دہ کرسیاں، اور ہلکے رنگ کے میزپوش سے ڈھکی میزیں—یہ سب کچھ اس غریب، پرانے، بوسیدہ علاقے کے ماحول سے بالکل الگ تھلگ سا منظر پیش کر رہے تھے، جیسے کسی نے جادو سے یہ سب کچھ وہاں سجا دیا ہو۔دل پر ایک سایہ سا لہرایا۔ پھر جب میرے پیچھے گھومتی پھرتی عورتوں میں سے کسی نے آخری رسومات، میت کا گھر، مرنے والی جیسے الفاظ دہرائے، تو وہ سایہ یکدم رخصت ہوگیا، اور اس کی جگہ بھوک نے لے لی۔امیر رشتہ داروں کا فرض ہے کہ غریب رشتہ دار کے ہر دکھ درد میں شریک ہوں۔ میں پلٹنے ہی والی تھی کہ ٹینٹ میں مردوں کے داخلے کا منظر نظر آیا اور ادھر بیرے تیزی سے کھانے کے انتظامات میں لگ گئے۔ مجھے دروازے پر کھڑا دیکھ کر کئی رشتہ دار مرد مسکراتے ہوئے میری طرف آئے۔آپ لوگوں کا بہت احسان ہے، ورنہ یہ بے چارے اتنا کہاں کر پاتے؟ بس، اس کا اجر تو اللہ ہی دے گا۔ یہ بچارے تو شکر بھی ادا نہیں کر سکتے۔وہ مجھے طرح طرح سے بہلانے لگے، اور میری نظریں شوہر صاحب کو تلاش کرتی رہیں۔ کھانا لگتے ہی مجھے سب سے پہلے اطلاع دی گئی اور میرے بیٹھتے ہی کھانا بڑے اہتمام اور نفاست سے چن دیا گیا۔ بیروں کو خواتین کی طرف آنے کی اجازت نہ تھی، اور ویسے بھی خواتین میں کوئی قریبی سوگوار نہ تھا۔دو بہنیں تھیں جو میت کے اٹھتے ہی اپنی ماں بہنوں کو لے کر الگ الگ گروپ بنا کر بیٹھ گئی تھیں۔ کھانے کے وقت سب دسترخوان پر اس شدت سے اپنی پلیٹیں بھر رہے تھے جیسے بھوک نے انہیں گھیر رکھا ہو، اور ساتھ ہی بریانی کی ٹرے ایک دوسرے کے درمیان گھمائی جا رہی تھی۔ گرم بریانی کی خوشبو اور آوازیں گردش کر رہی تھیں۔ نہ کوئی میزبان تھا، نہ مہمان—غم کسی کو نہ تھا۔سب ہی خواتین بڑی پلیٹیں بھر رہی تھیں، اور سچ کہوں تو میں بھی انہی میں شامل تھی۔کچھ دیر بعد شوہر صاحب کا بلاوا آگیا اور مجھے سکون محسوس ہوا، کیونکہ کھانے کے بعد نیند آ رہی تھی، اور جون کی لمبی دوپہر ابھی مکمل ختم نہیں ہوئی تھی۔ میں نے مرحومہ کی بھابیوں سے چند رسمی باتیں کیں اور باہر نکل آئی۔ جیسے ہی شوہر صاحب کو دیکھا، دل دھک سے رہ گیا۔یہ انہیں کیا ہوا؟ صبح تک تو بالکل ٹھیک تھے۔ مگر اب ان کے چہرے کے گرد یہ دھواں دھواں سا ہالہ کیوں محسوس ہو رہا ہے، جیسے کوئی بڑا صدمہ سہہ گئے ہوں۔ شاید گرمی برداشت نہ کر پائے ہوں… میں نے خود کو تسلی دی۔واپسی کے سفر کے دوران ہماری جدید گاڑی کا تیز اے سی دن بھر کی گرمی کا اثر مٹا گیا۔ میں نے سیٹ کی پشت سے سر ٹکایا، آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ شوہر صاحب گویا ہوئے…ظاہر ہے، صاف کھلے راستے کی رکاوٹ کون انسان برداشت کر سکتا ہے۔ اب رکاوٹ کون تھا؟ میں یا وہ؟ یہ فیصلہ تو وقت نے کرنا تھا، جو میری خوش قسمتی کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے ہی حق میں کر چکا تھا۔میں نے دروازے سے باہر جھانکا۔ مردوں کے لیے لگایا گیا خوبصورت ٹینٹ، زمین پر بچھا ہوا صاف ستھرا سرخ قالین، اور اس پر ترتیب سے رکھی گئی دیدہ زیب پلاسٹک کی آرام دہ کرسیاں اور ہلکے رنگ کے میزپوش سے ڈھکی گول میزیں — یہ سب اس غریب اور پرانے طرز کے بوسیدہ علاقے کے گردونواح سے بالکل الگ تھلگ سا منظر پیش کر رہی تھیں، جیسے کسی نے جادو سے یہ سب کچھ یہاں لا رکھا ہو۔دل پر ایک سایہ سا لہرایا۔ اور جب میرے پیچھے گھومتی پھرتی عورتوں میں سے کسی نے آخری رسومات، میت کا گھر، مرنے والی کے نام جیسے کچھ ملے جلے الفاظ دہرائے، تو وہ سایہ ایک دم رخصت ہو گیا، اور اس کی جگہ بھوک نے پھر سے ڈیرا جما لیا۔امیر رشتہ داروں کا فرض ہوتا ہے کہ غریب رشتہ دار کے ہر دکھ درد میں شریک ہوں۔ میں پلٹنے ہی والی تھی کہ ٹینٹ میں مرد داخل ہوتے دکھائی دیے، اور دوسری طرف بیرے تیزی سے گھوم پھر کر ٹینٹ میں کھانے کے انتظامات کرنے لگے۔ مجھے دروازے پر کھڑا دیکھ کر کئی رشتہ دار مرد مسکراتے ہوئے میری طرف آئے۔آپ لوگوں کا بہت احسان ہے، ورنہ یہ بے چارے اتنا کہاں کر پاتے۔ بس، اس کا اجر تو اللہ ہی دے گا۔ یہ بے چارے تو شکر بھی ادا نہ کر سکے۔وہ مجھے طرح طرح سے بہلانے لگے، جبکہ میری نظریں مسلسل شوہر صاحب کو تلاش کرتی رہیں۔کھانا لگتے ہی خواتین میں سب سے پہلے مجھے اطلاع دی گئی، اور میرے دسترخوان پر بیٹھتے ہی بڑے اہتمام اور نفاست سے کھانا چن دیا گیا۔ بیروں کو خواتین کے حصے میں آنے کی اجازت نہیں ملی تھی، اور ویسے بھی وہاں کوئی قریبی سوگوار خاتون موجود نہ تھی۔دو بہنیں تھیں، جو میت کے اٹھتے ہی اپنی ماں اور بہنوں کو لے کر الگ الگ گروپ میں بیٹھ گئی تھیں۔ کھانے کے وقت سب خواتین بڑی شد و مد سے اپنی پلیٹیں بھرنے میں مصروف تھیں اور بریانی کی ٹرے ایک سے دوسری کے درمیان گھمائی جا رہی تھی۔ ٹرے گھما کر لاتے ہوئے “گرم بریانی” کی آوازیں گردش کر رہی تھیں۔نہ کوئی میزبان تھا نہ مہمان۔ غم کا کسی پر اثر نہ تھا کہ کوئی پہلے کسی کو بٹھاتا یا اس کے آغاز کا انتظار کرتا۔سب ہی خواتین بریانی کے بڑے بڑے چمچ بھر رہی تھیں، اور سچ کہوں تو میں بھی ان میں شامل تھی۔تھوڑی دیر بعد شوہر صاحب کا بلاوا آ گیا اور میری جان میں جان آئی، کیونکہ کھانے کے بعد اب شدید نیند آ رہی تھی، اور جون کی لمبی دوپہر ابھی مکمل ختم نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا گھر جا کر قیلولہ کرنے کا وقت ابھی باقی تھا۔میں نے جلدی میں مرحومہ کی بھابیوں سے چند الوداعی جملے کہے اور باہر نکل آئی۔ جیسے ہی شوہر صاحب کے چہرے پر نظر پڑی، دل دھک سے رہ گیا۔یہ کیا ہوا ان کو؟ صبح تک تو بالکل ٹھیک تھے۔ مگر اب ان کے چہرے کے اردگرد یہ دھواں دھواں سا ہالہ کیوں محسوس ہو رہا ہے، جیسے کسی بڑے صدمے نے ان کے وجود کو گھیر لیا ہو؟ شاید گرمی کی شدت برداشت نہ ہو پائی ہو… میں نے خود کو تسلی دی۔واپسی کے سفر کے دوران ہماری جدید گاڑی کے تیز اے سی نے دن بھر کی گرمی کا اثر یکسر ختم کر دیا۔ میں نے سر سیٹ کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں بند کرنے کا سوچا ہی تھا کہ شوہر صاحب گویا ہوئے۔مانا کہ بیمار تھی، مگر مرنے کے بعد اتنی ہلکی ہو گئی تھی کہ کندھا دیتے ہوئے بالکل یوں لگ رہا تھا جیسے ہم میت کے بغیر ہی چل رہے ہوں۔ جب ہمارے بوڑھے چچا نے اپنی باری پر کندھا دیا تو کچھ اس انداز سے کلمہ پڑھنے لگے کہ سب کو میت کے ہلکے پن کا احساس ہو گیا۔ اس کے دونوں بھائی، جو آگے تھے، وہ بھی رونے لگے۔ مجھ سے بھی برداشت نہ ہو سکا۔میں نے گم شدہ وزن ایک بار پھر اپنے سینے پر محسوس کیا اور بےچینی سے پہلو بدلا، مگر شوہر صاحب اپنی دھن میں بولے جا رہے تھے۔ وہ بے چارے بھی کیا کرتے، انہیں کہیں نہ کہیں تو بولنا ہی تھا، کسی سے تو دکھ بانٹنا ہی تھا۔ مگر شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ میں ان کی شریکِ حیات ہونے کے باوجود، ان کے اس دکھ کو بانٹنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھی — اور شاید کبھی تیار ہو بھی نہ سکوں۔ہم دونوں کی عمر میں زیادہ فرق نہیں، اور پیشے سے دوستی تھی۔ وہ مجھے ہمیشہ سمجھتے آئے تھے، مگر اس لمحے شوہر صاحب نے بغیر پوچھے ماضی کے پردے اٹھانے کی ٹھان لی تھی۔ اور میں چاہ کر بھی، بے انتہا کوشش کے باوجود، اس سے آگے سننے کی ہمت نہ کر سکی۔ میں نے ان کو واپس اس دنیا میں لانے کے لیے سرگوشی کی:آپ کو یاد ہے، آپ ہی نے کہا تھا کہ کچھ لوگوں کے لیے صرف اللہ کافی ہوتا ہے۔ وہ اس لیے ہلکی پھلکی تھی کہ اپنا سارا بوجھ اللہ پر ڈال چکی تھی۔ جیسے زندگی میں صرف اللہ ہی کافی تھا، ویسے ہی موت میں بھی صرف اللہ ہی اس کے ساتھ تھا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اس کی یہ خواہش ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔

·
Added a post

دلہن! کل مہمان آ رہے ہیں، بریانی تم بنانا۔ سالن بڑی دلہن پکائے گی۔جی ! کہہ کر منزہ دل ہی دل میں اُن لمحوں کو کوسنے لگی جب وہ سسرال آ کر مزے مزے کی دیگ جیسی بریانی سب کو پکا کر کھلاتی اور خوب تعریفیں سمیٹتی۔اب تو بریانی اس کے گلے پڑ گئی تھی۔ جب بھی گھر میں کوئی دعوت ہوتی، ساس بریانی پکانے کا کام منزہ کو سونپ دیتیں۔ بڑی بھابھی تو بس اپنا سالن پکاتیں اور فارغ ہو جاتیں، جبکہ منزہ کو تاکید کی جاتی کہ بریانی مہمانوں کے آنے کے قریب وقت میں دم پر رکھنا تاکہ گرم رہے۔سلاد کاٹنا، راستہ صاف کرنا، اور کباب فرائی کرنا — سب کچھ منزہ کے حصے میں آتا۔پانچ بجے کے قریب، شوہر کو آفس بھیج کر وہ ذرا لیٹی تو آپا کو فون کرنے کا خیال آیا۔ فون ملایا اور دل کے پھپھولے پھوڑنے لگی۔

ابھی بات شروع ہی ہوئی تھی کہ آپا کی آواز آئی:نیٹ کا مسئلہ ہے، وائس میسیج پر بات کرو۔منزہ نے فوراً وائس میسیج بھیجا:بریانی تو گلے کو آ گئی ہے!ادھر سے آپی کا میسیج آ گیا:عقل مندی سے کام لو، اگر جان چھڑانی ہے بریانی سے تو اس بار مرچیں تیز کر دو، پھر دیکھنا ساس کبھی نہیں کہیں گی تم بریانی بناؤ۔منزہ بولی:ارے آپی! یہ کام اتنا آسان تھوڑی ہے۔ ساس کو میری بریانی اس لیے پسند ہے کہ میں ہلکے مصالحے میں بناتی ہوں، اگر مرچیں تیز کر دیں تو خوب سنائیں گی۔ عجیب مشورہ ہے آپ کا۔مگر آپا بھی کہاں ہار ماننے والی تھی۔ چھوٹی بہن کی پریشانی دل پر لے لی اور اصرار کرنے لگی۔ آخرکار منزہ نے ہامی بھر لی، میسیج کا جواب دیا، اور اللہ حافظ کہہ کر کپڑے استری کرنے چلی گئی۔مہمانوں کی آمد کی وجہ سے آج کام کچھ زیادہ ہی تھا۔ باسی سے برتن نکلوا کر دھلوائے، کچھ صفائی کروائی، اور آدھا دن یوں ہی گزر گیا۔دوپہر کے کھانے کے ساتھ ہی منزہ نے بریانی کا مصالحہ بھی بنا لیا۔ آج گھر میں جو بریانی مصالحہ آنا تھا، وہ کمپنی کا نہیں ملا جو منزہ استعمال کرتی تھی۔ سسر دوسری کمپنی کا لے آئے۔ منزہ نے اعتراض کیا تو سسر بولے:بیٹا، نئی چیزیں بھی ٹرائی کرنی چاہئیں۔ کیا پتا یہ پہلے سے بہتر ہو!منزہ مسکرا دی۔مصالحہ بناتے ہوئے وہ آپی کا مشورہ بھول ہی گئی، اور ہمیشہ کی طرح ہلکے مصالحے کی بریانی کا مصالحہ تیار کیا۔ چاول صاف کر کے رکھے، ہرا مصالحہ کاٹ کر رکھا اور کچن صاف کر کے باہر نکل آئی۔بھابھی بھی جلدی جلدی گوشت بھون کر فارغ ہو رہی تھیں۔ دونوں بہوؤں کا کام مکمل ہوا تو ساس بھی نمازِ ظہر سے فارغ ہوئیں، کھانا کھایا، اور منزہ آرام کی غرض سے کمرے میں آ گئی۔

لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی اور اسد کے فون سے جاگی۔ اسد آفس سے نکل رہا تھا، پوچھ رہا تھا کچھ لاؤں؟ آیا نے صبح ہی کہہ دیا تھا کہ میٹھا نہ بنانا، اسد واپسی میں چھوٹے گلاب جامن لیتا آئے گا۔ منزہ نے یاد دہانی کروائی اور موبائل چارج پر لگا دیا۔ٹائم کم تھا، عصر کی نماز پڑھی، کپڑے بدلے، تیار ہوئی اور باہر آ گئی۔ بھابھی چائے چڑھا چکی تھیں۔ منزہ نے ٹرالی سیٹ کی، اتنے میں اسد بھی آ گیا۔ سب نے مل کر چائے پی۔ ساس نے بتایا:مہمان ساڑھے سات بجے تک آ جائیں گے۔بھابھی کا سالن تو تیار تھا، مگر منزہ کے کئی کام باقی تھے — چاول بھگونا، تہہ لگانا۔مغرب کی نماز پڑھ کر وہ کچن میں آ گئی۔ جلدی جلدی چاول بھگوئے۔ شکر ہے، بھابھی چائے کے برتن دھو کر کچن سمیٹ چکی تھیں۔ چولہے پر چاولوں کا پانی چڑھایا ہی تھا کہ مہمانوں کے آنے کی آوازیں آنے لگیں۔سلام دعا کے بعد منزہ کچن میں واپس آئی تو بھابھی شربت پیش کرنے کے لیے ٹرے سیٹ کر رہی تھیں۔بھابھی نے کہا:تم بریانی کی تہہ لگا کر دم پر رکھو، میں جوس سرو کر دیتی ہوں۔ سلاد بھی کاٹ لو، کچھ تو کام آسان ہوا!منزہ نے جلدی جلدی چاول ابالے، بریانی کی تہہ لگا کر دم پر رکھی، پھر کباب نکالے اور بھابھی سے کہنے لگی:میں فریش ہو کر آتی ہوں، پھر کباب فرائی کروں گی تاکہ گرم بھی رہیں۔ہاں ہاں، آ جاؤ! ابھی تو وقت ہے۔ میں بھی مہمانوں کے پاس بیٹھنے جا رہی ہوں، تم بھی آ جانا۔منزہ پسینے میں شرابور تھی۔ جلدی سے فریش ہونے کے لیے کمرے میں آئی تو دیکھا، اسد وہیں موجود تھے۔ منزہ کو اسد کا موڈ کچھ بوجھل لگا، اس نے پوچھا:کیا ہوا؟ آفس کی کوئی ٹینشن ہے؟اسد نے منزہ کو بہت غور سے دیکھا، پھر ایک طرف رکھا ہوا منزہ کا موبائل اٹھایا اور آپا کی وائس میسیج آن کر دی۔ میسج میں صبح آپا کی وہ بات سنائی دی جس میں وہ کہہ رہی تھیں:بریانی میں مرچیں تیز کر دینا۔اس کے فوراً بعد منزہ کی ہامی بھرنے والی آواز بھی سنائی دی۔ منزہ شرمندگی سے پانی پانی ہو گئی۔ دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ شادی کے ان چار مہینوں میں منزہ نے اسد کی آنکھوں میں ہمیشہ محبت اور پیار دیکھا تھا، اور آج انہی آنکھوں میں اپنے لیے غصہ دیکھنا اس کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔منزہ کی تو نظریں اٹھانا بھی دشوار ہو گئی تھیں۔ کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا، سب کچھ واضح ہو چکا تھا۔ اسد نے کہا:بہت افسوس ہوا منزہ! میں تمہیں ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ میرے گھر کی باتیں تم اس طرح ڈسکس کرتی ہو؟ اگر کوئی مسئلہ تھا، تو مجھ سے کہتیں۔منزہ کو اپنا آپ مجرم محسوس ہونے لگا۔ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

نکلے ہوئے الفاظ اور چلے ہوئے تیر کبھی واپس نہیں آتے۔ اسے اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔ وہ ابھی اسی احساسِ ندامت میں تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔چھوٹا عزیز دروازے پر کھڑا تھا۔ بولا:چاچی! امی کہہ رہی ہیں، جلدی آ جائیں، کھانا لگانا ہے۔ دادی بھی بلا رہی ہیں۔منزہ نے جواب دیا:آ رہی ہوں!اور پلٹنے لگی تو اسد کہنے لگے:تمہارا موبائل چارج پر لگا تھا۔ آیا کا میسج آیا تھا، تم مصروف تھیں، میں نے سوچا شاید کوئی ضروری بات ہو۔ جب وائس میسج سنا، تو اندازہ ہوا کہ تم کچھ پریشان ہو۔ اسی لیے پھر ساری چیٹ سن لی۔ کاش نہ سنتا..یہ کہہ کر اسد کمرے سے باہر چلے گئے۔منزہ ان لمحوں کو کوسنے لگی جب محبت میں آ کر شادی کے شروع دنوں میں اس نے اسد سے کہا تھا:نہ آپ فون پر لاک لگائیں گے، نہ میں۔ آپ میرا فون چیک کر سکتے ہیں، اور میں آپ کا۔اسد نے اسی وقت اپنے فون کا لاک ہٹا دیا تھا، منزہ تو ویسے بھی لاک لگاتی ہی نہیں تھی۔ اب تو منزہ کا جی چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ اپنے محبوب کی نظروں میں گر جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور کچن میں جا کر بھابھی کے ساتھ کھانے کی تیاری میں لگ گئی۔بھابھی نے چھیڑا:منزہ! تمہیں دیر ہو گئی، تو میں نے کباب فرائی کر دیے۔ لگتا ہے دیور جی نے روک لیا تھا، منزہ نے پھیکی سی ہنسی ہنسی اور دل میں سوچنے لگی:کاش! کمرے میں نہ گئی ہوتی…کھانا لگایا گیا۔ اسد بھی آ کر دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ منزہ اور بھابھی کھانے کی سروس میں لگیں۔ مہمانوں نے زیادہ تر روٹیاں کھائیں۔ بریانی کچھ زیادہ تیز مرچوں والی بن گئی تھی۔ ساس نے مہمانوں کو بتایا:چھوٹی دلہن کی بریانی تو ہلکے مصالحے کی ہوتی ہے، آج مصالحہ کچھ تیز ہو گیا ہے۔ دراصل آج دوسری کمپنی کا مصالحہ استعمال کیا ہے، شاید اسی وجہ سے۔مہمان “ہوں، ہاں” میں سر ہلا رہے تھے کہ اسد نے منزہ کو تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا:امی! آپ تو بہت سیدھی ہیں۔ اپنی دانست میں تو اس نے بالکل پرفیکٹ بریانی بنائی ہے، کیوں منزہ؟منزہ کے جسم میں جیسے جان ہی نہ رہی۔ زمین میں گِر جانا اور بات ہے، لیکن شوہر کی نظروں میں گِر جانا پوری زندگی کی شکست ہے۔ منزہ بس یہ سوچ کر رہ گئی کہ اب صفائی میں کچھ بھی کہوں، بے کار ہوگا۔ اسد تو کبھی یقین نہیں کریں گے۔ اُن کی نظروں میں اپنے لیے نفرت اور بے توقیری کیسے برداشت کروں گی؟اور تب ہی اس نے دل ہی دل میں خود کو سمجھایا:بغیر سوچے سمجھے لڑکیاں سسرال میں بیٹھ کر میکے میں سب کچھ رپورٹ کر دیتی ہیں، اور میکے والے بھی بس بیٹی کی پریشانی دیکھ کر مشورے دے دیتے ہیں۔ مگر اُنہیں کیا خبر سسرال کی پیچیدگیاں؟ بیٹی کی سمجھداری یہ ہونی چاہیے کہ وہ سسرال کے مسئلے سسرال میں ہی حل کرنے کی کوشش کرے…

·
Added a post

کھانا ایسا بنایا ہے کہ حلق سے نیچے نہ اُترے.ساس کی سرگوشی اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ارے طیبہ! یہ کھانے کی ٹرے اُٹھا کر لے جا، ابھی میرا جی متلا رہا ہے۔صفیہ بیگم نے لہجے کو میٹھا بناتے ہوئے اپنی اکلوتی بہو کو آواز دی۔طیبہ، جو اپنی ساس کی سرگوشی سُن چکی تھی، آنسو ضبط کرتے ہوئے آئی۔ چپ چاپ ٹرے اُٹھائی اور کچن کی طرف چل دی۔باورچی خانے میں جا کر اُس نے ٹرے کاؤنٹر ٹاپ پر رکھی اور سالن چکھا۔ نمک نہ ہونے کے برابر تھا، اور تیز مرچیں گلے میں لگنے لگیں۔ صاف ظاہر تھا شوربا بھی ڈھنگ سے نہیں پکا تھا۔ سالن کے ذائقے نے اُس کے اندر کی بیزاری کو مزید بڑھا دیا۔وہ کسی اور کام میں مصروف تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ہاتھ دھو کر دوپٹے سے خشک کیے، فون اُٹھایا اور کان سے لگا لیا۔جی ٹھیک ہے، میں پھوپھو کو بتا دیتی ہوں۔ اللہ حافظ۔ پھوپھا حسن کا فون تھا۔ بتا رہے تھے کہ شام کو عنایہ اور واصف آ رہے ہیں، اور کھانے کا اچھا انتظام ہونا چاہیے۔یہ کہتے ہوئے طیبہ خود بھی کچھ متذبذب سی ہو گئی۔ہائے میری بچی پرائے ملک جا رہی ہے، نہ جانے کب واپس لوٹے گی۔ ماں کے گھر سے تو بیر ہو کر جا رہی ہے۔صفیہ بیگم نے اداس سے کہا۔تھوڑی دیر پہلے کی وہ سرگوشی طیبہ کے کانوں میں گونجی اور دل میں ایک بےچینی سی اُبھر آئی۔ساس نے طیبہ کی پریشانی بھانپ لی۔طیبہ، تُو اپنا کر کے تانیہ کو فون کر دے، تاکہ وہ آ کر کھانے کا انتظام کر دے۔صفیہ بیگم نے اپنی بڑی بیٹی کو، جو پڑوس میں بیاہی گئی تھی، بلانے کا مشورہ دیا۔طیبہ نے نند کو فون کرنے کے بعد خود کو دوبارہ کچن کے کاموں میں مشغول کر لیا۔تانیہ کے آنے سے پہلے ہی طیبہ نے کھانے کے لیے تمام ضروری تیاری مکمل کر لی تھی۔دروازہ کھلا اور تانیہ اندر آئی۔ماں، کیا کیا بنانا ہے؟اس نے گھر میں قدم رکھتے ہی پوچھا۔آ جا، بیٹھ جا، پہلے پانی پی، سانس تو لے لے۔صفیہ بیگم بیٹی کی تھکن دیکھ کر فکر مند ہو گئیں۔امی، بٹھانے کے لیے بلایا ہوتا تو بیٹھ بھی جاتی۔ اب آپ نے بلایا ہی کام کے لیے ہے، تو وہی کر لیتی ہوں تانیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا اور چادر اتار کر دوپٹہ لیتے ہوئے ماں کا جواب دیے بغیر باورچی خانے کی طرف چل دی۔یا جی! آپ بیٹھیں، تھوڑی دیر میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔ رہنے دو، طیبہ! میں کھانا بناتے ہوئے خود ہی چائے بنا لوں گی۔اور یہ بتا دو کہ کیا کیا پکانا ہے۔ کھانے کا بتا کر تم گھر کا ایک بار جائزہ لے لو، کہیں جھاڑ پونچھ کی ضرورت تو نہیں۔تانیہ نے بھابھی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔ مہمانوں کے آنے سے پہلے طیبہ پورے گھر کو چمکا چکی تھی۔ تانیہ نے سیدھا سادہ کھانا بنایا تھا اور کھانا تیار کر کے ماں کے پاس جا بیٹھی تھی۔ جب طیبہ کو گھر کی صفائی سے فرصت ملی، تو اُس نے باورچی خانے میں جھانکا، جہاں دھونے والے برتن اس کا منہ چِڑھا رہے تھے۔اتنے میں باہر شور و غل بلند ہوا، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مہمان آ چکے ہیں۔مہمانوں سے ملنے کے بعد طیبہ نے چائے کے ساتھ کچھ ہلکی پھلکی تواضع پیش کی۔ جب سب چائے پی چکے تو اُس نے برتن سمیٹے اور کچن میں جا کر برتن دھونے لگی، جبکہ تانیہ ماں، بہن اور بہنوئی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی۔جب طیبہ برتن دھو کر فارغ ہوئی تو مہمانوں کے پاس بیٹھنے چلی، لیکن صفیہ بیگم نے فوراً آواز دی کہ طیبہ بیٹا، کھانا لگا دو۔طیبہ نے اثبات میں سر ہلایا اور منظر سے ہٹ گئی۔کھانے کے دوران ہر ایک کی زبان پر تانیہ کے ہاتھ کے بنے کھانے کی تعریف تھی۔ ماں فخر سے اپنے داماد کے سامنے اپنی بیٹی کی شان میں قصیدے پڑھ رہی تھیں۔طیبہ خاموشی سے کھانا کھاتی رہی۔کسی نے نہ اُسے بلایا، نہ اُس کی محنت کو سراہا، نہ کسی رشتے کی حیثیت سے اُسے یاد کیا۔کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔جب مہمان رخصت ہوئے تو طیبہ کے سر پر دوبارہ باورچی خانے کی صفائی کی تلوار لٹک رہی تھی۔ تانیہ اپنا کام ختم کر کے واپس اپنے گھر جا چکی تھی۔طیبہ نے رات کو کافی دیر تک کچن کا کام نپٹایا۔جب وہ تھکن سے چور ہو کر اپنے کمرے میں آئی تو شوہر کو اپنا منتظر پایا۔طیبہ، کہاں رہ گئی تھیں؟ پیٹ بھر کر اتنا مزیدار کھانا کھایا ہے کہ نیند آ رہی ہے حسن نے تبصرہ کیا۔جی، آپ سو جائیں۔ مجھے صبح امی کے گھر بھی جانا ہے، آپ نے چھوڑنا ہے طیبہ نے یہ کہہ کر کروٹ لی اور سونے کی تیاری کرنے لگی۔

اں کے گھر آ کر بھی طیبہ چپ چپ سی تھی۔وہ یہ سوچ کر اداس تھی کہ کسی نے اُسے نہیں سراہا۔ کسی نے اُس کی محنت کو خاطر میں نہیں لایا۔ سب نے صرف کھانے کی تعریف کی، اور وہ بھی تانیہ کے نام سے۔اب وہ ماں کے گھر آئی تھی تو دل میں ٹھان لیا تھا کہ تھوڑا بہت کھانا پکانا سیکھ کر ہی واپس جائے گی۔شام کو جب وہ کھانا بنانے کے لیے کچن کی طرف بڑھی تو بھابھی نے اُسے روک دیا کہ دو دن کی مہمان ہو، مزے کرو، آرام کرو۔ سسرال میں یہی سب تو کرنا ہے۔طیبہ خاموشی سے پلٹ آئی اور ماں کے پاس جا بیٹھی۔صفیہ بیگم سب کچھ سمجھ گئی تھیں۔اُن کی بیٹی سسرال میں کھانا پکانا نہ آنے کی وجہ سے باتیں سُن رہی تھی، ورنہ اُسے باقی ہر کام خوب آتا تھا۔طیبہ بیٹی، ایک دو دن میں کوئی بھی کام مکمل طور پر نہیں سیکھا جا سکتا۔گھر جا کر روز کچھ نہ کچھ دل سے سیکھو، میری بیٹی سب کچھ سیکھ جائے گی ماں نے نرمی اور شفقت سے سمجھایا۔جی امی، میں سیکھ لوں گی طیبہ نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔گھر آنے کے بعد پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کھانے میں کیا پکا ہےاسی لیے بیٹی کو گھر سے ہی سب کچھ سکھا کر بھیجنا چاہیےماں کے دل میں ملال کی ایک ٹھنڈی لہر اُٹھی۔اُدھر طیبہ کو بھی افسوس تھا کہ اُس نے خود کو صرف تعلیم حاصل کرنے تک محدود رکھا۔اُس نے کبھی عملی زندگی کے لیے خود کو تیار ہی نہیں کیا۔شادی کوئی پریوں کی کہانی نہیں ہوتی۔وہی لڑکیاں سسرال میں اپنی پہچان بنا پاتی ہیں جو ماں باپ کے گھر سے ہی بنیادی کام، رکھ رکھاؤ اور سلیقہ سیکھ کر جاتی ہیں۔وہ جو زندگی کو صرف خوابوں میں نہیں دیکھتیں بلکہ خود کو ہر پہلو سے سنوارتی ہیں۔جو لڑکیاں محض ایک ہی چیز — تعلیم، خوبصورتی یا آزادی — کو اپنا کل خواب بنا لیتی ہیں، اور عملی زندگی کے لیے خود کو تیار نہیں کرتیں،وہ شادی کے بعد طیبہ کی طرح شرمندگی، احساسِ کمتری اور تنہائی کا سامنا کرتی ہیں۔

طیبہ چار دن بعد جب سسرال واپس لوٹی تو یہ عزم کر چکی تھی کہ وہ اب کسی کی بات کو دل پر لگا کر اپنی بہتری کا سفر نہیں روکے گی۔رات کو جب سب کھانا کھا رہے تھے تو طیبہ نے قدرے بلند آواز میں اپنی ساس سے مخاطب ہو کر کہا:پھوپھو، تعلیمی مصروفیت اور لاڈ پیار کی وجہ سے میں نے ایک بنیادی اور اہم ہنر کو پسِ پشت ڈال دیا۔میں مانتی ہوں کہ یہ میری غلطی تھی، کیونکہ سمجھ دار تو وہی ہوتا ہے جو اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائے۔میں اپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے یہ وعدہ کرتی ہوں کہ اب دل سے کھانا پکانا سیکھوں گی۔طیبہ کی بات پر ساس مسکرا دیں اور دل سے اپنی بہو کو دعا دی۔اگلے ایک ماہ میں طیبہ نے ساس اور نند کی نگرانی میں دل لگا کر کھانا پکانا سیکھا۔چند دن بعد حسن کی پروموشن کی خوشی میں گھر میں ایک چھوٹی سی دعوت کا اہتمام کیا گیا، جس میں طیبہ کے میکے والے بھی مدعو تھے۔دعوت کا سارا کھانا طیبہ نے خود تیار کیا۔ کھانا نہایت لذیذ تھا اور سب نے دل کھول کر تعریف کی۔بالآخر میری بیوی نے کر دکھایا،حسن نے فخر سے کہا تو طیبہ شرما گئی۔وہ دل سے رب کی شکر گزار تھی۔ اُس نے دکھ دکھایا تھا، اور رب نے اُسے اس ہنر میں مہارت عطا کر دی۔غلطیاں زندگی کا حصہ ہوتی ہیں، j jمگر ان کو تسلیم کر کے، سچی نیت اور خلوصِ دل سے خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا ہی اصل دانشمندی ہے